حکومت طالبان ڈائیلاگ

یہ عجیب اتفاق ہے یا سوچی سمجھی سازش یہ وائٹ ہاؤس کا نیا پینترا ہے یا تحریک طالبان پاکستان کا احساس ندامت کہ جونہی تحریک طالبان نے حکومت کو مذاکرات کی دعوت دی تو امریکہ کے سبکدوش ہونے والے ڈیفینس منسٹر لیون پینٹا نے جاتے جاتے ہنگامی طور پر اخری ڈرون حملے کا وحشیانہ میزائل داغ دیاکہ پاکستان کے خلاف ڈرون حملے جاری ر ہیں گے۔ ان کا کہنا تھا جب تک امریکہ کو شدت پسندوں اور اسلامک عسکریت پسندوں سے خطرات لاحق ہیں ڈرون یورش پوری آب و تاب سے جاری رہے گی۔ لیون پینٹا کی بیان بازی ایک ایسے نازک موڑ پر سامنے آئی جب امریکی نفرت میں اندھے ہوکر ارض وطن کے ایک ایک انچ کو خون میں ڈبودینے والے تحریک طالبان پاکستان کے عہدیداروں نے مشروط مذاکرات کی خاطر تین شخصیات نواز شریف جماعت اسلامی کے امیر منور حسن اور مولانا فضل الرحمن کی ضمانت مانگ لی۔ ماضی میں بھی فریقین کے مابین معاہدے اور مذاکرات کے ناٹک رچائے گئے جب تک ہماری اشرافیہ چاہتی معاہدے اور وعدے وعید جاری رہتے مگر جونہی امریکی فصل سراٹھاتی سارے ایگریمنٹ سبوتاژ ہوجاتے اور پھر وہی خون ریزی بم دھماکے اور خود کش حملے ہماری کم بختی کو ایک بار دوبارہ دعوت دے رہے ہوتے۔نواز شریف نے ابتدا میں تو کسی قسم کی گارنٹی دینے سے انکار کردیا مگر اب انکا موقف ہے کہ حکومتی اداروں کو فوری طور پر سنجیدہ مذاکرات کی ابتدا کرنی چاہیے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ حکومت اور طالبان کو مذاکرات کی مخلصانہ کاوشیں کرنی چاہیں ۔ آگ و بارود کے کھیل میں جہاں ایک طرف ہزاروں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے تو وہاں پورا ملک سیاسی افراط و تفریط مذہبی کشت و قتال اور مالیاتی سیاسی و جمہوری انتشار کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان سیاسی الیکشن کی جانب بڑھ رہا ہے تمام جماعتیں میدان میں اتر چکی ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور قائدین کو سب سے زیادہ خدشہ کالعدم تحریک طالبان کے انتہاپسندوں سے ہے جو ایم کیو ایم کے ایک جلسے کو نشانہ بنا کر خطرے کی گھنٹی بجا چکے ہیں کہ وہ کسی بھی سیاسی جلسے میں خون کی ہولی بہانے کی سکت رکھتے ہیں۔ پشاور میں صوبائی سینیر وزیر بشیر بلور کو شہید کرکے تحریک طالبان طبل جنگ بجا چکی ہے۔ انتخابات کا اعلان اور نگران حکومت کا ظہور ہونے والا ہے۔سیاسی سرگرمیوں میں تیزی انے والی ہے۔ اگر امن مذاکرات کا آغاز اور نتیجہ خیز اختتام نہیں ہوتا تو الیکشن کمپین میں بڑی ہلاکتوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ شفاف اور منصفانہ الیکشن کی خاطر جہاں نیوٹرل نگران سیٹ اپ کی بازگشت زور شور سے سنائی دے رہی ہے تو وہاں ہماری حکومتی اور ملک کی ساری سیاسی و دینی برادری کو زہن نشین کرنا ہوگا کہ مطلوبہ اہداف کے حصول کی خاطر امن ڈائیلاگ بھی ناگزیر ہیں۔ طالبان نے مذاکرات کی دعوت تو دے دی ہے مگر وہ اپنے رویوں میں تبدیلی پر امادہ نہیں۔ طالبان جمہوری نظام سے نفرت کرتے ہیں۔ سیاسی اور حکومتی احباب کو قتل کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ آئین پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ افواج پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔اب سوال تو یہ ہے کہ جئب تک طالبان تمام اداروں کے خلاف برسر پیکار ہیں گے تو پھر مذاکرات کا انعقاد کیونکر اور کیسے ممکن ہوگا؟ طالبانی گوریلے نفرت و تعصب کی آگ میں اندھے ہوچکے ہیں کہ وہ نئی نسلوں کی خاطر اندھیروں کا بندوبست کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ ایک طرف وہ سکولوں کو بموں سے تباہ کرتے ہیں تو دوسری جانب انکی سینہ زوری نے فاٹا میں لاکھوں بچوں کو پولیو کے قطروں سے محروم رکھا۔ انتہاپسندوں نے نوزائیدہ بچوں کو جسمانی عوارض اور خسرہ ایسی سنگین بیماریوں سے بچاو کی خاطر گھر گھر جا کر قومی خدمت سرانجام دینے والے خدمت گاروں اور ہیلتھ ورکرز کو قتل کرنے کا سلسلہ تاحال جاری رکھا ہوا ہے۔ طالبان کو شائد اندازہ نہیں کہ جن سکولوں کو وہ تباہ کرتے ہیں وہاں ساری دنیا کی دانش پڑھائی جاتی ہے۔ دانش کی کوئی قومیت نہیں ہوتی اسکا وطن اور عقیدہ نہیں ہوتا۔ آئن سٹائن کا نظریہ اضافت یہودی نہیں نیوٹن کی کشش ثقل عیسائی نہیں اور فارابی کا فلسفہ اسلامی نہیں۔ درسگاہیں جب بند ہوتی ہیں تو کسی ایک سیاسی یا لسانی گروہ کے لئے نہیں بلکہ ساروں کے لئے بند ہو جاتی ہیں۔ کتب خانوں میں جلنے والی روشنیاں بجھتی ہیں تو پھر ہر کسی کے زہن میں جہل کا اندھیرا بچھتا ہے۔مذاکرات سے قبل ضروری ہے کہ طالبان وسیع القلبی کا مظاہرہ کریں۔ غیر مشروط طور پرہتھیار ڈال دیں۔ دہشت گردانہ کاروائیوں کو ترک کرنے کا اعلان کریں۔ دانش کدوں پر بارود چھڑکنے سے تائب ہوں۔ طالبان کو زہن نشین کرلینا چاہیے کہ دنیا کی کوئی حکومت فوج اور سول سوسائٹی اس مسلح گروہ سے بات چیت کا آغاز نہیں کرسکتی جب انہوں نے دہشت گردی کا بازار گرم کررکھا ہو۔ پاکستان کی مذہبی جماعتیں بھی اب کھل کر طالبان کی حمایت سے گریزاں ہیں ۔یہ سچائی ہر کسی پر منکشف ہے کہ پاکستانی قوم طالبان ملیشیا سے نفرت کرتی ہے۔ ایسے میں ایک پاکستانی بھی طالبان کاز کی حمایت کرنے سے انکاری ہوگا کیونکہ وہ خود تنقید کی زد میں آسکتا ہے۔ دوسری طرف حکومت اور فوجی ایسٹیبلشمنٹ کو بھی امریکی غلامی اور تابعداری سے رہا ہونا چاہیے۔ حکومت اور افواج پاکستان کی اولین زمہ داری ہے کہ وہ مملکت پاکستان میں لاقانونیت کے جنگل میں امن کے گلستان کو پروان چڑھائیں۔ دونوں فریقین دانش مندی کا مظاہرہ کریں تو پھر کسی لیون پینٹا کو ڈرون حملوں کے جاری رکھنے کے اعلان کی جرات نہ ہوگی۔ مذاکرات کی کامیابی افغانستان سے درانداز ناٹو فورسز کے جلد انخلا ڈرون حملوں کے خاتمے شفاف و کامیاب انتخابات کے انعقاد مذہبی اور سیاسی جمہوری استحکام کے لئے لازم بن چکی ہے۔ سارے سٹیک ہولڈرز امریکہ کے دجالی اور صہیونی عزائم کو پاش پاش کرنے کی خاطر اپنی اپنی ہٹ دھرمی اور انا کے خول سے باہر نکلیں ورنہ تاریخ انہیں ایسے قہر آلود قبرستان میں درگور کرے گی کہ نام تک نہ ہوگا داستانوں میں-
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 128612 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.