پنجاب تو لاوارث ہے اس کے جتنے چاہو ٹکڑے کردو لیکن

تحریر : محمد اسلم لودھی

پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں پنجاب دشمنی میں کچھ اس قدر اندھی ہوگئی ہیں کہ آئین سے بالاتر ہوکر پنجاب کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں حد سے زیادہ تیزی اور پھرتی دکھا رہی ہیں ۔پہلے سرائیکی صوبہ کا واویلا کیا پھر بہاولپورریاست کی بحالی کا شور مچا اور موجودہ گورنر مخدوم احمد محمود تو متحدہ پنجاب کے شاید آخری گورنر بننے کے لیے بے تاب ہیں جب سے انہوں نے گورنر شب کا چارج سنبھالا کوئی شام اور صبح ایسی نہیں جاتی جب وہ پنجاب پر کلہاڑا چلانے کے لیے کسی نہ کسی در پر حاضر نہ ہوں ۔جبکہ وفاقی حکومت نے چالبازی سے بہاولپور اور سرائیکی علاقوں پر مشتمل ایک ایسا صوبہ بنانے کے لیے اپنے طور پر کاغذی کاروائی مکمل کرلی ہے اور یہ دیکھے بغیر میانوالی اور بھکر کے اضلاع کو بھی شامل کردیاہے کہ وہاں کے لوگ پانچ سو میل دوربہاولپور کیسے پہنچیں گے ۔پہلے محمد حنیف رامے نے پنجاب کا مقدمہ لڑا تو ذوالفقار علی بھٹو نے اس کو مشق ستم بناتے ہوئے وزارت اعلی سے اتار کر جیل میں بند کردیا اب جبکہ میاں برادران پنجاب میں واضح اکثریت رکھتے ہیں لیکن مصلحتوں نے انہیں بھی کچھ اس طرح گھیر رکھا ہے وہ بھی پنجاب کو تقسیم کرنے والوں کے ہم رکاب ہوچکے ہیں اور برملا فرماتے ہیں پنجاب کے جتنے چاہو ٹکڑے کردو لیکن سندھ کو تقسیم نہیں ہونا چاہیئے افسوس اس سوچ اور مصلحت پر ۔ یاد رہے کہ اگر ریاست بہاولپور بحال ہوتی ہے تو سندھ میں خیرپور ، لسبیلہ ، گوادر ، دیر ، سوات ، چترال کے علاوہ اور کتنی ریاستوں کو بحال کرنا پڑے گاتقسیم در تقسیم کے اس عمل میں ملکی سالمیت کا شیرازہ ہی خدانخواستہ بکھر جائے۔پیپلز پارٹی یوں تو خود کو چاروں صوبوں کی زنجیر قرار دیتی ہے لیکن بطور خاص اس مرتبہ ہر وہ کام کرنے میں جذباتی حد تک متحرک دکھائی دیتی ہے جس سے پاکستان اور اس کی سا لمیت کو ممکن حد تک خطرہ پیدا کیاجاسکے۔ پہلے ہی انتظامی اخراجات کیا کم تھے کہ جگہ جگہ گورنر ہاﺅسز، وزیر اعلی ہاﺅسسز ، ہائی کورٹس ، سیکرٹریٹس ، وزیروں مشیروں کے دفاتر ، رہائش گاہیں ، سیکرٹریوں چیف سیکرٹریوں کے تنخواہوں ، دفاتراور قیام گاہوں کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔صوبے ایسے تو نہیں بن جاتے بلکہ جتنے مالی اخراجات پنجاب کو برداشت کرنے پڑ رہے ہیں اتنے ہی اخراجات ہر نئے صوبے کے لیے برداشت کرنے پڑیںگے ان حالات میں جبکہ موجودہ حکومت اپنے انتظامی اخراجات پورے کرنے کے لیے5 3 ارب ڈالر سے زائد قرضہ لے چکی ہے اور مزید قرضوں کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے کشکول بچھائے بیٹھی ہے نئے صوبوں کے مالی اخراجات نئے حکمرانوں اور بیوروکریسی کے اللے تلوں کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ افسوس کہ حکمران مسائل کو حل کرنے کی بجائے پہلے سے طے شدہ معاملات کو کچھ اس طرح کرید رہے ہیں کہ نہ صرف پنجاب بلکہ سابقہ ریاستوںکی بحالی اور نئے صوبے بنانے کا مذمذم کھیل کچھ اس طرح شروع ہوجائے گا کہ ہر شخص دوسرے سے باہم دست گریبان دکھائی دے گا ۔ جن سرائیکی علاقوں کو صوبہ بنانے کی بات شد و مد سے جاری ہے ان علاقوں سے ماضی میں نہ صرف منصب صدارت پر لوگ فائز ہوئے بلکہ وزرات عظمی ، وزارتوں ، مشاورتوں ، گورنر اور وزیر اعلی تک بھی بنے لیکن پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں اعلی ترین منصب پر فائز ہونے کے باوجود فاروق لغاری ، غلام مصطفے کھر ، حناربانی ، سید یوسف رضاگیلانی ، ممتاز دولتانہ ، تہمینہ دولتانہ ، نواب صادق حسین قریشی ، مخدوم شاہ محمود قریشی ، ، نواب محمد عباس عباسی ، عبدالحمید دستی ، دوست محمد کھوسہ ، ذوالفقار علی کھوسہ ، جاوید ہاشمی نے اگر 65 سالوں میں کچھ نہیں کیا تو اب کس یقین سے کہاجاسکتا ہے کہ یہ بااثر سیاست دان جنوبی پنجاب کے انتہائی پسماندہ اور غریب عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے حقیقت پر مبنی اقدامات ضرور کریں گے ۔اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پہلے سے موجودہ صوبوں کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزار کر انتظامی اخراجات کااسقدر بوجھ ڈال دیاجائے کہ پہلے سے پسے ہوئے لوگ مزید خود کشیوں کا شکار ہوجائیں بلکہ اصل معاملہ چاروں صوبوں کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتوں کی دستیابی کے ساتھ ساتھ باعزت روزگار کی فراہمی یقینی بنائی جائے، بجلی گیس کی مطلوبہ مقدار میں فراہمی کے علاوہ کاروباری سہولتیں فراہم کرکے ذرائع آمدورفت کو اس قدر موثر اور تیز رفتار بنایا جائے کہ دور رہنے والے بھی باآسانی دارالحکومت پہنچ سکیں ۔پیپلز پارٹی کے موجودہ دور میں پہلے سے موجود مسائل نے گھمبیر شکل اختیار کرلی ہے اس پر اپنی بدنظمیوں اور اقربا پروری کی وجہ سے ملکی معیشت اور غریب عوام کی قوت خرید کو مزید تباہی سے ہمکنار کیاجارہا ہے ۔پیپلز پارٹی اور ااس کے متعصب اتحادیوں سے میرا یہ سوال ہے کہ کیا جنوبی پنجاب کے عوام کا معیار زندگی بلوچستان اور سندھ سے بھی بدتر ہے ۔ جہاں انسان بھی جانور وں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔اگر مسائل کے حل کے لیے ہی صوبوںکی تقسیم ضروری ہے تو بلوچستان ، خیبر پی کے اور سندھ کو سب سے پہلے چھوٹے چھوٹے انتظامی یونٹوں میں تقسیم کیاجائے ۔جہاں تک پنجاب کی تقسیم میں ایم کیو ایم کے جذباتی کردار کا تعلق ہے وہ تو چاہتی ہے کہ ایک مرتبہ پنجاب کے ٹکڑے ہوںتو پھر کراچی کو صوبہ بنانے سے انہیں کون روک سکتا ہے جس کی دیواروں پر آج بھی "کراچی کو گولی کے زور پر صوبہ بنائیں گے" لکھاہوا دیکھا جاسکتا ہے کراچی میں ایم کیو ایم اس قدر عسکری اعتبار سے طاقتور ہے کہ وہ جب چاہے اور جہاں سے چاہے الگ صوبہ بنا سکتے ہیں نہ زرداری انہیں روک سکتے ہیں اور نہ رحمان ملک ۔ افسوس کہ موجودہ حکمران اور اس کے اتحادی پنجاب دشمنی میں اس قدر پاگل ہوچکے ہیں کہ انہیں میانوالی ، بھکر ، سرگودھا ،ملتان ، رحیم یارخان میں ہونے والی ہڑتالیں اور مظاہرے بھی دکھائی نہیں دیتے انہیں اس بات کا بھی احساس نہیں ہے کہ پنجاب کو تقسیم کرنے کے بعد ہزارہ صوبہ بھی یقینی بنانا پڑے گا جس کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا شروع ہوچکا ہے جبکہ بلوچ سردار بھی قائداعظم سے کیے ہوئے معاہدے کی روشنی میں اپنی اپنی ریاستوں اور علاقوں کی بحالی اور آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے ۔بلوچستان تو انتظامی اعتبار سے پہلے ہی ہاتھوں سے پھسلتا جارہا ہے اب پنجاب سندھ اور خیبر پی کے کو بھی باہمی نفرتوں اور انتشار کی نذر کرنے کا کامیابی سے اہتمام ہورہا ہے پیپلز پارٹی تو پانچ سال مکمل کرکے رخصت ہوجائے گی لیکن اتنے مسائل اور مالی مشکلات ورثے میں چھوڑ جائے گی کہ آنے والے حکمران پانچ سال اپنی پلکوں سے بھی وہ کاٹنے نہیں چن سکیں گے جو پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں اپنی غلط پالیسیوں اور پنجاب دشمنی میں ہر قدم پر بچھا رہی ہیں ۔ چلو پنجاب تو لاوارث ہے اس کے جتنے چاہو ٹکڑے کردو وہ پھر بھی پاکستان کا حصہ ہی رہے گا لیکن سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ اور قبائلی ایجنسیوں کو آزادی کی راہ پر چلنے سے کون روک پائے گا جبکہ ملک دشمن عناصر اور امریکہ سمیت بڑی طاقتیں اپنی سازشوں کے جال سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بھی بہت کامیابی سے بچھا چکے ہیں ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 114144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.