بلوندر کی بلی

بلوندر بھی عجیب آدمی تھا ،اس کے بارے میں کئی داستانیں زبان زد عام تھیں ۔اس قدر پر اسرار واقعات اس سے وابستہ تھے کہ حیرت ہو تی تھی کہ یہ کوئی عام آدمی ہے یا کوئی بھوت اور مافوق الفطرت مخلوق ۔اس کی ہیئت کذائی دیکھنے و ا لوں پر کوئی اچھا تاثر نہ چھوڑتی ۔ کالا بھجنگ ،موٹا اور بد وضع سراپا،کلین شیو،ساٹھ سے اوپر کاسن ،آنکھوںپر انتہائی بد صورت موٹے شیشوں کی عینک لگی ہوئی ،سر پر گنج چھپانے کے لیے گدھے کے بالوں کی عفونت زدہ وگ لگائے اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں انگوٹھیاں ٹھونسے ،گلے میں مختلف رنگوں کے پتھروں کی مالا ڈالے اور ہر وقت بھبھوت رمائے یہ شخص اس قدر کریہہ تھاکہ یہ مجسم ننگ وجود تھا۔اس کے جسم سے اس قدر شدت سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اٹھتے تھے کے پاس بیٹھے ہوئے لو گوں کے لیے سانس لینا محال ہو جاتا تھا۔عقل و خرد سے یکسر تہی یہ سٹھیایا ہو ا خضاب آلودہ کھوسٹ ایک عجوبہ اور طرفہ تماشا بن چکا تھا۔اس کے بارے میںجتنے منہ اتنی باتیں ۔کوئی کہاں تک ان کی تحقیق اور چھان پھٹک کرتا ۔اس کی زندگی تو ایک فسانہ تھی جس نے سب لوگوں کو حیران کر کے تماشا بنا دیا تھا ۔اس کے باوجود اس کے ساتھ اندھی عقیدت رکھنے والوں کی کوئی کمی نہ تھی لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ اس کے ڈیرے پر منڈلاتے رہتے اور اس سے اپنے مستقبل کے بارے میں مشورے لیتے اور اپنی پھوٹی ہوئی تقدیر سنورانے کی تدبیر پو چھتے ۔اس شخص سے اصلاح احوال کی توقع رکھتے جو خود اپنی تخریب کی عبرت ناک مثال بن چکا تھا ۔

اپنے کالے کرتوت ،کالی صور ت اور بد اعمالیوں کے سیاہ حروف میں لکھے کردار کی طرح اس نے ایک بلی پال رکھی تھی جو کالے رنگ کی تھی ۔ دریا کے کنارے ایک جنگل بیلے میں واقع اس کی کٹیا میں دن کو بھی شب کی سیاہی کا سماں ہو تا تھا ۔بلوندر ہمیشہ کالے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس رہتا۔اس کے مقدر کی سیاہی کی طرح اس کے ارد گرد سب چیزیں ہی کالے رنگ کی ہوتی تھیں ۔کئی لوگ اسے کالا دیو کہہ کر پکارتے اور کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ کالے بھو ت کی صورت میں بلوندر کوئی جادو گر ہے اس کی طاقت کا راز ایک کالی بلی ہے جس میں کوئی مافوق الفطرت طلسمی اور ما بعد الطبعیاتی طاقت مو جود ہے ۔کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ کالی بلی اپنے پچھلے جنم میں کوئی نجومی یا رمال ہو گی۔اس کالی بلی کی وجہ سے بلوندر کے جادو ،ٹونے ،عملیات ،رمل ،نجوم اور قیافہ شنا سی کے ہر طرفے چرچے ہونے لگے ۔

