تھِرل اور سسپنس

آج کے کالم کا آغاز ایک بہترین ہستی کے نام سے جس نے دینداری اور دنیا داری میں ایمانداری دکھائی۔قاضی حسین احمد کا اس دنیا سے چلے جانا ایک بڑا قومی سانحہ ہے،قاضی حسین احمد ایک عہد کا نام ہے۔قاضی حسین احمد ایک عظیم شخصیت کا نام ہے جس کو نہ صرف پاکستانی تاریخ بلکہ اسلامی تاریخ میں بھی بہترین مقام حاصل ہے۔اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پر فائز کرے۔آمین

پاکستان میں نہ جانے کب کھمبے کو ووٹ دینے کی روایت دم توڑے گی۔یہاں لوگ شخصیت اور مقصد یت کو ہر گز ہر گز نہیں دیکھتے بلکہ پیسے،ظاہری حسب نسب، واقفیت ،دھونس دھاندلی اور ذاتی مفادات کو دیکھتے ہیں۔ڈاکٹر طاہر القادری صاحب ایک ایسے اداکار ہیں جن کی ایکٹنگ کے لئے ان کے ماضی میں جانا پڑے گا اور یاد رہے کہ انسان کا ماضی ایسی چیز ہے کہ جو کبھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ہم نے تو کالم بھی جب بھی ذکر کیا خود کو احقر اسی لئے لکھا کہ ہم ایک معمولی انسان ہیں مگر ڈاکٹر طاہر القادری جنہوں نے اپنی تحریک کو اپ کرنے کے لئے نہ صرف کینڈا ،پاکستان سمیت پوری دنیا میںانہیں داعی اسلام سمجھنے والوںسے زیور اور نہ جانے کیا کیا اکٹھا نہیں کیا۔یقین کریں انہوں نے جتنا پیسہ خرچ کر دیا اور جتنا اسلام آبا د کے لئے خرچ کریں گے ،وہ سارا پیسہ اکٹھا کر کے غریبوں میں تقسیم کرتے تو پورے ملک کے نوے فی صدغریب اچھے بھلے خوشحال ہو جاتے۔ہم نے تو ان کی ایک ہی ویڈیو دیکھی ہے جس میں وہ اپنے کسی جھوٹے خواب کا ذکر کرتے ہیں جس میں نعوذباللہ ان کو ایک عظیم المرتبت ہستی کا دیدار ہوتا ہے۔اس ویڈیو کے نیچے سوشل ویب سائیٹس پر لوگوں نے ان کو جو جو نام دیئے ہیں شاید وہ یہ پڑھ کر اپنی شخصیت پر لگے آئینے کا دیدار کر لیں اور اپنے بھٹک جانے کا احساس کر لیں۔

یہ بات پورا ملک جانتا ہے کہ موجودہ حکومت خراب ہے،کرپٹ ہے،ان کے پاس عوام کو ریلیف دینے کے لئے کچھ بھی نہیں۔یہاں گیس،پٹرول اور بجلی کی کمی سے پورا ملک متاثر ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری تمام پاکستانیوں کے لئے ایک بہت بڑا مسلہ ہے لیکن دہشت گردی سے متاثرہ پاکستان میں طاہر القادری صاحب کا نام نہاد مارچ بھی ایک بہت بڑا مسلہ ہے۔اس ساری صورت حال سے اگر ملک دشمن دہشت کوئی فائدہ اٹھا گئے تو خدانخواستہ اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔مولانا کے ارد گرد تو سیکورٹی فورسز کا حفاظتی گھیرا ہوگا مگر مگر ان کی ایکٹنگ کے دھوکے میں ان کا ساتھ دینے والی بیچاری عوام کا کیا ہوگا؟ مولانا کو اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ متوقع الیکشنوں میں اپنی مہم چلا کر لوگوں سے ووٹ مانگیں اور میدان عمل میں آئیں۔

