محمد علی جناح" قائد اعظم"تھے یا نہیں ؟

مسٹر جناح جنھیں قائد اعظم اورکافر اعظم کا خطاب ان کی زندگی میں ہی دے دیا گیاتھا۔ان پر انکی زندگی میں ہی متعدد اعتراضات اور تنقید یں ہوتی رہی ہیں اسلئے اگرمسٹر جناح پر بعد از مرگ کوئی بھی تبصرہ ، تحقیق کے دائرے میں ہو تو سوال و جواب میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ایم کیو ایم کیجانب سے مسٹرجناح کو مسلم شیعہ ، مختلف تاریخی ثبوت کےساتھ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری جانب سنی مکاتب فکر نے انھیں شیعہ تسلیم کرنے سے انکار کیا،فقہی مسلک کے حوالے سے اٹھنی والی گرد ابھی ٹھیک طرح بیٹھ بھی نہیں پائی تھی کہ الطاف حسین نے ایکبارپھر تاریخی حوالوں سے مسٹر جناح کی بہ حیثیت گورنر جنرل تقرری ،تاج برطانیہ سے حلف وفاداری کو "بحالت مجبوری" قرار دیکر موجودہ دوہری شہریت کے حوالے سے جوڑ کر کئی سوالات چھوڑ دئےے۔یہ بات تو طے شدہ ہے کہ پاکستانی نئی نسل اپنی تاریخ سے ناواقف اسلئے ہے کیونکہ نصاب تعلیم میں ناقابل یقین حقائق کو نئی نسل تک منتقل نہیں کرنے دیا گیا۔ہمیں پاکستانی تاریخ کی درستگی کےلئے کیا اقدامات کرنے ہونگے ؟ اس پر بحث کی جانے چاہیے اگر ہم فکری سوچ و فکر میں برداشت کا مادہ بھی رکھتے ہوں ،مسٹر جناح کے حوالے سے جب تاریخ کے اوراق کھولے جا رہے ہیں تو یقینی طور نوجوان نسل یہ ضرور جاننا چاہے گی کہ پاکستان جس مشکل حالات میں الجھا ہوا ہے کیا قومی تاریخ پر متنازعہ مباحث سے گرداب سے باہر آسکے گا ؟۔ صرف مجادلوں ،مناظروں ، تقاریر اور قیاس آرائیوں سے پاکستان کو دہشت گردی ، انتہا پسندی ،داخلی انتشار اور انارکی سے باہرنہیں نکالاجاسکتا۔بلکہ اس کےلئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اساس پاکستان کی بنیاد کیا تھی اور اب کیا ہے؟جب تک ایسے درست نہیںکیا جائے گا اس وقت تک پاکستان کی عوام کو داخلی انتشار اور بیرونی مداخلت سے نجات بھی نہیںمل سکتی۔مسٹر جناح پر سب سے بڑا اعتراض کانگریسی مسلمانوں نے کیا تھا کہ جناح ،دراصل مسلمانوں کا بٹوارہ چاہتے ہیں۔ مسٹر جناح کیا چاہتے تھے اس کےلئے پہلے ہمیں اس حقیقت کوقبول کر لینا چاہیے کہ مسٹر جناح ، نہ سنی تھے ،نہ شیعہ تھے ، نہ خوجہ تھے اور نہ ہی اور کسی فرقہ وارانہ مسلک کے پیروکار ۔بلکہ انکے تمام تر نظریات انکی تمام تقاریر میں امت واحدہ اورفکر قرآنی کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں ۔انکی کسی تقر یر میں کبھی بھی فرقے ومسلک کا ذکر بالکل اسلئے نہیں ملتا کیونکہ وہ کسی بھی فرقہ وارانہ مسلک بندی پر یقین نہیں رکھتے تھے ۔ عصبیت اور مذہبی منافرت سے بالاتر ہوکر ان کی تمام تقاریر پڑھی جائیں تو ان میں صرف اورصرف قرآن کریم کے قوانین واصول کے حوالے جا بجا ملیں گے ۔مسٹر جناح ،تھیا کریسی کے بھرپور مخالف تھے ، وہ بارہا کہہ چکے تھے پاکستان میں تھیا کریسی نہیںہوگی۔تھیا کریسی کی مخالفت کی بنا ءپر وہ کسی بھی مذہبی مسلک کی اجارہ داری نہیں چاہتے تھے۔فروری1948ءاہل امریکہ کے نام براڈ کاسٹ پیغام میں تھیاکرسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "یہ امر مسلمہ ہے کہ پاکستان میں کسی صورت میں بھی تھیاکریسی رائج نہیں ہوگی،جس میں حکومت مذہبی پیشواﺅں کے ہاتھ میں دےدی جاتی ہے کہ وہ (بزعم خویش) خدائی مشن کو پورا کریں۔"یہی نظریہ اقبال کابھی تھا "رونامہ انقلاب لاہورکی23مارچ 1932ءکی اشاعت میں انھوں نے قوم سے کہا کہ"تمھارے دین کی یہ عظیم الشان بلند نظری،ملاﺅں اور فقیہوں کے فرسودہ اوہام میں جکڑی ہوئی ہے اور آزادی چاہتی ہے۔"