تنگنائے اٹک

(Attock Gorge)
جمشید خٹک

سکند راعظم ، تیمور اور نادر شاہ نے غالباً اٹک کے مقام پر دریائے سند ھ کو عبور کیا تھا۔ 1581 میں ہندوستان کے بادشاہ اکبر نے دُشمن کے حملوں سے اور جرنیلی سڑک پر ڈاکوؤؤں سے بچاؤ کیلئے دریائے اٹک کے مغربی کنار ے پر ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا۔یہ تعمیر ایسے مقام پر کیا گیا ہے ۔جہاں دریا کا پاٹ بہت ہی تنگ اور کم ہے ۔اس مقام کے اہمیت کے پیش نظر انگریزوں نے اس قلعے سے تین چار کلومیٹر دریا کے ڈھلوان پر لوہے کے گرڈرز سے ایک پُل تعمیر کی ۔انگریزوں نے بھی دریا کے پاٹ کو نہایت کم دیکھکر منتخب کیا ۔اس پُل کی تعمیر 1883 میں کی گئی ۔اس جگہ کی خاصیت یہ ہے ۔کہ اس مقام پر دریائے سندھ کی چوڑائی صرف دوسو گز پر محیط ہے ۔اتنی کم طوالت جگہ کو عبور کرنا یا اس جگہ پر پُل بنا کر تیکنیکی ماہرین کے لحاظ سے اولین تر جیح سمجھی جاتی ہے ۔اس لئے جتنے بادشاہ اس راستے سے گزرے ہیں ۔ اُنھوں نے دریائے سند ھ کو پار کرنے کیلئے اٹک کے مقام کو منتخب کیا ہے ۔اسی وجہ سے اٹک کی اہمیت ہمیشہ سے قائم ہے ۔

ایوب خان کی حکومت تک رات کو سات بجے یہ پُل بند ہوتا تھا۔اور صبح سات بجے کھلتا تھا۔سینکڑوں کی تعداد میں پُل کے دونوں اطراف میں گاڑیاں کھڑی ہوتی تھیں۔پُل کے ارد گرد دو تین کلومیٹر تک میلے کا ساسماں ہوتا تھا۔خیر آباد کے مقام پر اور دریا کے اُس پار حضرت جی بابا کے مقام پر سارے ہوٹل رات کو کھلے ہوتے تھے ۔گاڑیوں کے مسافر تھکاوٹ کو دور کرنے کیلئے چائے نوش فر ماتے تھے۔ آرام کرتے تھے اور بے چینی سے صبح کا انتظار کرتے تھے ۔تاک گیٹ کھلنے کے ساتھ ہی وہ پُل پار کر جائیں ۔اور منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔ایک روایت کے مطابق سابق صدر پاکستان ایوب خان کے ایک رشتہ دار کی حادثے میں موت کی وجہ سے میت جب اٹک پُل پر پہنچی تو پُل بند ہوگیا تھا۔پوری رات پُل کے گیٹ کے باہر انتظار کرنا ممکن نہیں تھا۔اس لئے صدر پاکستان کے حکم پر اس گیٹ کو کھول دیا گیا ۔اُس دن سے آج تک یہ کھلا ہے ۔اور بغیر کسی رکاوٹ کے ٹریفک رواں دواں ہے ۔ہا ں قارئین کی توجہ کیلئے عرض کردوں ۔ کہ یہ پرانے پُل کی بات ہورہی ہے ۔جو آج کل بند کردیا گیا ہے ۔پُرانے پُل پر اب صرف ریل گاڑی گزرتی ہے ۔اب ساری ٹریفک دو نئے پُلوں پر جاری ہے ۔پرانا پُل اور پُل کے جنوبی کنارے پر خوبصورت ریلوے سٹیشن اب آثار قدیمہ کے سائٹس میں شامل ہیں ۔اور سیاح سیر وتفریح کیلئے اٹک پُل اور سٹیشن کا خوبصورت منظر دیکھنے آتے ہیں ۔

دریائے سندھ کو پار کرنے کیلئے کئی جگہ کا انتخاب ہو سکتا تھا۔بعض مقامات پر دریائے سندھ کا پاٹ میلوں تک چوڑا ہے ۔جیسے ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب یہ پاٹ کافی چوڑا ہے ۔