گاﺅں کے لوگ اپنے تمام کاموں کے آغاز کے سلسلے میں بلوندر کی بلی سے قرعہءفال نکلواتے اور اس پرد ل و جان سے عمل کرتے ۔عورتیں ایک مرغ لے کر بلوندر کے پاس جاتیں ۔وہ اس مرغ کو کاٹ کر اس کی بو ٹیا ں بناتا ،اس کی آنتیں ، پر ، کلیجی ،پوٹا اور گردن بلی کے آگے پھینک دیتا جسے بلی نوچ کر کھا جاتی ۔باقی گوشت کی تکا بوٹی کر کے وہ انگاروں پر بھون کر ڈکار جاتا ۔بلوندر اگرچہ ایک جاہل مطلق تھا لیکن اسے جاہل لوگوں کو الو بنانے اور ان کو انگلیوں پر نچانے کا فن آتا تھا ۔جاہلوں کی نفسیات اور ان کی توہم پرستی کے بارے میں وہ بہت کچھ جانتا تھا۔وہ ایک سکہ لیتا اور بلی کے سامنے پھینک دیتا ۔بلی وہ سکہ اپنے منہ میں دبا لیتی ۔وہ قرعہ ءفال کے لیے آنے والوں سے کہتا کہ اب بلی یہ سکہ زمین پر پھینک دے گی اگر اوپر چاند آیا تو کام کرنے کی اجازت ہے لیکن اگر بیل آگئی تو اس صورت میں کام کرنا بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔اس طرح بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنے کی صورت سامنے آتی ۔

دور افتادہ علاقے میں واقع یہ گاﺅں غربت اور افلاس کے اعتبار سے پتھر کے زمانے کاماحول پیش کرتاتھا ۔یہاں کئی پینترے باز ،شعبدہ باز ،مداری ،بھکاری اور جواری آتے جو لوگوں کی سادگی سے فائدہ اٹھا کر اپنا الو سیدھا کر کے چلتے بنتے۔طوطے والے نجومی ،نیولے والے عطائی ،سانڈے کا تیل اور الو کی آنکھ کا سرمہ بیچنے والے بھی اس علاقے کے لوگوں کو لوٹ لیتے ۔ کبھی کبھی ایک گیدڑ سنگھی فروخت کرنے والا بھی آ نکلتا جو فاقہ کشوں کو سونے سے مالا مال کرنے کے گر بتاتا اور ان سے رقم بٹور لیتا ۔طبی سہولتیں نہ ہونے کے باعث یہاں کے مکین عملیات کا سہار لیتے اور ہر بیماری کا سبب کالے جادو کو قرار دیتے تھے ۔ایک ریچھ والا آتا وہ یہ صدا لگاتا کہ اس کالی بلا پر بیٹھنے والے بچے کی ہر مصیبت اس ریچھ کے اندر جذب ہو جاتی ہے۔بچوں کی مائیں اپنے کم سن بچوں کو اس مداری کے ریچھ پر گلی کی سیر کراتیں ااور اس کے بدلے اسے پانچ کلو گندم مل جاتی ۔بندر والا آتا اور وہ بندر کے کرتب دکھا کر اجناس خوردنی سے بوری بھر لیتا ۔گاﺅں میں نقد رقم کی جگہ زیادہ تر اجناس ہی کے ذریعے کام چلایا جاتا تھا۔نزدیکی قصبے سے ایک بنجارن آتی اور فرسودہ چوڑیاں بیچ کر ایک من گندم ہر ہفتے بٹور لیتی ۔کئی رمال ،نجومی ،جوگی اور ڈبے پیر بھی وارد ہوتے اور سب کی بات بن جاتی ۔ایک جوگی ہر ہفتے آتا اور پر درد آواز میں یہ صدا لگاتا :
دھن دولت آنی جانی ہے ،یہ دنیا رام کہانی ہے
یہ عالم عالم فانی ہے ،باقی ہے ذات خدا بابا

