اپنی پہچان کی جنگ

عورت اور مرد کے روایتی طرز زندگی کا انداز بدل رہا ہے۔ مرد و عورت کو برابر حقوق ملنے چاہےے۔ مرد و عورت ایک گاڑی کے دو پہیےے ہیں ۔ مرد و عورت معاشرے کے اہم رُکن ہیں۔

یہ وہ جملے ہیں جو گاہے بگاہے کانوں میں صدا دیتے ہیں۔ مگر کیا حقیقت اِس طرح ہے؟ کیا عورت کو وہی مواقعے ماحول اور حقوق حاصل ہیں جو ہمارے معاشرے میں ایک مَرد کو حاصل ہیں۔ آج ہم پاکستانی معاشرے کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو صورتحال کچھ مختلف نظر آتی ہے۔

اکیسویں صدی کے اِس دور میں بھی عورت اپنی پہچان کے ان گنت مسائل کا شکار ہے۔ پاکستان کے دور افتادہ علاقوں کے دیہاتوں میں صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے۔ آج بھی کاروکاری، قرآن سے شادی ، وٹہ سٹہ ، غیرت کے نام پر قتل جیسی رسومات موجود ہیں۔

تعلیمی سہولیات تقریباً ناپید ہیں اور جن علاقوں میں موجود ہیں وہاں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں کہ یہ پڑھ لکھ کر کیا کریں گی۔ ان کا کام چولہا ، چکی ہے۔ اِس موقع پر لوگوں کے ذہن سے یہ حقیقت اوجھل ہو جاتی ہے کہ ایک عورت نسلوں کے لئے نشان ِ منزل ہے جو معاشرے کے باشعور افراد تیار کرتی ہے۔ شہری زندگی کی صورتحال بھی اِس سے کچھ مختلف نہیں شہروں میں بھی ایک طبقہ یہی زاویہ نگاہ رکھتا ہے۔ تعلیم لڑکی کو دلوائی بھی جاتی ہے تو صرف اِس حد تک کے وہ” پَڑھ لکھ“سکے۔ جبکہ شعوری طور پر عملی زندگی میں قدم رکھنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں جاتی۔ جو بہرحال آگے کی زندگی میں اُس کے لئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ وہ اپنے گرد و نواع پر نظر دوڑاتی ہے تو احساس ِ محرومی اور بے قدری کا احساس اُسے ذہنی تناﺅ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جبکہ والدین اپنی کوتاہی سے بے خبر رہتے ہیں کہ آج کے دور میں بھی اپنی بیٹی کو تعلیم نہ دلوا کے اُنھوں نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔

اسلام عورت کو علم حاصل کرنے سے نہیں روکتا نہ ہی کسی ایسے ہنر کو سیکھنے سے منع کرتا ہے جو اِن کے لئے معاش کے حصول کا ذریعہ بن سکیں۔ اسلام جائز طریقے اختیار کرنے پر پابندی نہیں لگاتا۔ البتہ مغربی معاشرے کی بے حیائی ، بے راہ روی اور بے لگام آزادی کی اسلام تائید نہیں کرتا۔

ایک بچہ مذہب اور اخلاق کا درس آغوش ِ مادر سے حاصل کرتا ہے اگر ماں ہی غیر تعلیم یافتہ اور محدود سوچ کی حامل ہوگی تو وہ کس طرح اپنی اولاد کے شعور کی پرورش کر سکے گی لیکن افسوس ہماری آنکھیں نہیں کھل رہیں اور ہم اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں۔

اکثر لڑکیوں کو یہ کہہ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روک دیاجاتا ہے کہ ”جو کرنا ہو اب اپنے گھر میں شادی کے بعد کرنا“ جبکہ اکثر شادی کے بعد بھی اُس کی یہ خواہش خواہش ہی رہ جاتی ہے۔

