عامل کامِل اَبُو شامِل قسط ۔ ۲۱ (مقابلہ )۔

گُذشتہ(۲۰)۔ اقساط کا خُلاصہ۔۔۔

یہ کہانی ہے۔ ایک ایسے نُوجوان کامِل علی کی جِس کے سر سے اُسکے والد کا سایہ بچپن میں ہی اُٹھ گیا۔۔۔ والدہ کی نوجوانی میں بیوگی سے بے شُمار مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ حالات سے تنگ آکر کامل علی کی بیوہ والدہ پھر سے مولوی رمضان کی دُلہن بن جاتی ہے۔ ۔ کامِل علی کو اپنے ہمسائے چاچا ارشد کی بیٹی نرگس سے بُہت دِلی لگاؤ پیدا ہُوجاتا ہے۔جُو دھیرے دھیرے مُحبت میں تبدئل ہُوجاتا ہے۔

حالات اُور زمانے کے بار بار ستائے جانے پر کامل علی رُوحانی عملیات کی جانب راغب ہُوجاتا ہے۔ تُو وہ تمام زمانے سے خاص کر چاچا ارشد سے بدلہ لینا چاہتا ہے۔ لیکن بار بار چلہ کاٹنے کے باوجود بھی ناکامی اُسکا مقدر ٹہرتی ہے۔ وُہ ایک بنگالی جادوگر کی شاگردی اِختیار کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہر بار ایک مَجذوب(بابا صابر) اُسکے راستے میں دیوار کی مانند کھڑا ہُوجاتا ہے۔ اُستاد عبدالرشید کے بار بار سمجھانے پر بھی جب کامل علی عملیات سے باز نہیں آتا۔ تب اُستاد عبدالرشید اُسے ایک اللہ کے ولی ،،میاں صاحب ،، کے پاس بھیجتا ہے۔ لیکن یہاں بھی ناکامی کامل علی کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اُور وہ خالی ہاتھ ہی اپنے گھر لُوٹ آتا ہے۔افلاطون نامی ایک نوجوان کامل علی کے گھر میں گُھسنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لیکن کامل علی دھکے دے کر اُسے گھر سے نِکال دیتا ہے۔ لیکن جب وُہ دروازے میں کنڈی لگا کر پلٹتا ہے۔ تُو اُسی نوجوان کو اپنے بستر پر دراز دیکھتا ہے۔ افلاطُوں جسکی کُنیت ابو شامل ہے۔ اُسے بتاتا ہے ۔ کہ وُہ ایک جِن زادہ ہے۔ اُور ایک عامِل اُسکے پیچھے پڑا ہے کیونکہ وُہ کافی طاقتور جن ہے۔ افلاطُون پیشکش کرتا ہے کہ اگر کامل علی اُس عامل سے بچانے میں اِسکی مدد کرے تُو،، افلاطُون دُوست بن کر دُنیا کی ہر شئے کو اسکے قدموں میں لاکر ڈال سکتا ہے۔ کامل علی افلاطون کی پیشکش قبول کرلیتا ہے۔ دُونوں جہلم جلباب سے مُلاقات کا پروگرام بنا لیتے ہیں۔ جلباب سے مُلاقات کے بعد ابو شامل کراچی پُہنچ کر کامل علی کو تنہا نرگس کے فیلٹ تک پُہنچا کر غائب ہُوجاتا ہے۔ نرگس کامل علی کو سمجھاتی ہے کہ وُہ واپس لُوٹ جائے۔ کیونکہ وُہ اپنی سابقہ زندگی کو بُھلانے کی کُوشش کررہی ہے۔ کامل علی جب واپس گھر پُہنچتا ہے۔ تب ابوشامل نرگس کو اُسکے سامنے پیش کردیتا ہے۔

پچھلی قسط سے یاداشت۔

کامل علی جب نرگس کو اُسکے نام سے پُکارتا ہے۔ تو نرگس اصرار کرتی ہے کہ وہ اُسے جاناں کہہ کر پُکارے۔ لیکن جب کامل علی اَزراہِ ہمدردی اُسکے بیٹے طارق کا تذکرہ کرتا ہے۔ تو نرگس اُس پر برس پڑتی ہے۔کہ جب اُسکی شادی کو صرف ایک ہی رات گُزری ہے۔ تو وُہ کسی بچے کی ماں کسطرح بن سکتی ہے۔ اُور کیا وُہ اِسکے کردار پر شک کررہا ہے۔۔۔؟ نرگس کی عجیب و غریب باتوں سے پریشان ہُو کر کامل علی دُونوں ہاتھ سے اپنا سر تھام کر مسہری پر بیٹھ جاتا ہے۔