یہ پر درد صدا سن کر سب کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں اور اس کی خوب مدد کی جاتی ۔اسے ہر ہفتے دو من کے قریب گندم مل جاتی جو وہ مقامی کریانہ فروش کے ہاتھ بیچ کر رقم اپنی جیب میں ڈال کر اپنے گھر چلا جاتا ۔ان سب سے بڑھ کر بلوندر اور اس کی کالی بلی کی پانچوں گھی میں تھیں ۔بلوندر ایک طرف تو مایا جمع کرنے میں لگا تھا ساتھ ہی اسے ہر روز نئی دیوی کے درشن بھی ہو جاتے ۔کئی بار تو ایک کے بجائے کئی حسین و جمیل دیویاں اس کی کٹیا میں حاضری دیتیں اور کالی بلی اور اس کے مالک کالے بلوندرپر سب کچھ نچھاور کر دیتیں ۔لوگوں کا کہنا تھا کہ بلوندر نے اتنی رقم جمع کر لی تھی کہ اس نے شہر میں ایک عالی شان مکان بنا لیا تھا جسے کرائے پر دے رکھا تھا ۔اس کے مکر کا پردہ فاش کرنے والا کوئی نہ تھا ۔ہر شخص اسی کا دم بھرتا اور اس کا شیدا بن کر اس کی ہاں میں ہاں ملاتا ۔

اس سال دریا میں زبردست سیلاب آیا،بلوندر کی کٹیا اس میں بہہ گئی ۔اس نے کالی بلی اپنے تھیلے میں ڈالی اور نزدیک قصبے میں جا پہنچا۔ٹھاکر موہن نے اس کی خوب آﺅ بھگت کی اور اسے اپنے محل نما گھر میں بیرونی طرف ایک کمرہ رہنے کے لیے دے دیا۔ٹھاکر اپنی عمرکی اسی بہاریں دیکھ چکا تھا اور اس خزاں رسیدگی میں بھی اس کے دل کی بہار کا یہ عالم تھا کہ پچھلے سال اس نے کالی بلی کی فال پر ایک اٹھارہ سالہ لڑکی سے بیاہ کر لیا تھا ۔سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے والے اس عیاش بڈھے نے اپنے نو جوان بیٹے اور بیوی کو گھر سے نکال دیا اور وہ اب شہر میں جا بسے تھے ۔شہر میں اس کے بیٹے نے شادی کر لی اور وہ اپنے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرتا تھا ۔

