زرداری کا انداز سیاست

سیاست میں جوکوئی بر وقت ، درست اوردوررس فیصلے نہیں کرتااوراپنے عہدپرقائم نہیں رہتاوہ سیاسی طورماراجاتا ہے۔سیاست اورحکومت میں آنیوالے مختلف مرحلے کامیابی سے طے کرنے کیلئے باوفااورباصفا ساتھیوں کاانتخاب اورانہیں سرکاری یاسیاسی منصب پردرست اندازمیں استعمال کرنا بھی بہت اہمیت کاحامل ہوتا ہے مگربدقسمتی سے ہمارے ہاں قومی اداروں اورسیاسی پارٹیوں میں'' ''Right man for right job کااصول نہیں اپنا یاجاتا ۔حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں،سرورکونین حضرت محمد نے فرمایا''جب امانت ضائع کی جائے توقیامت کاانتظار کرو،پوچھاگیا ،یارسول اللہ امانت کس طرح ضائع کی جائے گی ،فرمایاجب کام نااہل لوگوں کے سپردکردیے جائیں توقیامت کاانتظار کرو''۔اہم فیصلے کرتے وقت دانااوردوراندیش مشیروں سے مشاورت اورعوام سے کئے وعدے وفا کرنے جبکہ اتحادیوں پرضرورت کے مطابق اعتمادکرنے اوران کی توقعات پرپورااترنے سے سیاسی اوراقتدارکی عمر طویل ہوجاتی ہے ۔اگرسیاست کو''گواینڈ ٹیک'' قراردیا جائے توبیجا نہیں ہوگا۔''ونڈکھاﺅتے کھنڈکھاﺅ ''کامحاورہ ہماری قومی سیاست اورہمارے سیاستدانوں پربڑاصادق آتا ہے۔سیاست میں وہی سکندر ہے جوکامیابی سے اپنے اہداف حاصل کرتا اوردشمنوں کوزندہ دیوار میں گاڑتاجائے۔ سیاست میں ضرورت،مفادات اورمصلحت کے تحت گرگٹ کی طرح بار بار رنگ بھی بدلنا پڑتا ہے۔سیاستدان ایک دوسرے کواستعمال کرتے ہیں اورکچھ دوسروں کوبیوقوف بناتے بناتے خوداستعمال ہوجاتے ہیں۔ہمارے ملک میںنظریہ ضرورت کے تحت اتحادبنائے اورتوڑے جاتے ہیں ،اگرکوئی اتحادی روٹھ یاکسی بات پراڑ جائے تواسے منایا بھی جاتا ہے اوراس کی جائز ناجائز ڈیمانڈز بھی مانناپڑتی ہیں۔پیپلزپارٹی اوراس کی اتحادی پارٹیوں کے درمیان بھی روٹھنااورمنانا چلتا رہتا ہے ۔حال ہی میں متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے کچھ اہداف کیلئے طاہرالقادری کاکندھا استعمال کرلیا جبکہ طاہرالقادری انہیں اپنے شریک سفرسمجھ رہے ہیں،متحدہ قومی موومنٹ کو ساتھ بٹھانے سے طاہرالقادری کے کاز کوشدیددھچکا لگااوران کی تحریک شروع ہونے سے پہلے ختم ہوگئی ۔عمران خان کیلئے بہتر ہے وہ طاہرالقادری سے دوررہیں۔