اَب مزید پڑھیئے۔

کامِل علی کا سر دَرد کی شدت کی وجہ سے پھٹا جارہا تھا۔ اُسے حیرانگی اِس بات پر نہیں تھی۔ کہ وُہ خود کو اسکی منکوحہ جتلا رہی تھی۔ بلکہ وُہ اِس بات سے پریشان تھا کہ کہیں ابو شامل نے اسکا دِماغ تو نہیں اُلٹ دِیا ہے ۔ جسکی وجہ سے وُہ اپنے پُھول سے بیٹے کو بھی فراموش کرچُکی ہے۔ یکایک اُسے ایسا محسوس ہُونے لگا۔ جیسے کوئی تسلسل سے اُسکے دِماغ پر ہتھوڑے برسا رِہا ہُو۔ درد کی شِدت کیساتھ ہتھوڑے کی گُونج میں بھی اضافہ ہُوتا چلا جارَہا تھا۔ کیا مجھ پر اِلزام لگاتے لگاتے کان کی سماعت سے بھی محروم ہُوچُکے ہیں ۔ جُو دروازے پر ہُونے والی مُسلسل دستک بھی سُنائی نہیں دے رہی آپ کو۔۔۔؟ نرگس کی آواز سُن کر کامل نے دروازے کی جانب دیکھا۔ جِسے کوئی بڑی بیدردی سے پیٹے چلا جارہا تھا۔

کامل علی نے جھنجلا کر دروازہ کُھولا تُو سامنے ابو شامل پر نظر پڑی۔جسکے چہرے سے ہی بدحواسی مترشح تھی۔ لیکن کامل علی کی اپنی ذہنی حالت بھی ایسی نہ تھی۔ کہ وُہ اِس سچویشن کو سمجھ پاتا۔۔۔۔ اسلئے جیسے ہی اُس نے ابو شامل کو دیکھا تُو اُس پر بے اختیار برس پڑا۔۔۔ بتاؤ کیا ۔کیا ہے تُم نے میری نرگس کیساتھ۔ جویہ نہ مجھے سمجھ پارہی ہے۔ اُور نہ ہی اِسے اپنا بچہ ہی یاد ہے۔۔۔ ابو شامل بھی شائد اِس سچویشن کیلئے تیار نہیں تھا۔۔۔ اُس نے بُوکھلائے ہُوئے انداز میں گھر میں انٹری کے بعد اندر سے دروازہ بندکرتے ہُوئے ایک طویل سانس لینے کے بعد کامل علی کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا۔ دیکھو میں جانتا ہُوں۔ کہ صرف تُم اکیلے پریشان نہیں ہُو۔ بلکہ تُمہارے ساتھ یہ بھی بُہت حیران ہے۔ ابو شامل نے نرگس کی جانب ہاتھ کا اِشارہ کرتے ہُوئے اپنی گفتگو جاری رکھی۔۔۔ لیکن فی الحال مجھ پر جُو افتاد آپڑی ہے ۔ اُسکی وجہ سے میں اِس وقت کچھ بھی بتانے اُور سمجھانے کی پُوزیشن میں نہیں ہُوں۔ مجھے فُوری طُور پر تُمہاری مدد چاہیئے۔ اُسکے بعد میں تُم دُونوں میں پیدا ہُوئی ہر ایک غلط فہمی کا اِزالہ کردونگا۔

لیکن فی الحال مجھے تُمہاری مدد کی اشد ضرورت ہے۔ اِس لئے تمہیں فوراً اِسی وقت میرے ساتھ چلنا ہُوگا۔ ابوشامل نے کامل کا ہاتھ تھام کر تقریباً اُسے دروازے کی طرف دھکیلتے ہُوئے کہا۔۔۔ دروازے کے قریب پُہنچ کر ایک لمحے کیلئے پلٹ کر ابوشامل نے نرگس کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ اُور ہاں مجھے اُمید ہے کہ آپ بھی گُذشتہ تمام باتوں کو بُھول کر خوشدلی سے ہماری واپسی کا انتظار کریں گی۔۔نرگس سے اتنا کہنے کے بعد ابو شامل نرگس کا جواب سُنے بغیر کامل علی کا ہاتھ تھامے دروازے سے باہر نِکل گیا۔

کامل علی کو ابوشامل کی حالت دیکھ کر اِتنا تُو اندازہ تو ہُو ہی گیا تھا کہ کُچھ نہ کُچھ معاملہ گڑبڑ ضرور ہے۔ ورنہ آج سے پہلے اُس نے ابو شامل کو اتنا نروس کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وُہ تو ایک زندہ دِل جِن تھا۔ جو اپنے ہوش وحواس کو قائم رکھتے ہُوئے ہر مشکل کا حل منٹوں میں نِکال لیا کرتا تھا۔ لیکن آج اُسکے چہرے پر اُڑتی ہَوائیاں کُچھ اُور ہی کہانی سُنا رہی تھیں۔

