اب تو حد ہوگئی۔۔۔۔لیکن؟

اب تو حد ہوگئی ، لیکن ۔۔۔۔۔ ۔۔۔شائداس کے باوجود کچھ بھی نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔؟ ملک اور ملک کے بانی کے قائد اعظم محمد علی جناح کے خلاف کوئی کچھ بھی الٹا سیدھا کہہ دے ، کیسے بھی الزامات لگائے ، دشمن ملک میں جاکر دھرتی کی عزت کو پارہ پارہ کردے ، دو نظریہ کی مخالفت کرکے غیر مسلموں کے سامنے گڑگڑائے ، اور لندن میں بیٹھ کر کبھی اسلامی اقدار کو چیلنج کرے تو کبھی جمہوریت کو، کبھی جنرلوں کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دے تو کبھی جمہوریت کے چمپیئنز کو للکارے ، کبھی طالبان کا رونا روئے تو کبھی ، سندھیوں ، پٹھانوں، پنجابیوں اور بلوچیوں کا مذاق اڑائے ، دل چاہا تو مہاجر بن جائے ورنہ اپنے آپ کو اردو بولنے والا سندھی کہلانے کو ہی عزت سمجھیں ،آزاد اور طاقتور عدلیہ کے خلاف توہین آمیز الفاظ ادا کرے اور سیاسی اور مذہبی رہنماﺅں کو مغلظات بکیں تب بھی کچھ نہیں ہوا ۔۔۔۔اور نہ ہوگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ہم سب ،سب کچھ ایک بار پھر بھول جائیں گے اور پھر عدالت انہیں معاف کردے گی ، لوگوں کا ہجوم ان کی آواز سننے کے لیئے لاﺅ ڈاسپیکرز کے سامنے بیٹھ جائے گا، میڈیا ان کے الفاظ کو نوٹ کرے گا ہجوم کی ویڈیو اور اسٹل عکاسی کی جانے لگے گی۔

یہ ڈرامے دیکھتے ہوئے ملک کا سب سے پرامن اور بڑا شہر مقتل گاہ بن چکا، امن پسند ، شریف شہری کراچی ، حیدرآباد اور میر پور خاص میں یرغمال ہوچکے ہیں۔1984سے اب تک ہزاروں لوگ مارے جاچکے ، پڑھا لکھا شہر کہلانے والا روشنیوں کا شہرکراچی ہر طرح کی تاریکیوں میں ڈوبتا جارہا ہے،کوئی ایک بھی تو محلہ ، علاقہ ، بستی ، کالونی یا ٹاﺅن ایسا نہیں ہے جہاں خوف نہیں ہے ، جہاں لاش نہ گری ہو، جہاں گولیاں نہ چلتی ہوں۔تعلیم کے بجائے اسکول کالجز میں اپنے آپ کوتحفظ دینے کی تربیت اور تعلیم حاصل کرنا ترجیحات میں شامل ہوچکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر بھی ہاں پھر بھی وہ اچھا ہے کیونکہ دوسرے سب خراب ہیں، دوسروں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔۔۔کیسی بے وقوفانہ باتیں ہیں یہ ؟ ۔۔۔۔وہ دانشوری کہاں چلی گئی جو کہا کرتی تھی” خطرہ اندر سے اپنوں سے ہوتا ہے “۔؟وہ سبق کیوں بھول گئے جو ” پہلے اپنے آپ کو اور پھر اپنے گھر کو سدھارنے اورسنبھالنے کا “ سبق دیا کرتا تھا؟۔۔۔۔۔۔ارے آپ لوگ کیوں یہ بات بھول گئے کہ جو بچے بگڑ جایا کرتے تھے انہیں باالاخر گھروں سے نکال دیا جاتا تھا ۔۔۔۔والدین معاشرے کو شر سے بچانے کے لیئے اپنے لخت جگر کو ِگھر سے ،خاندان سے علیحدہ کرکے اس کی جدائی کی آگ میں اندر ہی اندرجلا کرتے تھے ۔۔۔جیتے جی مرجایا کرتے تھے کہ کہیں میری اولاد دوسروں کے لیئے پریشانی کا باعث نہ بن جائے ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اسے اس وقت گھر واپس آنے کی اجازت دی جاتی تھی جب وہ ” انسان“ بن جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب بچے بڑوں کی بات نہ مان کرصرف آوارہ گردی میں مبتلا ہوجاتے تھے یا پڑھائی سے منہ موڑ لیا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔اسلحہ کا استعمال عام نہیں تھا ،کراچی کے لوگ تو اسلحہ رکھنے کی ضروت ہی محسوس نہیں کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔آج بھی میرے ملک کے کئی شہروں اور متعدد خاندانوں میں یہ روایت زندہ ہوگی کہ جہاں احتساب گھر سے کیا جاتا ہو ۔۔۔۔

لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے گھر کو سدھارنے کی سبیل نہیں کرپارہے۔۔۔۔۔۔ارے جناب وہ دن کیوں آپ سب بھول چکے ہیں جب اچھے برے کی تمیز کرتے ہوئے یہ ہی شہر نئے چہروں نئی پارٹیوں کا انتخاب کیا کرتا تھا۔

اس 29,30 سال میں صرف امن خراب نہیں ہوا چھوٹے بڑے کی عزت ، تمیز تہذیب سے بھی ہم نالاں ہوگئے۔ خوف میں مبتلا ہوکر یرغمال تو ہم اب سب ہیں۔۔۔۔

ذرا سوچئے کہ پہلے تو ہم خود ہی لیڈروں کی شناخت میں ناکام ہوئے ، خود ہی اپنے بچوں کو ان کے حوالے کیاجو یہ سبق دیا کرتے تھے کہ ” کوئی رشتے دار آپ کی مدد کو نہیں آئے گا بلکہ صرف آپ کا ساتھی ہی آپ کی مدد کرے گا“۔ ۔۔۔۔پھر ہر گھر سے لاشیں اٹھنی لگیں اورگھروں پر چھاپے پڑھنے لگے۔۔۔۔ایجنسیوں کا نام ہر مسلے اور واقعہ پر لیا جانے لگا ۔۔۔۔اس کے باوجود ہم اپنے رہنماﺅں کو نہیں پہنچان پارہے؟ کسی بھی پارٹی کو یا جماعت کو آزمانے کے لیئے دو ،تین یا پانچ سال بہت ہوتے ہیں ۔۔۔لیکن 30,32 سال بعد بھی ہم لیڈر کو نہیں سمجھ پارہے۔۔۔۔۔۔کیا اتنی موٹی بات بھی سمجھ میں نہیں آسکتی کہ جو رہنماءاپنے کارکنوں سے یہ نعرہ لگوائے کہ” منزل نہیں قائد چایئے “ وہ کس طرح قوم سے یا قوم کی منزل سے مخلص ہوسکتا ہے؟۔۔۔۔۔کیا کسی کو یہ بات بھی سمجھنے میں مشکل ہورہی ہے کہ وہ لیڈر کس قدر بے وقوف یا لیڈرشپ سے نابلد ہوگا کہ جو اپنے ان ساتھیوں کو جنہیں دایا ں اور بایاں بازو کہا کرتا تھا انہیں ہی تحریک سے الگ ہونے پر مجبور کردے ۔ اس زمانے میں ان پر جو الزامات لگائے گئے تھے کیا اب ان الزامات سے پاک ہے یہ تحریک؟