گاﺅں کے لوگ اس بات پر حیران تھے کہ ایک کالا کلوٹا مسٹنڈا ٹھاکر کے گھر میںکیسے گھس گیا ۔سب اسی انتظار میں تھے کہ یہ بلی تھیلے سے باہر کب آتی ہے ؟ٹھاکر موہن اس کی بیوی کلپنا اور بلوندر کے بارے میں لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے لیکن ان لوگوں کے کان پر جوں تک نہ رینگتی ۔بے حسی اور بے ضمیری جب کسی کو دبوچ لیتی ہے تو کان بہرے ہو جاتے ہیں اور آنکھوں سے کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔دیونر اپنی کالی بلی کے ذریعے سادہ لوح لوگوں کو دنیا و مافیہا سے بے خبر کر چکا تھا۔یہ کالی بلی تو سب گاﺅں والوں کے لیے اس قدر منحوس ثابت ہوئی کہ لوگ کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے ۔وہ جس کام میں ہاتھ ڈالتے ان کی سب تدبیریں الٹی ہو جاتیں اور رتیں بے ثمر ہو کر رہ جاتیں ۔سب کا یہی خیال تھا کہ ہو نہ ہو یہ سب کچھ اسی کالی بلی کی نحوست کی وجہ سے ہے کہ ان کی امیدوں کی فصل غارت ہو جاتی ہے اور صبحوں شاموں کی محنت اکارت چلی جاتی ہے ۔کئی بار دل جلے لوگوں نے بلی کو ٹھکانے لگانے کے بارے میں بھی سوچا لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی ایسی افتاد پڑ جاتی کہ سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے۔
بلوندر کی کالی بلی کی پیش بینی کے بارے میں ہر طرف چرچے تھے ۔لوگ کہتے تھے کہ جس کسی کا یہ کالی بلی راستہ کاٹ لے وہ کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پورے لوگ کالی بلی اور اس کے کالے کرتوت کرنے والے مالک بلوندر کے شر سے اس قدر سہمے ہوئے تھے کہ کوئی بھی ان کے سامنے دم نہ ما ر سکتا تھا ۔رہی سہی کسر ٹھاکر کی سر پرستی نے پوری کر دی ۔اب وہ دھڑلے سے ٹھاکر کی دولت پر گلچھرے اڑاتا،مے گلفام سے سیراب ہوتا اور داد عیش دیتا۔ٹھاکر کا پہلی بیوی سے بیٹا روپن مل شہر میں ان تمام واقعات سے اچھی طرح آگاہ تھا ۔وہ جانتا تھا کہ کلپنا نے اس کے باپ کی دولت پر قبضہ کرنے کی غرض سے اسے چلو میں الو بنا رکھا ہے۔ٹھاکر کی زرعی اراضی ،جمع پونجی بے حد و بے حساب تھی ۔اس قدر دولت کا واحد وارث روپن مل ہی تھا جو اپنی بیوی ،بچوں اور ضعیف ماں کے ہمراہ محنت مزدوری کر کے وقت گزار رہا تھا ۔اسے باپ کی شادی پر کوئی اعتراض نہ تھا لیکن حالات نے جو نئی کروٹ لی تھی اس پر وہ پیچ و تاب کھاتا رہتا تھا ۔کلپنا اور بلوندر نے تو اس کے باپ کی زندگی ہی خطرے میں ڈال دی تھی ۔وہ ہمیشہ اسی فکر میں رہتا کہ جلد اپنے باپ کو اپنے پاس لائے اور اس کی خدمت کرکے اس کا سہار ا بنے ۔

اب پورے علاقے میں کالی بلی والے سادھو بلوندر کی دھوم مچی تھی ۔ کالی بلی کے ذریعے سے بلوندر جس عیاری سے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا تھا وہ حد درجہ لرزہ خیز کیفیت تھی ۔فاقہ کش لوگ اپنی سب جمع پونجی اس جعل ساز کو دے کر رخصت ہو جاتے اور پھر زندگی بھر اپنے مقدر کو کوستے پھرتے ۔ایک بار بلی نے ایک نوجوان کا راستہ کاٹ لیا جو موٹر سائیکل پر سوار ہو کر قصبے کی جانب جا رہا تھا ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ کچھ فاصلے پر موٹر سائیکل جب نہر کی پٹڑی پر جا رہا تھا تو وہ نہر میں جا گر ا اور اس طرح وہ نو جوان ڈوب کر مر گیا ۔اسی طرح یہ بات بھی زبان زد عام تھی کہ جس مکان کی چھت پر کالی بلی رات کو گھوم کر میاﺅں کر دے وہ مکان اسی وقت خالی کرنا ضروری ہو جاتا ہے ورنہ اس کے مکین مارے جاتے ہیں ۔مکان خالی کرتے وقت کوئی چیز ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی ۔اس کا سبب یہ بتایا جاتا تھا کہ کالی بلی اور اس کے بھو ت وہ سار ا سامان اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