پاکستان میں حکمران جماعت کے اتحادی متحدہ قومی موومنٹ کے لانگ مارچ میں حصہ نہ لینے کے اعلان کے بعد تحریکِ منہاج القرآن کے سربراہ طاہرالقادری نے اعلان کیا ہے کہ لانگ مارچ چودہ جنوری ہی کو ہوگا۔یہ اعلان انہوں نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں کیا۔اس سے چند گھنٹے قبل ہی ایم کیو ایم نے کے ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک پریس کانفرنس میں چودہ جنوری کے لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔’میرے الفاظ یاد رکھو کہ ہم ہر صورت مارچ کے لیے نکلیں گے۔انقلاب کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے اور گھر پر بیٹھ کر پلیٹ پر نہیں ملےگی۔‘انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔اگر کوئی اور ملک ہوتا تو حکومتیں مستعفیٰ ہو جاتیں۔

اتنے سالوں سے پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مولانا اتنے سال ملک سے باہر رہ کر فقط تماشا کیوں دیکھتے رہے؟اب ان کو ہماری اور ملک کی حالت پر اتنا رحم کیوں آ گیا جب الیکشن قریب ہیں۔سوچنا یہ ہے کہ ان کو اب کون سا ذاتی یا اجتماعی فائدہ نظر آیا کہ وہ گلے میں ڈھول باندھ کے میدان میں اتر آئے۔

پہلی بات تو یہ کہ مولانا طاہر القادری کو چابی دینے والی دونوں حکومتی پارٹیاں خود ہی اپنی حکومت کے خلاف ہونے والے لانگ مارچ کا حصہ بننے جا رہے تھے اور حکومت بھی اپنے اتحادیوں کے اس عمل پر کوئی اپنا واضح موقف دینے سے فیل رہی۔ایم کیو ایم جیسے بلیک میلنگ کرکے اپنے مطالبا ت منوانے کا گُر خوب آتا ہے،جن کا لیڈر اس ملک کو قائم کرنے والے جناب محترم قائداعظم کے خلاف ہرزہ رسائی کر چکے ہیں اور محمد علی جناح کی ذات پر ڈرون حملہ کر چکے ہیں۔ہماری عوام بھی کتنی بھولی بھالی ہے کہ اس ملک کے وفادارقائد ملت جو کہ اس ملک کی تاریخ سے سنہری موتیوںکی طرح جڑے لوگوں کے خلاف بولنے والوں کو اپنا لینے کی بے وقوفانہ حرکت کر نے کے باوجود پچھتاتی نہیں۔ نائب وزیرا عظم صاحب خود ہی ان کے بقول حکومت کی طرف سے عوام پر ہونے والے مظالم کےخلاف اپنی ہی حکومت کے خلاف اس مارچ کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ایک طرف تو یہ ڈرامہ اور دوسری طرف وزیراعظم صاحب نے اسی پارٹی کو لانگ مارچ روکنے کا ٹاسک بھی دے دیا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ کس کا ڈرامہ زیادہ پُر اثر ہوتا ہے۔

ایک طرف رحمٰن ملک مولانا کو دہشت گردوں اور اسلام کے سانپوں سے ڈرانے والی بھر پور پریس کانفرنس کر چکے ہیں۔دوسری طرف مولانا طاہر القادری ہر حال میں اسلام آباد چڑھائی کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ہم مانتے ہیں کہ مولانا کے پاس اس وقت پیسہ اور طاقت سب کچھ ہے لیکن یاد رہے کہ ہیرو بننے کے لئے ملک و قوم سے وفاداری اور مذہب سے والہانہ محبت بھی لازمی امر ہے۔مولانا صاحب ایک طرف تو دوہری شہریت کے حامل ہیں اور دوسری طرف ان کی دوہری مذہبی شخصیت والی ویڈیو بھی منظر عام پر آچکی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے عوام اتنے سارے میڈیا ریسورسز ہونے کے باوجود اپنی آنکھیں کھولتے ہیں یا آنکھیں بند کرکے کھمبے کوووٹ ڈالنے والی حرکت دہرائیں گے۔14جنوری 2013ایک ایسی ایکشن فلم کا نام ہے جس میں تھرل بھی ہے اور سسپنس بھی یاد رہے اس کے سارے کردار جعلی ہیں۔
Mumtaz Amir Ranjha
About the Author: Mumtaz Amir Ranjha Read More Articles by Mumtaz Amir Ranjha: 90 Articles with 60354 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.