شادی کے بعد عورت اپنی تعلیم کو مکمل کرنا چاہے ۔ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہے اور اپنی جہہ مسلسل کے ذریعے اپنی زندگی کی ہر ناکامی کو دور کرنا چاہے تو اُسے ایک نئی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔ اگر وہ گھر کے معاملات یا بچے کی نگہداشت و تربیت کو متوازن انداز چلاتے ہوئے نوکری کرنا چاہے تو کبھی شوہر کے طنزو طعنہ ہوتے ہیں تو کبھی سسرال والے اپنی باتوں کے ذریعے نشتر چبھوتے ہیں۔ اور اِس طرح اُس چھوٹی سی بچی کے دل میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش خود کو منوانے کی خواہش اور اپنی پہچان کی جنگ لڑتے چلے جانا اُس وقت بھی کم نہیں ہوتا جب وہ ایک مکمل عورت بن کر معاشرے کو بنانے والے ذمہ داران میں شامل ہو جاتی ہے۔

آج بھی پاکستان میں متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والی عورت اپنے مقام سے ناواقف ہے اور اپنی اہمیت کو فراموش کر بیٹھی ہے۔ عورت کا ایک روپ بیٹی ہے۔ اسلام نے اِس کے حقِ زندگی ، حقِ تعلیم و تربیت کی تاکید پورے زور و شور سے کی ہے۔

ہمارے شہری علاقوں میں جہاں نسبتاً تعلیم عام ہے لڑکیوں نے لڑکوں کے مقابلے میںتمام تعلیمی شعبوں میں بہترین کارکردگی کے تمغے حاصل کےے ۔ مگر جب یہ لڑکیاں اپنی تعلیمی قابلیت کی بنا پر عملی زندگی میں قدم رکھنا چاہتی ہیں تو جا بجا رکاوٹیں اُنکا مقدر بنتی ہیں۔ اکثر یہ کہہ کر روک دیا جاتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کیا ہمیں لڑکی کی کمائی کی ضرورت پڑگئی جو ہم تم سے نوکری کروائیں۔ نوکری کرنے والی لڑکیوں کو ہمارے معاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ۔ والدین کو یہ تشویش ہوتی ہے کہ رشتے اچھی جگہ سے نہ آئینگے۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت پڑھے لکھے والدین بچپن ہی سے غیر محسوس طریقے سے لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ الگ الگ سلوک کرتے ہیں اور کبھی کبھی انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ایسا کررہے ہیں۔ لڑکی ماں کی جانب سے ملنے والے اشاروں کو سمجھنے لگتی ہے وہ اپنے کاموں سے آگاہ ہونے لگتی ہے۔ وہ اپنی جنس سے بھی آگاہ ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ اپنے عورت ہونے کا مطلب بھی سمجھنے لگتی ہے۔ وہ بہت چھوٹی عمر سے سمجھ جاتی ہے کہ جس گھر میں اِس کی پرورش ہو رہی ہے یہاں اِس کا قیام عارضی ہے۔ اِس لئے کہ وہ جانتی ہے کہ اُس کی ماں کا گھر اور تھا لیکن وہ اُس کے باپ کے گھر رہ رہی ہے۔ تاہم اِسے کسی قسم کا سوال کرنے پر جھڑک دیا جاتا ہے۔

بہت چھوٹی سی عمر ہی میں ماں باپ کے لہجے سے اِس میں یہ بات پختہ ہونے لگتی ہے کہ اِس کے وجود کے ساتھ شاید کوئی غلط چیز جڑی ہوئی ہے۔ والدین کو اپنا انداز بدلنا ہوگا۔