گاﺅں میںارشد نامی ایک شخص نے کچھ زرعی اراضی خریدی۔وہ شہر کا رہنے والا تھااور جدید زراعت کے ذریعے رزق کمانا چاہتا تھا ۔وہ ٹریکٹر کے ذریعے ہل چلا کر زمیں ہموار کر رہا تھا کہ بلوندر اپنی بلی سمیت وہاں جا پہنچا ۔بلوندر نے اسے کہا کہ ہل چلانے سے پہلے بلی کی فال ضروری ہے ۔اور اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے کالی بلی کی فال نہ مانی تو سب کچھ بھسم ہو جائے گا ۔بلوندر نے غصے سے کہا :
”اس علاقے میں ہر کام اس کالی بلی کی فال کے بعد ہوتا ہے ۔ اگر تم نے اب بھی کالی بلی کی فال نہ مانی تو تمھیں یہ کالی بلی عبرت کا نشان بنا دے گی۔“
”چپ رہو کالی زبان والے احمق “ ارشد نے کہا ”میں تم پر اور تمھاری فال پر لعنت بھیجتا ہوں ۔اس مظلوم بلی کو بلا وجہ بد نام نہ کرو ۔اس دنیا میں وہی کچھ ہوتا ہے جو خدا کو منظور ہوتا ہے ۔جو کچھ تم سے ہو سکتا ہے وہ تم کر لو ،میں اس توہم پرستی پر یقین نہیں کر سکتا ۔“
” اب سب کچھ بھسم ہو جائے گا “ بلوندر نے غراتے ہوئے کہا ”آج کی رات تم بچ نہیں سکتے یہ کالی بلی تم پر قہر بن کر گرے گی اور تم راکھ کریدتے پھرو گے لیکن کچھ بھی باقی نہیں بچے گا “

ارشد نے ٹریکٹر اپنی زمین میں کھڑا کیا اور واپس شہر چل دیا ۔وہاں اپنے ساتھیوں سے بات کی ۔اتفاق سے روپن مل سے بھی رابطہ ہو گیا ۔روپن مل نے ارشد کو بھر پور تعاون کا یقین دلایااور اپنے باپ ٹھاکر کو سمجھانے کی کوشش پر آمادہ ہو گیا ۔دوسرے دن جب ارشد گاﺅں پہنچا تو یہ دیکھ کر اس کے پاﺅں تلے سے زمین نکل گئی کہ ٹریکٹر کو کسی نے آگ لگا دی تھی اور وہ کباڑ کا ایک ڈھانچہ بن چکا تھا ۔پورے گاﺅں میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ کالی بلی اور بلوندر کے غیظ و غضب کے باعث ارشد کو یہ دن دیکھنا پڑا ۔ارشد دامن جھاڑ کر وہاں سے شہر کی جانب چل دیا ۔راستے میں اسے ایک بوڑھا آدمی ملا اس نے ارشد کو سمجھایا کہ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے دشمنی کا نتیجہ ایسا ہی نکلتا ہے ۔اگر ٹھاکر اور اس کی بیوی اس درندے کی سر پرستی نہ کریں تو اسے سیدھا کیا جا سکتا ہے ۔ایک اور شخص نے کہا کہ کالی بلی کی نحوست سے آج تک کوئی نہیں بچ سکا ۔بلوندر لوگوں کی جان ،مال اور عزت و آبرو جس بے دردی سے لو ٹتا ہے ا س تمام کام میں اسے کالی بلی کی آشیر باد حاصل ہے ۔ ارشد یہ سب باتیںسن کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔شہر واپس آکر اس نے تمام واقعات سے روپن مل کو آگا ہ کیا ۔

اگلے دن روپن مل گاﺅں پہنچا اور اس نے اپنے باپ سے کہا ”آپ کی بہو سخت بیمار ہے ۔امی نے کہا ہے کہ اپنے باپ اور والدہ کو ساتھ لے کر جلدی آﺅ ۔“

