اسلام آباد میں ایک اور تحریر اسکوائر؟

مصر کی جدید سیاسی تاریخ اقتدار میں آنے والی کئی شخصیات کے عروج و زوال اور عالمی طاقتوں کی اِس خطے میں مسلسل دلچسپی کی وجہ سے بھرپور ہے۔ مصر میں شہنشاہیت کا اختتام انیس سو باون میں ہوا جب فوج کے چند افسروں نے شاہ فاروق کا تختہ الٹ دیا۔پہلے صدر جنرل محمد نجیب اور ایک مختصر سے عرصے کے بعد جمال عبدلناصر 1954سے1970 میں اپنی وفات تک مصر کے دوسرے صدر رہے۔ جمال عبدلناصر کے بعد ایک اور فوجی فیلڈ مارشل انور سادات 15 اکتوبر 1970سے 6 اکتوبر 1981 کو اپنے قتل تک مصر کے تیسرے صدر تھے۔ ستمبر 1981ء میں سادات نے اپنے مخالفین دانشوروں اور تمام نظریاتی تنظیموں کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا اور کمیونسٹوں، اسلام پسندوں، جامعہ کے معلمین، صحافیوں اور طلبہ تنظیموں کے کارکنوں کو قید خانوں میں ڈال دیا گیا۔ اس مہم کے دوران 1600 افراد زیر حراست ہوئے جس کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی۔ اس آپریشن کے ایک ماہ بعد 6 اکتوبر کو قاہرہ میں "یوم فتح پریڈ" کے موقع پر انور سادات کو قتل کردیا گیا۔ انور سادات کے بعد ایرچیف مارشل محمد حسنی سید مبارک منصب صدارت پر فائز ہوئے۔ وہ ہر 6 سال بعد الیکشن کرواکر اگلے 6 سال کے لیے صدر بن جاتے تھے۔ بظاہر ایک بے ضرر شخصیت ہونے کی وجہ سے کم لوگوں کو یہ توقع تھی کہ وہ اتنے لمبے عرصےتک برسرِ اقتدار رہیں گے۔ لیکن انہوں نے صدر سادات کے قتل کی وجہ بننے والے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کو عالمی سطح پر اپنی صلاحیتیں منوانے کے لیے استعمال کیا۔ یوں وہ مغربی طاقتوں کے منظور نظر بن گئے۔ انہوں نے اپنے پورے عرصۂ اقتدار میں ملک میں ہنگامی حالت کے سہارے حکومت کی جس کے تحت شہری آزادیاں سلب کرلی گئیں اور فوج اور سیکیورٹی اداروں کو وسیع اختیارات حاصل رہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی، علاقائی سیاست میں ان کی گھٹتی ہوئی اہمیت اور تیونس میں انقلاب کے بعدجنوری 2011 میں مصری عوام میں بیداری کی ایک لہر نے جنم لیا۔ اور عوام حسنی مبارک کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی۔ قاہرہ کا تحریر اسکوائر جمہوریت پسند لوگوں کا ٹھکانہ بن گیا۔ 11 فروری 2011 کو حسنی مبارک کے صدارتی عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا گیا۔اٹھارہ روزہ احتجاج میں 300 سے زیادہ افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوے۔الیکشن میں اخوان المسلمون نے کامیابی حاصل کی اور اسطرح مصر میں 62 سال بعد جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ مصری صدر ڈاکٹر مرسی کے ایک فرمان کے خلاف بھی قاہرہ کا تحریر اسکوائرایک مرتبہ پھراحتجاج کا گڑبناتھا۔

14 اگست 1947کو پاکستان کا وجود عمل میں آیا، پہلے پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان تھے۔ قائداعظم کی رحلت اور 1952 میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستانی جمہوریت لولے لنگڑے انداز میں 1958 تک چلتی رہی۔ ایوب خان ، یحی خان، ضیاالحق اورپرویز مشرف یہ چاروں فوجی حکمراں 35 سال کے قریب اس قوم پر مسلط رہے۔ آدھا ملک ختم ہونے کے بعد ایک سویلین ذوالفقارعلی بھٹو کو حکومت ملی مگر اسکو ضیاالحق نےپھانسی چڑھادیا۔ ضیاالحق کے بعدپھر مجبورا جمہوریت لانی پڑی تو پھر دو دو سال کا کھیل شروع کردیا اور پھر پرویز مشرف مسلط ہوگے۔ مجبوری سے گے تو پھر جمہوریت لوٹی۔ بھارت میں آزادی کے بعد سے آج تک کسی جنرل میں اتنی ہمت نہیں کہ حکومت پر قبضہ کرنے کی سوچے اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہاں کا عام ووٹر اپنے ووٹ کی اہمیت کو جانتا ہے، دوسرئے بھارتی سیاستدان اپنی ہار کو تسلیم کرنے کو بھی اصل جمہوریت سمجھتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ جنرل خود آگے بلکہ اس کے سو فیصد قصوار ہمارے سیاستدان ہی ہیں۔لیاقت علی خان کے بعد ہمارے ملک میں اتنی تیزی سے وزیراعظم بدلے گےکہ اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم نے ہماری جمہوریت پسندی پر یہ کہہ کر طمانچہ مارا تھا کہ جتنی میں دھوتیاں نہیں بدلتا ہوں اس سے زیادہ پاکستان میں وزیراعظم بدل جاتے ہیں۔

