اہل کشمیر کے لیے صرف ایک دن کیوں

مجمع بلا مبالغہ ہزاروں کا تھا۔ ہر کوئی پر جوش دکھائی دیتا تھا۔ مقرر کے اردگرد اس کے بیسیوں چاہنے والے کھڑے تھے۔ مقرر ایک سفید باریش بزرگ تھا۔ لیکن اس کے چہرے پر کہیں تھکاوٹ کے اثرات نظر نہیں آ رہے تھے۔ بلکہ آواز میں ایک ولولہ ایک جذبہ تھا۔ یکایک مظاہرین خاموش ہو جاتے ہیں۔ بزرگ قائد ان کی خاموشی کے بعد اپنی تقریری کو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام کی نسبت سے، اسلام کے تعلق سے ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے۔ ہم پاکستانی ہیں .... پاکستان ہمارا ہے۔ بزرگ رہنماءکے یہ الفاظ نعرے کی صورت اختیار کر لیتے ہیں، وہ اپنے جملے کو بار بار دہرا رہے ہیں۔ اب وہ یہ الفاظ اکیلے نہیں دہرا رہے بلکہ ان کی آواز میں مزید ہزاروں لوگوں کی آواز شامل ہو گئی ہے۔ سب بہ یک آواز ایک ہی جملہ دہرا رہے ہیں، ہم پاکستانی ہیں ، پاکستان ہمارا ہے۔

یہ جلسہ نہ تو ملک کی کسی سیاسی جماعت کا ہے اور نہ جمع ہونے والے یہ ہزاروں لوگ پاکستان کے کسی صوبے سے ہیں۔ بلکہ لوگوں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر کشمیری مسلمان ہیں اور تقریر کرنے والے بزرگ قائد تحریک حریت سیدعلی گیلانی ہیں۔ 2010ءمیں جب اہل کشمیر نے بھارتیو! کشمیر چھوڑ دو کی تحریک شروع کی ۔ تو اس موقع پر زبردست پتھراﺅ نے بھارت کے اس دعوے پر پانی پھیر دیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ پتھراﺅ تحریک میں 117 دن کی لگاتار ہڑتال اور 100 دن کے مسلسل کرفیو کے باوجود نوجوانان کشمیر میں جذبہ حریت پہلے سے بھی کہیں زیادہ شدت سے موجزن ہوا۔ غاصب بھارتی افواج نے صرف اس تحریک میں 125سے زائد افراد کو شہید کیا۔مذکورہ بالا احتجاجی جلسے اور جس تقریری کا تذکرہ ہے وہ اسی بھارتیو! کشمیر چھوڑ دو تحریک کے دوران ہی سرینگر میں کی گئی تھی۔

پوری دنیا میں بسنے والے کشمیری اور پاکستانی 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر بھرپور جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ خطہ کشمیر کے مسلمانوںکے ساتھ پاکستان کی تمام ہمدردیاں روز اول سے ہیں لیکن گزشتہ 2 دہائیوں سے پاکستان میں یہ دن قومی سطح پر منایا جا رہا ہے۔ پانچ فروری 1948ءکواقوام متحدہ میں پاس ہونے والی قرار دادکے مطابق استصواب رائے کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا۔ اسی مناسبت سے جماعت اسلامی کے سابق امیر جناب قاضی حسین احمد ؒکی اپیل پر اس دن کو کشمیر کے نام کرنے کا باقاعدہ آغاز ہوا اور 1989ءمیں پہلی بار باقاعدہ قومی یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا، یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

ہر سال اس دن اہل کشمیر کی آزادی کے لیے بھرپور انداز میں آواز اٹھائی جاتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔لیکن جو ں جوں وقت گزر رہا ہے ۔ اس دن کو منانے کا وہ پہلے جیسا جوش اور عزم نظر نہیں آتا۔ یہ محض ایک رسمی و روایتی سا دن بن کر رہ گیا ہے۔

حکومت پاکستان کو سفارتی و اخلاقی لحاظ سے وطن عزیز کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھنے والے کشمیر کے لیے جو عملی کوششیں کرنی چاہیں تھیں اب وہ کم ہی نظر آتی ہیں۔ بلکہ موجود حکومت تو بھارت نوازی میں سابقہ حکومت سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئی ہے۔ بھارت کو پسندید ملک قرار دینے کے چکر میں پاکستان کشمیر کاز سے کوسوں دور ہو گیا ہے۔ کشمیری و پاکستانی مسلمانوں کے درمیان ایمان کی بنیاد پر اخوت کا رشتہ استوار ہے۔ ہر آنے والا دن کشمیری مسلمانوں کے لیے بھارتی افواج کی جانب سے ظلم و جبر کے نئے پہاڑ لے کر آتا ہے۔ لاکھوں کشمیری نوجوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ لیکن پاکستان میں بسنے والے مسلمان سال کے 365 دنوں میں سے صرف ایک دن اہل کشمیر کو یاد کرنے کے لیے دیتے ہیں۔ باقی دنوں میں ہم اہل کشمیر پر ہونے والے مظالم کو یکسر بھلا دیتے ہیں۔