یہ سن کر ٹھاکر خوشی سے پھولا نہ سمایا اس کی بیوی نے اس سے صلح کر لی تھی اور اس کا اکلوتا بیٹا اب اس کے گھر آ گیا تھا ۔اس نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ اپنی نئی بیوی کو ساتھ لیا اور شہر جانے پر آمادہ ہو گیا ۔جاتے وقت اس نے بلوندر سے کہا :
” تم مکان میں موجود رہنا اور کالی بلی کو کمرے میں ساتھ رکھنا اس کے بعد کوئی خطرہ نہیں ۔“
”اس گاﺅں میں کوئی چور نہیں آ سکتا “ بلوندر نے کہا ”کالی بلی کے اندر کالی دیوی چھپی ہے وہ سب کچھ بھسم کر دے گی ۔جس طرح ارشد کا ٹریکٹر راکھ کا ڈھیر بن گیا تھا اسی طرح کالی بلی کے باغی اس کے قہر و غضب سے بچ نہیں سکتے ۔“

روپن مل یہ سب باتیں دھیان سے سن رہا تھا کہ اچانک کالی بلی میاﺅں میاﺅں کرتی اس طرف آ نکلی ۔روپن مل نے ایک چکن سینڈ وچ اس کی طرف پھینکا اور وہ اسے اٹھا کر بھا گ گئی ۔

”اچھا ہوا کہ اس کالی بلی نے کا رکا راستہ نہیں کاٹا ورنہ کوئی حادثہ ہو سکتا تھا ۔“ کلپنا بولی ”لیکن یہ تو بتاﺅ کہ بہو کو کیا ہوا ہے ؟“

” ابھی جا کر معلوم ہو جائے گا “ ٹھاکر بولا ”روپن مل تم نے یہاں آ کر میرے جگر کو ٹھنڈا کر دیا ہے ۔تمھاری ماں کا کیا حال ہے اس نے چالیس سال تک میری خدمت کی ہے ۔اب اس عالم پیری میں اسے میں نے تنہا چھوڑ دیا یہ تو بڑی بے دردی ہے ۔کیا وہ مجھے معاف کر دے گی ؟“

یہ سن کر کلپنا دانت پیسنے لگی اور بولی ”معافی کس بات کی ؟تم نے کون سی غلطی کی ہے ۔غلطی تو میں نے کی ہے جس نے اٹھارہ سال کی عمر میں ایک اسی سالہ بڈھے کھوسٹ سے بیا ہ کر کے اپنی جوانی کو بر باد کر دیا ہے ۔تم جیسے ناکارہ شوہر کے اتھ زندگی گزارنا ایک بہت بڑا عذاب ہے ۔“

” یہ وقت لڑنے کا نہیں بل کہ دعا کا وقت ہے َ“ ٹھا کر نے آہ بھر کر کہا ” جو بھی اس دنیا میں کوئی غلطی کرتا ہے وہ اس کا خمیازہ خود اٹھاتا ہے ۔“

دو گھنٹے کی مسافت طے کر کے وہ شہر پہنچے توروپن مل کے گھر میں سب حیرت زدہ رہ گئے ۔اس نے ا پنی ماں اور بیوی کو سب باتیں پہلے سے سمجھا رکھی تھیں ۔بہو اس وقت اپنے بستر پر لیٹی کرا رہی تھی ۔روپن مل اپنی پہلی بیوی کے سامنے بیٹھا زارو قطار رو رہا تھا۔جلد ہی اس نے بہو کے سر پر ہاتھ رکھا اور اپنے پوتوں پوتیوں کو گود میں لے لیا۔

”تم نے یہ صلح کرنے سے پہلے کالی بلی کی فال کیوں نہیں نکلوائی “ کلپنا بولی ”اب کیا ہو گا وہ کالی بلی تو ہم سب کو ما ڈالے گی ۔“

”صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں سمجھا جاتا “ٹھاکر نے کہا ”اب مجھے کالی بلی اور کالے سادھو کا کوئی ڈر نہیں ۔سب کچھ بھاڑ میں جائے میں تو اب یہیں رہوں گا ۔اور تم اگر میرے ساتھ رہنا چاہو تو ٹھیک ورنہ جہاں سینگ سمائیں چلی جاﺅ ۔“

