مشکوک پاکستانی

دماغ ایک ، نہ دل ایک اور نہ چہرہ ایک
بھلا بتائیے ایسے میں ہوں گے ہم کیا ایک
جو آپ چاہیں تو کہہ لیں اِسے عجوبا ایک
ہو سوچ ایک ہی ، دو کی ، تو دوکہیں ، یا ایک
جب دوسری شادی کی اجازت ہوسکتی ہے تو دہری شہریت کی کیوں نہیں؟۔ کیا یہ دہرا معیار نہیں ؟"یہ فلسفہ "صلونائی " کا ہے ہم پشتو میں چغل خوری کرنے والے کو بھی نائی کہتے ہیں ۔ دہرا معیار و کردار اور تضاد ہمارے معاشرے میں اس قدر رچ بس گیا ہے کہ ہمیں اسکے مضمرات و نقصانات کا اندازہ نہیں ہوتا اراکین اسمبلی کی دہری شہریت کی موجودگی کے انکشافات کے بعد چیف الیکشن کمشنر بھی" پورا پاکستانی" چاہتے ہیں ۔ انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ابھی تک 103 سیاسی جماعتوں نے اپنی پارٹی میں الیکشن نہیں کراوائیے ۔ جس سے سیاسی جماعتوں کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انتخابات کے حوالے سے انکے بیانات اور عملی کردار میں کس قدر دہرا تضادہے۔ جلد انتخابات کے مطالبے کرنے والی جماعتوں تک کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ و اپنی پارٹی میں ہی الیکشن کرالیتے ۔ قومی فریضے کے طور پرتقریبا 80لاکھ سے زائد پاکستانی باہر ممالک سے سالانہ 12بلین ڈالر کے قریب خطیر رقم زر مبادلہ کی صورت میں پاکستان بھجوا تے ہیں۔یقینی طورپرملکی معیشت کا تمام تر دارو مدار بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے ترسیل ِ زر پر ہے۔ان پاکستانیوں کو جتنا خراج ِ تحسین پیش کیا جائے کم ہے ۔ اسی طرح لاکھوں ایسے پاکستانی بھی بیرون ممالک میں ہیں جو کسی قانونی طریقہ کار اختیار کئے بغیر جان جوکھم میں ڈال کر بیرون ملک روزگار کی تلاش میں گئے ہیں اوراپنے اہل خانہ کی کفالت کےلئے کسی نہ کسی طرےقے سے زر مبادلہ پاکستان بھجواتے ہیں۔ ملکی قدرتی آفات پر حکومت و اداروں کی اپیل پر بیرون ملک لاکھوں پاکستانی بھی دل کھول کر امداد کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں بعض مغربی ممالک میں غیر ملکیوں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کے نتیجے میں پاکستانیوں کی بھی بہت بڑی تعداد غیر قانونی طرےقے سے اپنے کالے دھن کو ریگولرائز کرانے میں مصروف ہیں ۔ اسی وجہ سے ایف بی آر حکام ایسی اسکیم متعارف کرانے کی کوشش میں ہیں جو ہنڈی کے کاروبار کرنے والوں سے کم کمیشن پر اپنا کالا دھن ، قانونی بنا سکیں گے۔اگر ہمارا ٹیکس نظام شفاف،کرپشن فری اور انتظامی ڈھانچہ مربوط ہوتا تو یقینی طور پرغیر قانونی سرمایہ باہرکبھی منتقل نہیں ہوتا اس کے علاوہ دہری شہریت کے حوالے سے بھی قانونی سازی کی کوشش کی جا رہی تھی تاہم اس پر ابھی تک کوئی قانون نہیں لایا جاسکا کیونکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق پیدا نہیں ہوسکا ۔