موجودہ حکمراں ٹولے سے پورے ملک کے عوام پریشان ہیں، اس کے دورمیں کرپشن کے عالمی ریکارڈ ٹوٹ گے ہیں، امن وامان ناپید ہوگیا ہے ، ملک معاشی طور پر برباد ہوچکا ہے، دہشت گردی بے قابو ہے اور ملک کا ہر ادارہ اس حکمراں ٹولے نے برباد کردیا ہے۔ اب عوام کو امید ہوئی کہ شاید ان سے جان چھوٹ جائے گی۔ ایسے میں علامہ طاہرالقادری کی آمد اور سیاست نہیں ریاست بچاو کا نعرہ اور پھر اُس میں ترمیم۔ 23 دسمبر کے اُنکے جلسے میں ایم کیو ایم کے ایک بڑے وفد کی شرکت، پھر ایم کیو ایم کی دعوت پر کراچی آکر ایک جلسے سے خطاب اور ایم کیو ایم جو حکومت کی اتحادی ہے علامہ کے اسلام آباد کے دھرنے میں شرکت کا اعلان۔ نہ سمجھ میں آنے والی سیاست ہے، نہ علامہ صاحب اور نہ ہی ایم کیو ایم غلط ہیں اور نہ ہی انکے مطالبے۔ علامہ صاحب کا یہ مطالبہ کہ اچھے کردار کے لوگوں کو حکومت میں آنا چاہیے اور نہ ہی ایم کیو ایم کا یہ مطالبہ کہ جاگیرداری نظام کو ختم ہونا چاہیے غلط ہیں مگر ان مطالبات کا وقت غلط ہے۔ موجودہ حکمراں ٹولہ تو چاہتا ہی یہ ہے کہ وہ پھر مظلوم بن جائے، اس لیے اپنے ایک وزیراعظم کو عدالت کے زریعےسیاسی شہید کرواچکے ہیں۔ اب اگر 14 جنوری کو یا اسکے بعدیہ لولی لنگڑی جمہوریت ختم ہوی تو لٹیروں کا یہ ٹولہ ایک مرتبہ پھر مظلوم بن جایگا اور اس ملک کے مقدرمیں پھر اندھیرا ہوگا۔ کیا قائد اعظم نے 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان کے منظور ہونے کے بعد یہ کہا کہ عوام نے منظوری دے دی ہے لہذا آج سے پاکستان بن گیا۔ انہوں نے جمہوری انداز سے یہ ملک حاصل کیاہے، لہذا ہمارا انداز فکر جمہوری ہونا چاہیے۔ آج کی مت سوچیں کیونکہ سیاست ایک سائنس ہے اور سائنس کا اصول ہے تھیوری پھر پیرٹیکل پھر تھیو ری اور یہ عمل بار بار کرنا پٹرتا ہے پھر کہیں جاکر نتیجہ حاصل ہوتا ہے، یہ ہی آپکو مستحکم جمہوریت کے لیے کرنا پڑے گا۔ ہوسکتا ہے اگلے الیکشن کے بعد بھی مطلوبہ نتایج نہ ملیں لیکن باربار اس عمل کو دھرانے کے بعد انشااللہ پاکستان میں جاگیردارنہ نظام بلکہ دوسرئے مسائل بھی ختم ہوجاینگے۔ اس لیے علامہ طاہرالقادری اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو سوچنا چاہیئے کہ وہ کس طرح جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھ سکتے ہیں۔ انکے آج کے عمل کو آنے والا مورخ ضرور لکھے گا۔اس لیے سوچ لیں کہ آپ اسلام آباد میں ایک اور تحریر اسکوائربنانا چاہتے ہیں یا تاریخ میں اپنے بارے میں اچھی تحریر چاہتے ہیں۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 444941 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More