یار خیر تُو ہے۔۔۔؟ کیوں اتنے بدحواس نظر آرہے ہُو۔۔۔ آخر آج ایسا کیا مسئلہ ہُوگیا ہے۔ جِسے تُمہاری ٹیلی پیتھی بھی سُلجھا نہیں پارہی ہے۔۔۔؟ اُور کُچھ نہیں تو کم از کم اتنا ہی بتادو کہ ہم جا کہاں رہے ہیں۔۔۔ کامل علی نے ابو شامل کی مسلسل خاموشی کو دیکھتے ہُوئے کئی طرح سے اُسے کریدنے کی کوشش کی۔۔۔ دیکھو تھوڑی دیر خاموش رَہو۔ ویسے میں اتنا بتادوں کہ ہم سیالکوٹ جارہے ہیں۔ اتنا کہنے کے بعد ابو شامل نے ایک سُنسان گلی دیکھ کر حسبِ معمول کامل علی کے ہاتھ کو ہلکا سا ایک جھٹکا دِیا۔ جھٹکے سے سنبھلنے سے پہلے ہی کامل علی سمجھ چُکا تھا۔ کہ اب ایک نیا منظر اُسکے سامنے ہُوگا۔ اگلے ہی لمحے کامل کے خیال کی تصدیق ہُوگئی جب اُس نے خود کو ایک کچرے کے ڈھیر کے نذدیک پایا۔ ٹرین کی مسلسل وِسل اُسے اتنا سمجھانے کیلئے کافی تھا کہ ،، وُہ سیالکوٹ پُہنچ چُکا ہے اُور اِس وقت ریلوے اسٹیشن کے نذدیک کھڑا ہے۔۔۔

ابو شامل نے کامل کے سیدھا ہُوتے ہُوئے اُسے سمجھانا شروع کر دیا۔۔۔ دیکھو کامل علی یہ سیالکوٹ شہر ہے۔ لیکن آج میں تُمہارے شانہ بشانہ نہیں چل پاؤنگا۔ اسلئے یہاں سے آگے تمہیں خود جانا پڑے گا۔ البتہ میرا تُم سے دِماغی رابطہ ہر پل رہے گا۔۔۔۔ لیکن مجھے کرنا کیا ہُوگا۔۔۔؟ کامل علی نے ابو شامل کی گفتگو ختم ہُونے سے قبل ہی اپنی ذہنی خلش کا اِظہار کرتے ہُوئے استفسار کیا۔۔۔۔

یار جیسا کہ میں نے تمہیں پہلی مُلاقات میں بتایا تھا کہ ایک عامل مجھے اپنا غُلام بنانے کیلئے چلہ کاٹ رہا ہے۔ جِسکے لئے مجھے تُمہاری مدد درکار ہے۔ جِسکے عوض میں تُمہاری ہر خُواہش اُور تمنا کو پُوری کرنے کی بھرپور کوشش کرونگا۔ جِسے میں نبھانے کی کوشش بھی کررہا ہُوں۔ لیکن اب میں اُس عامل کو مزید مُہلت نہیں دے سکتا۔ اگر تمہیں یاد ہُو۔ تُو میں نے جہلم میں جلباب کے گھر پر سیالکوٹ کا تذکرہ بھی کیا تھا۔ لیکن اُسکے بعد موقع ہی مُیسر نہیں آیا کہ مزید اِس موضوع پر تُم سے گفتگو کرپاتا۔ لیکن میرے دُوست اب مجھے ایسا محسوس ہُونے لگا ہے ۔ کہ جیسے وُہ کمبخت عامل رُوز بروز میرے گرد اپنا شکنجہ کَستا جارہا ہے۔ جسکی وجہ سے میری تمام قُوتیں بھی رفتہ رفتہ کمزور پڑتی جارہی ہیں۔ اِسلئے میں چاہتا ہُوں کہ تُم اُس عامل کو کسی طرح ٹھکانے لگادو۔