خواتین کو فیصلہ سازی کا حق نہیں دیا جاتا۔ آج بھی والدین جہاں چاہتے ہیں لڑکیوں کی شادیاں کر دیتے ہیں اور اِس معاملے میں انہیں بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جنہیں اپنی تقدیر کا لکھا سمجھ کر ہر فیصلہ قبول کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسا وہ اپنے شوہر یا باپ کی ملکیت ہے۔ بچی کے طور پر وہ اپنے باپ کی ملکیت ہوتی ہے اور باپ جس سے چاہے اپنی بیٹی کی شادی کر سکتا ہے۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں باپ پیسے کے عوض اپنی بیٹی فروخت کر دیتا ہے اور بعض جگہ نام نہاد رسومات کی بناءپر فروخت کر دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات لڑکی جائداد کی طرح اِس کے شوہر یا آجر کے ہاتھ بیچ دی جاتی ہے۔ اور شادی کے بعد وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ جب چاہے اپنی بیوی کے جسم کو استعمال کر سکتا ہے۔ ایسی سوچ رکھنے والے شخص سے یہ کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ عورت کے دیگر حقوق کا خیال رکھے گا۔ یہ تصور ات عورت کو ہی نہیں پورے معاشرے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

ایک لڑکی کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اِس کی زندگی کے بارے میں اہم فیصلے کرتے ہیں۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ خود کیا چاہتی ہے یا اِس کی اپنی بھی کوئی خواہش ہو سکتی ہے۔ جبکہ اسلام نے شریک زندگی کے انتخاب کے معاملے میں مردوعورت دونوں کو پسند ناپسند کا اختیار دیا ہے۔

بیشتر خواتین چاہتی ہیں کہ وہ اپنا ہنر دوسروں تک منتقل کریں اپنی صلاحیتوں سے دوسروں کو نوازیں اور معاشرے کو فائدہ پہنچائیں لیکن وہ اپنے خاندانی رسم و رواج اور بعض قطعی نام نہاد قسم کے بندھنوں میں اِس قدر جکڑی ہوتی ہے کہ کوشش کے باوجود باہر نہیں نکل پاتی اور اِس کی ساری خواہشیں اِس کے اندر ہی مر جاتی ہےں۔

یہ انتہائی ظلم اور انصاف کے تقاضوں کے قطعی برعکس سلوک ہے ۔ جو ہمارے معاشرے میں عورتوں کے ساتھ اکثر و بیشتر دیکھنے کو ملتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ رویہ صرف ان پڑھ ، جاہل افراد یا گاﺅں دیہات ہی نہیں بلکہ بعض اوقات پڑھے لکھے اور معزز خاندانوں کے افراد میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔

یہ بات عورت کو معلوم ہونی چاہیے کہ وہ کسی کی ملکیت نہیں اِس کا جسم اِس کا ذہن اِس کا دل اور اِس کا دماغ سب پر اِس کا اپنا اختیار ہونا چاہیے اور وہ اِس کا حق رکھتی ہے۔ مسئلہ صرف شعوری کوشش سے حل کرنے کا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تضاد پایا جاتا ہے۔ دراصل ہم معاشرتی ذہنی غلامی کا شکار ہیں جبکہ ہمارے دین اسلام میں عورتوں کو واضح حقوق دےے گئے ہیں۔

اسلام نے عورت کو بحیثیت بیٹی ، بہن ، بیوی ہی حقوق نہیں دےے بلکہ بحیثیت ماں اِس کے قدموں کے نیچے جنت کا مژدہ سنایا گیا اور دنیا میں حسن معاشرت کا سب سے زیادہ مستحق اِس کو ٹھہرایا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ مردو عورت کو زندگی کا سفر ساتھ کرنا ہے تو پھر امتیازی سلوک کیسا۔ عورت وہ پھول ہے جو تصویرِ کائنات کو محبت کی خوشبو سے مہکا دیتی ہے۔ عورت مردوں کا ضمیمہ نہیں بلکہ اس کی اپنی ایک مستقل حیثیت ہے۔
دستِ حنا سے گیسوئے گیتی سنوار دو
تم عارض ِ حیات کو آﺅ نکھار دو
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 284658 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.