اس تحریک نے اپنے قیام سے آج تک اپنے کارکنوں کو کیا دیا ؟ اسلحہ ، لاشیں یا خوف ۔۔۔۔یہ ہی وہ تباہ کن عوامل ہیں جس سے ڈر کر خود لندن میں محفوظ ہیں اوور کارکنوں سے مزید قربانیاں مانگی جارہی ہے۔۔۔۔کتنی عجیب بات ہے۔۔۔۔۔۔کیا تحاریک میں ایسا ہی ہوتا ہے؟ رہنماءکارکنوں کی رائے لیکر آگے بڑھتا ہے ؟ یا کارکنوں کو اپنے نقشے قدم پر چلنے کی راہ دکھاتا ہے؟اگر پہلی بات درست ہے تو لیڈر کیوں کارکنوں کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر نہیں چل رہا ۔۔۔۔اگر دوسری بات صحیح ہے تو سب کو اپنے ساتھ وہاں کیوں نہیں بلوا لیتا؟کیا کوئی ان سے یہ وضاحت طلب نہیں کرسکتا کہ کس لیئے یہ جدجہد کی جارہی ہے ؟ کیوںیہ تحریک چلائی جارہی ہے؟اور اب تک کیا فائدے اس تحریک سے عام کارکنوں اور ملک و قوم کو ہوئے ہیں؟ مسلسل حکومت میں رہنے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ کارکنوں اور کنٹرول والے شہر کے لوگوں کوکچھ بھی نہیں ملا۔۔۔وہ شہر بھی نہیں جہاں آپ کو خوف نہ ہو؟ اگر حکومت میں رہنے کے باوجود کچھ حاصل نہیں کیا جارہا ، شکوے اورشکایتیں بڑھتی جارہی ہیں تو یہ کس کی نااہلی ہے؟

میں جس لیڈر اور جس تحریک کا ذکر کررہا ہوں اس کا نام لکھنے کی مجھے ضرورت نہیں ہے جبکہ مجھے یقین ہے کہ سب پڑھنے والے سمجھ رہے ہیں۔

ڈرون حملے کے نام پر عوام کو انتظار کروایا اور پھر وہ باتیں کی جو براہ راست قائداعظم محمد علی جناح کی شان میں گستاخی سے کم نہیں تھیں۔حیرت اس بات پر ہے کہ چند روزقبل ” قائد اعظم یا طالبان کا پاکستان “ کی بات کی جارہی تھی ۔اسی عظیم قائد پر انتہائی چالاکی اور مکاری کے ساتھ یہ لیبل لگادینا کہ وہ برطانیہ کا پاسپورٹ رکھتے تھے ۔۔۔یہ جملہ قوم کو بے وقوف بنانے کے سوا اورکیا تھا؟ارے جناب آپ کے لوگ آپ کی” عزت اور احترام“ کی وجہ سے آپ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔لیکن انہیں آپ بےوقوف سمجھنے لگے ہیں۔۔۔کیوں؟۔۔۔کیا آپ اتنے لاعلم اور بے وقوف لوگوں کے لیڈرہیں جو یہ بھی نہیں جانتی کہ 14 اگست 1947 کو پاکستان کے قیام کے بعد قائداعظم نے کبھی بھی برطانیہ ،امریکہ یا کسی اور ملک کا دورہ نہیں کیا تھا۔

ارے لیڈر صاحب سب جانتے ہیں کہ ملک قائم ہونے کے چند ماہ بعد وہ بیمار ہوگئے تھے اور بعد ازاں ۱۱ ستمبر 1948کو ان کا انتقال ہوگیا ۔ ان کے پاس برٹش پاسپورٹ تھا تو یہ کونسی بری بات تھی ،برٹش پاسپورٹ انہوں نے استعمال تو نہیں کیا تھا؟ اس زمانے میں سب کے پاس برٹش پاسپورٹ ہی ہوتا تھا۔ لوگ تو یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے پاس اس پاسپورٹ کے علاوہ کوئی اور پاسپورٹ نہیں تھا ۔

قائد اعظم کی شان میں گستاخی کرنے والے یہ صاحب اس سے قبل 14اگست 1979قائد اعظم کی مزار پر پاکستان کے پرچم کی بے حرمتی کرنے کے الزام میں عدالت سے نو ماہ کی سزا بھی سن چکے ہیں۔لیکن پھر بھی یہ پاکستان کے حق پرست لیڈر ہیں اور پاکستان سے مخلص ہیں ؟
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152977 views I'm Journalist. .. View More