سپریم کورٹ نے بھی ایک واضح موقف اپنا رکھا ہے اس لئے الیکشن کمیشن کو نئی آئینی ترمیم ہونے تک بہر صورت سپریم کورٹ کے احکامات کو عملی جامہ اپنانا ہوگا ۔ دہری شہریت پر بعض سیاسی جماعتوں کو تحفظات ہیں لیکن انھیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر ہم صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرکے اس اہم مسئلے کو معلق رکھنا چاہتے ہیں تو پہلے بیرون ملک پاکستانیوں کے دلی جذبات اورخدشات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا کہ اگر دہری شہریت کے حوالے سے ان کی وفاداری مشکوک قرار دے دی جاتی ہے تو کیا وہ پاکستان کے موجودہ حالات کی وجہ سے پاکستانی شہریت کو فوقیت دیں گے یا اپنی جان ، مال و عزت کے تحفظ کے خاطر بیرونی ملک کی شہریت کو ؟۔ قانون سازی کرتے وقت سیاسی جماعتوں کو ایک عام پاکستانی کی وفاداری کو معتبر جانچنے کے قانون کا اطلاق نچلی سطحوں پر بھی پر لاگو کرنا ہوگا ۔عوام کو بتانا ہوگا کہ تمام صوبوں میں ڈومیسائل، پی آر سی بنا کر اُس کی صوبائی شناخت کیوں پوچھی جاتی ہے ۔ کیا صرف شناختی کارڈ کافی نہیں کہ وہ پاکستانی شہری ہے ۔ شناختی کارڈ میں مستقل اور موجودہ ایڈریس کی بنیاد پر ووٹ کا حق تقویض کرکے مقامی اور غیر مقامی کا تعین کیا جاتا ہے ۔ کیا پاکستانیت کے بجائے یہ صوبہ پرستی نہیں ۔ پنجاب کی تقسیم ، سندھ میں کوٹہ سسٹم ، خیبر پختونخوا میںفاٹا ، پاٹا کے دوہرے انتظامی معاملات ، قبائلی ،شمالی علاقے جات ، وفاق اور دیگر علاقے جات صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہیں ، کیا یہ دہرا نظام نہیں ہے؟۔سیاسی جماعتوں میں ارکان اسمبلی کےخلاف اختلاف رائے کو آزادی رائے کا حق تصور کرنے بجائے ا’س کےخلاف کاروائی کیوں کی جاتی ہے ۔ جب جمہوریت کا مطلب آزادی اظہار رائے ہے تو اختلاف رکھنے کے باوجود مخالفت میں ووٹ دینے پر پابندی کیوں ہے؟۔ عوام کے ووٹ کے بغیر مخصوص نشستوں پر سیاسی جماعتوں کا من پسند افراد کو منتخب کروانا کیا دہرا نظام نہیں ہے ؟ ۔ یہ اراکان اسمبلی براہ راست عوام کو جواب دہ نہیں ہوتے جب انھیں عوام نے منتخب نہیں کیا تو پھر یہ عوام سے وفادار کیسے ہوسکتے ہیں۔ سینٹ میں براہ راست اراکین منتخب کرائے جاتے ہےں یہ کون سے عوام کو جوابدہ ہیں؟ ۔ اکثریت کو تو عوام جانتی تک نہیں ، تو پھر پاکستان کی عوام کی قسمت کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں صرف اس لئے دے دیا جائے کیونکہ انھیں دولت ،رشتے داری ، اقربا پروری اور کرپشن کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے ۔بھلا عام پاکستانی کو سینٹ کے ایوان سے کیا فائدہ پہنچتا ہے ؟ اگر فائدہ پہنچتا ہے تو صرف سیاسی جماعتوں کو ۔ جو کروڑوں روپے فنڈ لیکر من پسند افراد براہ راست منتخب کراتے ہیں ۔ اربوں روپیہ سینیٹرز پر عوام کا خرچ ہوتا ہے کسی فرد یا سیاسی پارٹی کا نہیں ۔ قومی،صوبائی الیکشن میں ووٹنگ لیکن سینٹ میں براہ راست انتخاب، کیا یہ دہرا نظام نہیں ہے۔ کیا ایسے لوگ عوام کے وفادار بن سکتے ہیں جو کروڑوں روپوں کی رشوت دیکر سینٹ میں منتخب ہوتے ہیں۔حکومت مشیروں کی فوج ظفر ووٹوں کے بغیر براہ راست عوام مسلط کردیتی ہے اور وہ عوام کو جواب دہ ہونے کے بجائے تعینات کروانے والوں کے مفادات کےلئے کام کرتے ہیں۔کیا ایسے مشیر عوام کے وفادار بن سکتے ہیں ؟۔ آخر سیاسی جماعتیں جب اپنے نمائندوں کو منتخب کرواتی ہیں تو ایسے قابل لوگوں کو ٹکٹ کیوں نہیں دیتی جو اُن کے مشیر بھی بن سکیں ۔ کیا یہ دہرا نظام نہیں ہے کہ منتخب نمائندوں کے بجائے من پسند افراد کو ذاتی پسند و ناپسند پر وزارتیں دی جاتی ہیں ۔ کیا یہ دہرا معیار نہیں ہے کہ ایک امیدوار متعدد جگہوں سے بیک وقت الیکشن لڑ سکتاہے اور جب جیت جاتا ہے تو الیکشن کمیشن کوعوام کے لاکھوں روپے خرچ کرکے دوبارہ الیکشن کرانے پڑتے ہیں۔ معمولی نوکری حاصل کرنے کےلئے کڑی شرائط، لیکن ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے والوںکی قابلیت کو جانچنے کا کوئی معیار نہیں ہے۔ پھر یہ معیارعسکری ودیگراداروں میں کیوں نہیں ہے ؟۔ جمہوری نظام آسمانی صحیفہ نہیں ہے کہ اس پر بات نہیں کی جاسکے جمہوریت میںو وٹ تو مسلم و غیر مسلم مشترکہ دےتے ہیں تو پھر اقلیت کا تصور کیوں ؟ ۔ ان کےلئے مخصوص نشستیں کیوں ؟ کل کو ہر فرقے کےلئے بھی مخصوص نشستیں رکھوادیںکیونکہ یہی جمہوریت ہے ۔ پاکستان کا نام اسلامی بھی ہے اور جمہوریہ بھی ہے ۔ دین اسلام تو مکمل نظام حیات و کائنات ہے اس میں سب کچھ ہے تویہ اسلامی کےساتھ جمہوریہ کیا معنی رکھتا ہے ؟۔کیا اسلام میں جمہوریت نہیں ہے کہ ہمیں بتانا پڑ رہا ہے کہ پاکستان اسلامی ملک کےساتھ ساتھ جمہوری بھی ہے ۔ "اسلام میں جمہوریت ہے ۔ جمہوریت میں اسلام نہیں" ۔ میری باتوں سے اکثریت کو اختلاف ہوگا ، کیونکہ جمہوریت ہے لیکن یہ دہرا معیار سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ اس کے فوائد صرف مراعات یافتہ طبقے کو ملتے ہیں لیکن جو ملک سے وفادار ہوتے ہیںدن رات دوسرے ممالک میں مشقت کرتے ہیں ملکی معیشت کو سہارا دیتے ہیں معاشی ریڑھ کی ہڈی ہیں ، مملکت کو صرف فائدہ پہنچاتے ہیں لیکن ریاست سے کچھ نہیں لیتے انہی کی وفاداری مشکوک قرار دے دی جائے تو وفادار کون ہوا ؟ جو ملک کو دن رات لُوٹ رہا ہے ۔ یا جو اپنا خون پسینہ پاکستان کو دے رہا ہے؟۔اپیل ہے کہ دہرے پاکستانی کی وفاداری کے تعین پر نظر ثانی کی جائے اور دہری شہریت بدلنے سے پہلے دوہرے نظام کو بدلا جائے ۔کسی بھی شخص کی شہریت کے حوالے سے اس کی وفاداری کوچانچنے اور دیکھنے کے لئے ملکی قانون کو بھی دیکھنا ہوگا ۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 263749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.