ٹھکانے لگادوں ۔۔۔؟ کیا مطلب! کیا تُم یہ چاہتے ہُو کہ میں اُس عامل کو تُمہاری خاطر خُوامخواہ قتل کرڈالوں۔۔۔۔؟ ہاں میرے دُوست میری یہی خُواہش ہے کہ تُم اُسے جہنم رسید کردو۔ ابو شامل نے بڑے اطمینان سے کامل علی کے سوال کے جواب میں کہا۔۔۔۔۔ دیکھو ابو شامل۔ میں نہ ہی کوئی پیشہ ور قاتل ہُوں۔ جو تُمہارے کہنے پر کسی بے گُناہ مسلمان کے قتل سے اپنے ہاتھ رَنگ لُوں۔۔۔ اُور نہ ہی تُم نے دُوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہُوئے مجھے ایسے کِسی کام کے متعلق بتایا تھا۔ اسلئے میرا جواب صاف ہے ۔کہ،، میں کسی اِنسان کو تُو کُجا کسی چڑیا کے بچے کے قتل کیلئے بھی تیار نہیں ہُوں۔ اب چاہے تُم مجھ سے دوستی قائم رکھو۔ یا چاہُو تو اِس دُوستی کے رشتے کو تُوڑ ڈالو۔ کامل علی نے واضح اُور دُو ٹوک انداز میں اپنی رائے پیش کرتے ہُوئے کہا۔۔۔

یار اتنے خُود غرض اُور احسان فراموش تُو نہ بنو۔۔۔۔؟ کہ میرا انسانوں پر سے بھروسہ ہی ختم ہُوجائے۔۔۔جب میں نے تُم سے کہا تھا کہ مجھے ایک عامل کے مُقابلے میں تُمہاری مدد درکار ہے۔ تو تُم نے کونسا مجھ سے معلوم کیا تھا کہ،، مجھے تُم سے کِس قِسم کی مدد چاہیئے۔ ۔۔ اُور معاف کرنا میں تُم سے کسی مسلمان کو قتل نہیں کروارہا۔ بلکہ وُہ عامل ہِندو ہے۔۔۔لیکن افسوس! آج جب تُمہارا کام نِکل گیا ہے۔ اُور تُم نرگس کو پاچُکے ہُو۔ تُو تم کو شائد ایسا لگتا ہے کہ،، اب تُم کو میری ضرورت نہیں رہی ہے۔ لیکن کامل ایک بات یاد رکھنا۔ اگر آج تُم اپنے وعدے سے پھر گئے اُور تم نے میری مدد نہ کی۔۔۔ تو۔۔۔ جو کُچھ تم دیکھ رہے ہُو۔ وُہ سب کچھ ایک سراب کی مانند یکلخت غائب ہُوجائے گا۔ اُور تُم پھر سے نااُمیدی اُور حسرتوں کی دُنیا میں تنہا رِہ جاؤ گے۔۔۔ ابوشامل کامل علی کے جواب سے کچھ ذیادہ ہی نا اُمید نظر آرہا تھا۔

کامل علی نے چند لمحے ابو شامل کی گفتگو پر غُور کیا تو اُسے اِحساس ہُوا ۔ کہ واقعی وُہ اسکی مدد کے بنا کبھی بھی نرگس کو نہیں پا سکتا تھا۔ اُور بھی نجانے کتنے مسائل میں آیندہ بھی اُسے ابو شامل کی ضرورت پیش آسکتی تھی۔ اِس لئے کامل نے ابوشامل کو متوجہ کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ ٹھیک ہے کہ مجھ سے بھی غلطی سرزد ہُوگئی۔ لیکن دُوست میں کسی انسان کا قتل نہیں کرسکتا۔ اب چاہے اُسکا کوئی بھی مذہب و دین ہُو۔ ہاں اگر کوئی اُور طریقہ تُمہارے ذہن میں ہُو تو مجھے بتاؤ۔ مجھے تُمہارے کام آکر بُہت خُوشی ہُوگی۔

ٹھیک ہے میں کُچھ سُوچتا ہُوں کہ،، کِس طرح اُس عامل کو قتل کئے بغیر میری جان بچ سکتی ہے۔۔۔ ابوشامل نے کچھ سُوچتے ہُوئے اپنی گردن جُھکا لی۔۔۔ ابو شامل کافی دیر تک اپنی گردن جُھکائے اِسی مسئلہ میں غُوروفکر کرتا رَہا۔ ایسا محسوس ہُورہا تھا۔ جیسے اُسے مسئلے کا کوئی حل دِکھائی نہیں دے رَہا تھا۔ پھر کِسی خیال کے تحت ابو شامل نے خُوشی سے چُونکتے ہُوئے کہا۔۔۔ اَرے مجھے پہلے اِس بات کا خیال کیوں نہیں آیا۔۔۔؟

(جاری ہے)۔

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے
مجھکو ہر چہرے میں آتی ہے نظر اِک وُہ ہی
جو نہ بھر پائے یہ بہروپ بُرا لگتا ہے۔
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1059436 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More