جمہوریت کیا ہوتی ہے؟

آئیے میں آپ کو آج اس ملک کے اس ادارے سے متعارف کراتا ہوںجو صرف جمہوری بلکہ اخلاقی نظام کا مثالی نمونہ بنا ہوا ہے۔جہاں کے لوگ اپنے ادارے ، اس کے قوائد و ضوابط اور اصولوں سے اس قدر مخلص ہیں کہ اپنے ذاتی مفادات کو قربان کردیتے ہیں ۔ کسی نے دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی تو اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ کسی نے ذاتی مفادات کے حصول کی کوشش کی تو اسے ناپسندیدہ قرار دیکر رہنمائی سے ہٹادےتے ہیں۔یہاں کئی سالوں سے لیڈر بننے والے کئی سالوں تک عام ممبر بنے رہتے ہیں اور جب عہدے سے ہٹتے ہیں تو عزت احترام کے ساتھ ہٹ جاتے ہیں۔اس ادارے میں 54 سال سے ہر سال انتخابات ہورہے ہیں ، کبھی بھی اور کسی بھی انتخابات کے بعد یا ووٹنگ کے دوران دھاندلی ، غیرجانبدارانہ اورغیر منصفانہ الیکشن کا الزام کسی جانب سے نہیں لگایا گیا۔ایسا بھی نہیں کہ یہاں صرف ایک ہی گروپ ہے ۔یہاں بھی دو گروپ ہیں ، دونوں گروپ کے نظریات الگ الگ ہیں، سیاسی وابستگیاں اور انسیتیں بھی الگ ہونگی ۔ مگر الحمداللہ کبھی بھی یہاں طوفانِ بدتمیزی نہیں مچا ۔

دونوں ہی گروپس سے وابستہ لوگ پینل بناکر انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔انتخابی مہم بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ چلائی جاتی ہیں ۔لیکن چونکہ دونوں گروپس میں شامل تمام ہی لوگ تعلیم یافتہ، سمجھدار اور انسانیت کی حقیقی خدمت کرنے کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں ۔اس لیئے ہر معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کیا جاتا ہے۔ہر مسلے کو حل کرنے کی نیت سے ہی مذاکرات کئے جاتے ہیں۔
آپ یقین کریں کہ یہاںکے تمام اراکین بلاتفریق اور نظریات ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ ایسی محبت جو معاشرے میں اب ناپید ہے۔انتخابات کے دنوں کے میں بھی یہ لوگ آپس میں الجھتے نہیں ہیں اور نہ ہی دلوں میں کدورتیں رکھتے ہیں۔

یہ گھر چند افراد سے آباد ہوا تھاآج اس سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہیں اس کے ووٹرز کی تعداد گیارہ سو سے زائد ہے۔

یہاںنئے ممبرز بننے والوں کو گلے لگایا جاتا ہے اپنے ساتھ بیٹھنے ، کھانا کھانے ، کھیلنے اور پڑھنے کا موقع دیا جاتا ہے۔اس ادارے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ممبر بنانے کے لیئے بھی جمہوری تقاضے اپنائے جاتے ہیں اور لیڈر بنانے کے لیے بھی جمہوری اصولوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

اس ایوان میں سب کو سنا جاتا ہے ،سب سے مشورہ لیا جاتا ہے ،سب کو لیڈری کرنے اور اپنے دوستو کی خدمت کا موقع دیا جاتا ہے۔آپ یقین کریں کہ میں جس گھر، بنگلے ،کوٹھی یا جھونپڑی کی بات کررہا ہوں ، اس کے مکین رشتے دار نہیں ہیں مگر رشتے داروں سے زیادہ محبتیں بانٹنے والے ہیں۔ خونی رشتوں سے بڑھ کر اپنے ساتھی یا ساتھیوں کا خیال رکھنے والے ہیں۔یہاں آکر کوئی ممبر اگر تنہا رہنا چاہتا ہے تو بھلا
رہے لیکن جو تنہائی کو پسند نہیں کرتا اسے کوئی بھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔اس ادارے کا ہر کونانجیب احمد پیجی ، یوسف خان، ارشاد گلابانی ،عارف جئے جا،اصغر بھٹی،سجاد بھائی (سجاد احمد) اوررفیع ناصرمرحوم کو یاد کرتا ہے۔ان مرحوم دوستو کے ساتھ یہاں کے لوگ اسد محمود صاحب ، شمیم الرحمان صاحب،غوثی صاحب ،اقبال جعفری صاحب مرحوم کو کبھی بھی بھلا نہ پائے۔

یہاں کے اراکین ہمیشہ سلیم عاصمی ، ادریس بختیار ، مظہر عباس، عامر ضیاء، طاہر نجمی، مقصود یوسفی،قیصر محمود،انور سن رائے،امتیاز فاران، اے ایچ خانزادہ، موسٰی کلیم، اور عامر لطیف کی ان خدمات کو کبھی نہیں بھلاسکیں گے جو انہوں نے ادا کی اور کررہے ہیں۔

میں جس چہار دیواری کی بات کررہا ہوں اسے ” کراچی پریس کلب “ کہا جاتا ہے۔ 1958میں کراچی پریس کلب آئی ایچ برنی صاحب اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد سے قائم ہوا کلب کے قیام کے فوری بعد کلب انتخابات کا انعقاد ماہ دسمبر میں ہوا ۔58ء سے اب تک مسلسل اور بغیر کسی تعطل کے ہر سال دسمبر میں انتخابات انتہائی پرامن اور خوشگوار ماحول میں ہوتے ہیں۔اس سے قبل جون میں انتخابات یقینی بنائے جاتے رہے تھے لیکن پھر اتفاق رائے سے الیکشن دسمبر میں ہی کرانے کا فیصلہ کیا گیا ۔

اہم مسائل یا منتخب باڈی سے اختلافات بڑھ جائیں تو جنرل باڈی کا اجلاس طلب کرکے فیصلہ کیا جاتا ہے۔شائد ایک بار جنرل باڈی نے ووٹنگ کے ذریعے منتخب باڈی پر عدم اعتماد کیا اور اسے فارغ کردیا گیا۔ ساتھ ہی ایڈمنسٹریٹر مقرر کرکے جلد ہی نئے انتخابات کرادیئے گئے تھے۔یہ سب اس قدر احسن طریقے سے ہوا اور ہوتا ہے جیسے یہاں کی مخلوق کا تعلق پاکستان سے نہیںہے۔یہاں کی جمہوریت بلاشبہ مثال ہے ۔

کلب کے سینئر ممبر ، ہم سب کے لیئے قابلِ احترام اور ملک کے مشہور سینئر صحافی جناب ادریس بختیار ( ادریس بھائی)سے میں نے پوچھا ” ادریس بھائی مجھے یاد کرکے بتائیے کہ کوئی ایسا بھی سال رہا جب کلب میں الیکشن نہیں ہوئے ہوں؟“۔ ادریس بھائی نے کہا ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہواکہ
منتخب عہدیداران سے ایک بار ممبران مایوس ہوئے تو جنرل کونسل کا اجلاس بلاکر اس کمیٹی کو معزول کردیا گیا ۔

ادریس بھائی نے کہا کہ بلاشبہ کراچی پریس کلب ” آئیڈیل ڈیموکریسی “ کا نمونہ ہے۔جمہوریت کی بات کرنے اور اپنے آپ کو جمہوری کہنے والے سیاست دانوں کو کراچی پریس کلب کی جمہوریت سے اور جمہوری نظام سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152962 views I'm Journalist. .. View More