اٹک گارج کے تنگ درے کا فائدہ پُل بنانے کی حدتک تو صحیح ہے۔ لیکن بذریعہ سڑک ٹرانسپورٹ کو دس سے پندرہ کلومیٹر دُشوار گزار پہاڑوں سے گھوم پھر کر پرانے پُل تک پہنچنا پٹرول اور وقت کا ضیاع تھا۔غلام فاروق (مرحوم) سابق وزیر خزانہ خیبر پختونخواہ (سابقہ صوبہ سرحد) نے ان مشکلات کے پیش نظر پرانے پُل سے چار کلومیٹر پیچھے ایک نئے پُل کا منصوبہ پیش کیا ۔ جو خیر آباد کے مقام پر بنایا گیا۔جرنیلی سڑک پر خیر آباد پر نئے پُل کی تعمیر کی وجہ سے وقت اور ایندھن میں کافی بچت ہوئی ۔اس پُل پر ٹول ٹیکس لینے کیلئے اُس وقت پنجاب کی حکومت سے کافی مذاکرات ہوئے ۔بلاآخر خیبر پختونخواہ کی حکومت نے یہ پُل تعمیر کرایا۔اس پر آنے والے سارے اخراجات کو خیبر پختونخواہ کی حکومت نے برداشت کیے ۔چند سال بعد اس پُل کے برابر میں ایک دوسرا پُل تعمیر کیا گیا ۔ جو شائد اب NHA کی ملکیت ہے ۔نہ معلوم بعد میں پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے مابین کیا طے پایا ۔ لیکن اب دونوں پلوں پر NHA کا ٹول پلازہ ہے اور وہی ٹول ٹیکس وصول کرتی ہے ۔

ہر سال دریائے سندھ اور دریائے کابل میں سیلاب آتا ہے ۔سیلاب کے کئی وجوہا ت ہیں ۔موسم کی تبدیلی مون سون ہواؤؤں کا رخ وغیرہ شامل ہیں ۔لیکن ایک وجہ دریائے سندھ کا اٹک کے مقام پر پانی نہایت تنگ درے سے گزرنا ہے ۔پُل کیلئے تو یہ نہایت موزوں جگہ ہے ۔لیکن سیلاب کیلئے نہایت خطر ناک اور نقصان دہ ہے ۔سب سے بڑا سیلاب 1841 اور 1858 میں آیا تھا۔جس میں ستر سے سو فٹ پانی بلند ہوکر دریا کے کنارے آبادی تک پھیل گیا تھا۔ اُس کے بعد 1929 ، 55 ، 57 ، 73 ، 76 ، 88 ، 92 اور 2010 میں مختلف شدت کے سیلاب آئے ۔لیکن 2010 کا سیلاب شدید ترین تھا۔جس نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ۔ 2010 کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے آثار آج تک موجود ہیں ۔جو مکان تباہ ہوئے ہیں ۔ابھی تک کھنڈرات کی شکل میں کھڑے ہیں ۔ جو پُل اور سڑک تباہ ہوئے ۔ وہ آج تک مرمت نہیں ہوسکے ۔دریا میں طغیانی اور سیلاب سے پیدا ہونے والی تباہیوں کی روک تھام کیلئے حکومت مختلف منصوبوں پر عمل کررہی ہے ۔دریائے کابل کے کنارے آباد دیہات کو سیلاب سے بچانے کیلئے خطیر رقم خرچ کر کے دریا کے کنارے مپشتے تعمیر کررہی ہے ۔ان پشتوں پر بھاری رقم خرچ کیا جارہا ہے ۔لیکن اس سیلاب کو روکنے کیلئے پشتے بنانے کے علاوہ اور بھی کئی اقدامات ہوسکتے ہیں ۔جس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے ۔سیلابی ریلا اٹک کے مقام پر جب تنگ درے سے گزرتا ہے ۔تو زیادہ مقدار میں پانی کااخراج نہیں ہوتا۔اُلٹا پانی رک کر دریائے سندھ کے پانی کے بہاؤ کو روک کر پیچھے کی طرف دھکیلتا ہے ۔جب دریائے سندھ کا پانی رک جاتا ہے ۔دریا ئے کابل کے مقابلے میں دریائے سندھ کے پانی کی سطح بلند ہوجاتی ہے ۔تو دریائے کابل کا پانی بھی رک جاتا ہے ۔ اور جھیل کی شکل میں پھیل کر ندی نالوں میں آبادی کی طرف رخ کرلیتا ہے ۔دیہاتی آبادی اور کھڑے فصلوں کو نقصان پہنچاتا ہے ۔آج تک کسی نے اس پر غور نہیں کیا ہے ۔کہ اگر اٹک کے مقام پر تنگ درے کو کشادہ / چوڑا کیا جائے تو زیادہ مقدار میں پانی بااسانی گزر سکتا ہے ۔ دریا سندھ کا سیلابی پانی اٹک پہنچ کر کھلا راستہ نہ ملنے کی وجہ سے دریا ئے کابل کو پیچھے دھکیلنے پر مجبور کرتا ہے ۔کیونکہ گیٹ وے تنگ ہونے کی وجہ سے دریا سندھ کا سیلابی پانی اٹک گارج سے بااسانی نہیں گزر سکتا ۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی ڈیمز اور بجلی پیدا کرنے کے ذرائع وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ڈیمز اور بجلی سے حاصل کردہ آمدنی بھی وفاقی حکومت کے زیر انتظام واپڈاکے کھاتے میں جاتی ہیں۔وہ الگ بات ہے ۔ کہ موجودہ حالات میں ملک کے بڑے ڈیموں سے بہت کم مقدار میں بجلی حاصل کی جاتی ہے ۔جس کی ایک وجہ ڈیمز میں ریت بھر جانا ہے ۔سالانہ ہزاروں ٹن ریت ڈیمز میں نیچے جمع ہوتا رہتا ہے ۔جس سے ڈیم کی ذخیر ہ آب میں کمی آجاتی ہے ۔خاص طورپر تربیلہ ڈیم اس وقت ریت سے بھرا پڑا ہے ۔حکومت نے ڈیم کو ریت سے خالی کرنے کیلئے اور ذخیرہ آب کی مقدار کو بڑھانے کیلئے کئی منصوبوں اور تجاویز پر غور وخوض کیا۔حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق پتہ چلا کہ ڈیم کو ریت سے خالی کرنے کیلئے اتنی بڑی خطیر رقم کی ضرورت ہے ۔کہ اُن پیسوں پر ایک نیا ڈیم بن سکتا ہے ۔شائد حکومت مخمصے کا شکار ہوکر اس سمت میں کوئی قدم نہیں اُٹھا سکتی ۔