کشمیری سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی ہماری پشت پر ہے تو وہ 18 کروڑ پاکستانی ہیں۔ پاکستان کشمیر کے بغیر ادھورا ہے اور کشمیر پاکستان کے بغیر ادھورا ہے، نبی کریم کے فرمان کے مطابق امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ نے جسد واحد بنایا ہے اور اگر جسم کے ایک حصے کو گزشتہ 7دہائیوں سے تکلیف دی جا رہی ہو تو پورابدن کیسے آرام کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ ان کا دکھ ہمارا دکھ اور ان کی خوشیاں ہماری خوشیاں ہونی چاہیں۔ کیا صرف ایک دن نکل کر جلسے، جلوس اور تقریریں کرکے یا محض چند زبانی کلامی دعوﺅں کے ساتھ ہم کشمیری مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھ سکتے ہیں۔؟

کشمیری مسلمان ”ہم پاکستانی ہیں ، پاکستان ہمارا ہے“ کے نعرے لگاتے لگاتے بوڑھے ہو چکے ہیں۔ مگر وہ اب بھی نا امید نہیں ہیں وہ اب بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہیں۔ اب بھی کشمیری جوان اور بچے ہاتھوں میں پتھر لیے بھارت سے نفرت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے حوصلے اب بھی بہت بلند ہیں۔ جنگ آزادی پورے زور و شور سے جاری ہے۔ وہ ہماری طرح صرف 5 فروری کو گھروں سے نکل کر آواز نہیں اٹھاتے بلکہ سالہا سال سے مقابلے کرتے ہوئے آرہے ہیں ۔

اے اہل پاکستان! جب ہم درمند کشمیریوں کے حق میں لگانے والے نعروں کو حقیقت کا روپ دے دیںگے۔ غاصب بھارت کو کشمیر سے نکالنے میں ان کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے ہوں گے۔ جو لوگ کشمیر کو آزادی کروانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ان کے پشتیبان بنیں گے۔ تو تب اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کا حق ادا ہو گا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بھارت مذاکرات کے ذریعے دیرینہ مسائل کو حل کر دے گا یا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کوئی کردار ادا کرے گی تو یہ ہماری بڑی سنگین غلط فہمی ہو گی۔ کشمیر اگر مذاکرت کے ذریعے آزاد ہوتا تو اس سے قبل پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کے سینکڑوں ادوار طے کر چکا ہے۔ بھارت نے ہمیشہ مذاکرات کے نام پر پاکستان کو دھوکہ دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اقوام متحدہ کے فورم پر قدیم ترین مسائل میں سے ایک بن چکا ہے جس کے بارے میں ادارہ 27 قراردادیں پاس کر چکا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کروا کر معلوم کیا جائے گا کہ وہاں کے لوگ بھارت کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ ،لیکن 65 سال بیتنے کے باوجود آج تک اس ادارے نے کسی قرارداد پر عملدرآمد کروانے کے لئے عملی کردار ادا نہیں کیا ہے اور نہ ہی کبھی ویٹو کا اختیار رکھنے والے ممالک میں سے کسی نے بھارت پر دباﺅ ڈالا ہے کہ وہ کشمیر کے مسلمانوں کو آزاد کرے۔ لہٰذا کسی اور کی جانب امید بھری نظروں سے یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ ہمیں کشمیر آزاد کروا کے دیں گے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کو آزاد کروانے کے لیے وہی طریقہ اختیار کرنا ہو گا جس طرح کشمیر کے اس حصہ کو آزاد کروایا گیا تھا جس کو آج ”آزاد کشمیر“ کہا جاتاہے۔ ہم اگر پاکستان کی شہ رگ کو ہندوﺅں کے قبضے سے آزاد کروانا چاہیتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں کشمیری مسلمانوں کے اخلاقی و عملی لحاظ سے مدد کرنا ہو گی اور ظلم کی چکی میں پسنے والے مسلمانوں کی مدد کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔
Muhammad Naeem
About the Author: Muhammad Naeem Read More Articles by Muhammad Naeem : 20 Articles with 15566 views Member of KUJ | Sub-Editor/Reporter at Weekly Jarrar & KARACHIUPDATES |Columnist | http://www.facebook.com/Tabssumnaeem
.. View More