پاکستان بننے سے پہلے مسٹر جناح نے 5فروری 1938ءکومسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی یونین سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مسلم لیگ نے تمھیں اس ناپسندیدہ عنصر کی جکڑ بندیوں سے آزاد کردیا ہے جسے مولوی یا مولانا کہتے ہیں". 11اپریل1946ءکودہلی میں مسلم لیجسلیٹرز کنویشن کے آخری اجلاس میں کہا کہ"اِسے اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ ہم کس مقصد کےلئے یہ جنگ کر رہے ہیں،ہمارا نصب العین تھیا کریسی نہیں ، ہم تھیا کرٹیک سٹیٹ نہیں بنانا چاہتے۔"ان جیسی لاتعداد تقاریر ہیں جس میں تھیاکریسی کےخلاف مسٹر جناح نے بغاوت کا اعلان کیا تو پھر وہ خود فرقہ بندی کا شکار کیسے ہوسکتے ہیں۔انکی سوچ کیا تھی یہ قیام پاکستان سے قبل انھوں نے واضح کردیا تھا ، حیدرآباد(دکن)میںعثمانیہ یونیورسٹی کے طلبا ءکو 1941ءمیںکچھ یوںبیان کیا کہ جس کے بعد کچھ اور کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔انھوں نے کہا تھا"اسلامی حکومت کے تصورکا یہ امتیازہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا" واحد ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول" ہیں۔اسلام میں اصلا نہ کسی" بادشاہ "کی اطاعت ہے نہ کسی" پارلیمان " ,نہ کسی اور "شخص" یا "ادارہ "کی۔"قرآن کریم "کے احکام ہی سیاست یا معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کے حدود متعین کرتے ہیں،اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی ہے اور حکمرانی کےلئے آپ کو علاقہ اور مملکت کی ضرورت ہے۔(اورینٹ پریس بحوالہ روزنامہ انقلاب ، لاہور مورخہ 8فروری1942ئ(۔یکم نومبر 1941ءکو لدھیانہ میں اکھنڈ بھارت کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت ہندوﺅں کے مشہور رہنما ءمسٹر منشی نے کی۔انھوں نے کہا "تمھیں معلوم بھی ہے کہ پاکستان ہے کیا ؟ ،نہیں معلوم تو سن لیجئے کہ پاکستان کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسکا حق حاصل ہے کہ وہ ملک کے ایک یا ایک سے زیادہ علاقوں میں اپنے لئے ایسے مسکن بنا لیں جہاں طرز حکومت" قرآنی اصولوں" کے ڈھانچے میں ڈھل سکے اور جہاں ©" اردو" ان کی قومی زبان بن سکے ،مختصرایوں سمجھئے کہ پاکستان مسلمانوں کا ایک ایسا خطہ ارض ہوگا جہاں اسلامی حکومت ہوگی۔)ٹریبیون 2نومبر1941ئ(۔پاکستان بننے کے بعد جرمن اسکالر پروفیسر ڈاکٹرKRAHNAN نے1977ءمیںمسٹر جناح کی جشن صدسالہ تقریب میں کہا کہ"قائد اعظم محمدعلی جناح کے سامنے ماڈل ،قرآن مجید تھا"(پاکستان ٹائمز ۳ فروری88 ء)۔لاتعداد ایسے تاریخی حوالے ہیں کہ مسٹر جناح پاکستان کےلئے ایک ایسے آئین کی تخلیق چاہتے تھے جس کی اساس قرآن کریم کے قوانین اور اصول ہوں۔غیر مسلم تو سمجھ گئے کہ مسٹر جناح کیسا پاکستان چاہتے تھے لیکن ہم ابھی تک نہ جان سکے ۔ بدقستمی سے زندگی نے مسٹر جناح کو مہلت نہیں دی ۔ جس کی وجہ سے پاکستان جس دو قومی نظرئےے کے تحت وجود میں آیا تھا س کے ثمرات پوری دنیا میں نہ پہنچ پائے۔پاکستان کے دو قومی نظرئےے کی موت تو سقوط ڈھاکہ کے ساتھ ہی ہوگئی ہے ۔ اب یہ بچا کچا پاکستان ، نئے تجربات کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ مسٹرمحمد علی جناح ،تھیا کرٹیک نہیں تھے ، قیام پاکستان کا مقصد صرف مسلمانوں کا بٹوراہ تھا یا ضروت ؟یہ موضوع متنازعہ ہے لیکن ا یسے غیر متنازعہ بنا نے کےلئے تسلیم ، کرنا اور کرانا ہوگا کہ محمد علی جناح "قائد اعظم "تھے , یا نہیں ؟؟۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 266457 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.