بجلی کے متبادل ذرائع آئی پی پیز سے بجلی حاصل کررہی ہے ۔وہ بھی مقدار کے مطابق نہیں ہے ۔اس وقت کم وبیش آٹھ سے دس ہزارمیگا واٹ بجلی پیدا ہورہی ہے ۔جو ضروریات سے بہت کم ہے ۔جب کہ آئی پی پیز سے تقریباً اٹھارہ ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ۔یہ تب ممکن ہے کہ حکومت تیل کمپنیوں کو بروقت ادائیگی کرے۔

وفاقی حکومت بجلی کی آمدنی وصول کرتی ہے ۔تو دریاؤؤں سے پیدا شدہ نقصانات کو کم کرنے کیلئے اپنا کردار بھی ادا کریں ۔اٹک گارج کو چوڑا کرنے کیلئے کوئی منصوبہ لے آئیں ۔ اس مجوزہ منصوبے پر غوروخوض کرنے کیلئے واپڈا کے ماہرین اور کنسلٹنٹس کے ذریعے اس کو زیر بحث لایا جائے ۔تاک سیلاب کی تباہ کاریوں کو دریا کابل تک پہنچنے سے پہلے اٹک کے مقام پر چوڑے پاٹ کیو جہ سے پانی کے اخراج کو بغیر کسی روک ٹھوک کے آگے چلنے میں آسانی ہو۔اس سے ایک تو سیلاب کا خطرہ اور اُس سے پیدا ہونے والے نقصانات میں کمی آسکتی ہے ۔صوبائی حکومت کا پشتوں پر خرچ میں بھی کمی آنے کے امکان پیدا ہوسکتے ہیں۔اٹک گارج کو چوڑا کرنے کیلئے وفاقی حکومت منصوبہ لے آئے اور اُس کی تکمیل کے اخراجات برداشت کریں۔
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 22908 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.