رات کے سائے گہرے ہو رہے تھے ،روپن مل ،ارشد اور اس کے دو ساتھی گاﺅں کے قریب پہنچ چکے تھے ۔روپن مل نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی اندر سے بلوندر کی آواز آئی :
” کون ہو؟اس وقت کیا کام ہے ؟ٹھاکر اوراس کی بیوی تو شہر چلے گئے ہیں ۔“
” میں روپن مل ہوں اور ابا نے مجھے بھیجا ہے کہ تمھیں ساتھ لے آﺅں “

دروازہ کھل گیا ۔سب لوگ اندر داخل ہو گئے اور بلوندر کو گریبان سے پکڑ لیا اور اس کی خوب دھنائی کی ۔اس کی چیخ پکار سن کر گاﺅںکے لوگ بھی وہاں آ پہنچے لیکن سب نے دم سادھ رکھا تھا ۔ کالی بلی مسلسل میاﺅں میاﺅں کر رہی تھی ۔سب لوگ اس انتظار میں تھے کہ کالی بلی کے قہر و غضب سے اب کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔مسلسل جوتے پڑنے سے بلوندر نڈھال ہو گیا اور وہ معافی کی دہائی دینے لگا ۔ارشد نے برگر اور سینڈ وچ کالی بلی کی طرف پھینکے جو اس نے اپنے منہ میں اٹھا لیے اور وہ چپکے سے ایک طرف جا کر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر لیں مزے سے بر گر اور سینڈ وچ کھانے میں مصروف ہو گئی بلوندر کو جس قدر زور سے جوتے پڑتے کالی بلی کی اسی قدر خوشی سے باچھیں کھل جاتیں ۔گاﺅں کے لوگ بھی اس تماشے کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سمائے ۔کئی زندہ دلوں نے تو ان نو وارد وں پر پھول بھی نچھاور کیے ۔ارشد نے کالی بلی کی پیٹھ تھپتھپائی اور اسے اٹھا لیا ۔ روپن مل نے بلوندر کی لوٹی ہوئی تمام جمع پونجی ارشد کے حوالے کر دی اور کہا کہ اسے کسی یتیم خانے میں جمع کرا دینا ۔اس کے بعد ا پنے گھر کو تالہ لگایا ۔اب انھوں نے بلوندر کو اپنے ساتھ لیا اور شہر کا رخ کیا ۔راستے میں درد سے کراہتے ہوئے بلوندر نے کہا کہ شہر میں میرا ایک مکان ہے وہ میں تمھیں ٹریکٹر کا نقصان پورا کرنے کے عوض دیتا ہوں میری جان بخشی کر دو ۔گاﺅں سے باہر نکلتے ہوئے یو ں محسوس ہو رہا تھاکہ مکر اور فریب کی ایک داستان اپنے انجام کو پہنچی ۔جور و ستم کی ہو ا تھم گئی تھی ۔

اگلے دن ارشد نے اس مکان کا قبضہ لے لیا اور تمام کاغذات اپنے نام کر ا لیے۔بلوندر کی بلی اب بھی ارشد کے مکان میں رہتی ہے مگر بلوندر اب در بہ در اور خاک بہ سر بھیک مانگتا پھرتا ہے ۔ کسی کو اس پر اسرار بھکاری کے ماضی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔جس کی حالت زار دیکھ کر لوگ دل تھام لیتے ہیں ۔ فطرت کی سخت تعزیروں کی زد میں آنے والے اس بھکاری کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برستی ہیں اور جو اپنے آبائی گاﺅںسے سیکڑوں میل دور ایک بہت بڑے شہر کے گلی کوچوں میں یہ صدا لگاتا ہے :
ہے حرص و ہوا کا دھیان تمھیں ،اور یاد نہیں بھگوان تمھیں
سل ،پتھر ،اینٹ ،مکان تمھیں دیتے ہیں یہ راہ بھلابابا
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 611355 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.