مینارپاکستان والے تاریخی اجتماع کے بعدطاہرالقادری کاگراف جس تیزی سے اوپرگیاتھا اس سے زیادہ سپیڈ کے ساتھ زمین پرآگیا تاہم طاہرالقادری سے زیادہ ان کے مخالفین انہیں سیاسی طورپرقدآوربنانے کے درپے ہیں ورنہ مسلسل ان کے نام کی گردان نہ کرتے جبکہ صدرزرداری نے ایک باربھی طاہرالقادری کانام نہیں لیا۔طاہرالقادری کے فن تقریر وتحریر سے کوئی انکار نہیںکرسکتا مگرضرورت سے زیادہ بولنا بھی انسان کے باطن کوبے نقاب کردیتا ہے۔عمران خان کے مینارپاکستان والے کامیاب اجتماع پربھی خفیہ ایجنسیوں کے کردارپرانگلی اٹھائی گئی تھی اوراب طاہرالقادری کی دھماکہ خیز واپسی کوبھی ایجنسیوں کی کارستانی قراردیا جارہا ہے کیونکہ بدقسمتی سے ڈسپلن کی پابندایجنسیوں کواس قسم کی چارج شیٹ کی تردید یاوضاحت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اوریوں افواہوں میں شدت آجاتی ہے۔اگرپاکستان کی کرکٹ ٹیم جیت جائے توہم جشن مناتے ہیں لیکن اگروہ ہارجائے توکہا جاتا ہے میچ فکس تھا۔کیا کوئی خفیہ ایجنسی والے شہروں اوردیہاتوں میں ڈورٹوڈورجاکرعوام کوکسی مخصوص جماعت کے اجتماع میں جانے یانہ جانے پرزور دیتے ہیں۔کیا خفیہ ایجنسیوں والے سیاسی پارٹیوں کے بینرزاورپوسٹرزدیواروں یاگاڑیوں پر لگاتے ہیں ۔ہمارے ہاںجس طرح ہرناکامی کاملبہ امریکہ پرڈال دیا جاتا ہے اس طرح سیاسی پارٹیوں کی طرف سے ایک دوسرے کیخلاف شرانگیز پروپیگنڈاکرنے کیلئے خفیہ ایجنسیوں کوخوامخواہ بیچ میںگھسیٹ لیا جاتا ہے،تاہم سیاستدانوں کی مرضی ومنشاءاورملی بھگت کے بغیر کوئی خفیہ ادارہ قومی سیاست میں مداخلت نہیں کرسکتا،انتخابات ملتوی ہونے سے ایجنسیوں کوکیا ملے گا۔سیاستدان ایک دوسرے کونیچادکھانے اورگرانے کیلئے قومی اداروں کوسیاست میںملوث نہ کیاکریں اورایک دوسرے کی کردارکشی کرتے وقت اخلاقیات کادامن ہاتھ سے ہرگز نہ چھوڑیں۔پاکستان کی بقاءاورسا لمیت کیلئے ہرقومی ادارے کاکرداراہمیت کاحامل ہے ،ان قومی اداروں کوکمزورکرکے ہم اپناملک مضبوط نہیں بناسکتے ۔اگرموجودہ پارلیمانی نظام آئینی مدت پوری کرنے کے قریب تر ہے تواس کاکریڈٹ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ عدلیہ اورفوج سمیت ریاست کے دوسرے سٹیک ہولڈرز کوبھی دیا جائے۔

بلاشبہ صدرزرداری کو اپنے سیاسی کارڈزمہارت کے ساتھ کھیلناآتا ہے۔وہ اپنے دشمن کے ساتھ جنگ سے پہلے اس کیلئے فرارہونے کاراستہ ضرور چھوڑتے ہیں اوربیشتر اوقات میں ان کادشمن میدان چھوڑکربھاگ جاتا ہے۔وہ اپنے دشمن کی طرف سے سیاسی حملے کی صورت میں زیادہ تربراہ راست جواب نہیں دیتے مگرجس وقت چوٹ لگاتے ہیں توان کادشمن زخموں سے چورچوراوررنجورہوجاتا ہے ۔صدرزرداری ایک اچھے مرد م شناس ہیں اس کے ساتھ ساتھ انہیں کانوں کاکچایاخوشامدپسندبھی نہیں کہاجاسکتا،ان کی قوت برداشت اورقوت سماعت ان کابہت بڑاہتھیار ہے۔صدرزرداری نے اپنے برے وقت کے بیشتر ساتھیوں کوکسی نہ کسی صورت ضرورنوازاہے،بلوچ زندگی بھردوست اوردشمن کوفراموش نہیں کرتا۔مسلم لیگ (ن) کی علیحدگی کے بعد صدرآصف زرداری نے جس طرح مسلم لیگ (قائدعظم ؒ)کو اچانک اپنے ساتھ بٹھالیا اورسرپرائز دیااس پرہمارے سیاسی پنڈت بھی حیران ہیں ۔صدرزرادری کئی بارے طاقتوراسٹیبلشمنٹ کے گھیرے میں آئے مگروہ ہربار مچھلی کی طرح پھسل گئے ۔کئی بار حالات صدرزرداری کوبندگلی میں لے آئے مگرانہوں نے ہرباروہاں سے باہرنکلنے کا راستہ بنالیا ۔صدرزرداری اپنے ٹیم ممبرز کے معاملے میں کافی خوش نصیب رہے مگر کچھ ساتھیوں کوانہیں پیچھے بھی چھوڑناپڑامگران میں سے کوئی بھی ان کیلئے ناگزیرنہیں بن پایا تاہم ان کی ٹیم میں آج بھی بابراعوا ن کی کمی محسوس کی جاتی ہے،بابراعوان نے صدرزرداری کی راہ سے کئی کانٹے ہٹائے ہیں۔وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے قابل وزیراطلاعات اورحکمرا ن جماعت پیپلزپارٹی کے خوش اخلاق اورخوش گفتار مرکزی سیکرٹری اطلاعات قمرزمان کائرہ کاشمار صدرزرداری کے انتہائی معتمد، باوفااورباصفارفقاءمیں ہوتا ہے۔میں ایک بار پھردہراتا ہوں اگراگلی باربھی وفاق میں پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی تواس باروزیراعظم کیلئے صدرزرداری کاانتخاب قمرزمان کائرہ ہوں گے اوراس بارچودھری برادران کی ویٹوپاوربھی ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔پیپلزپارٹی اورصدرزرداری کے ساتھ قمرزمان کائرہ کاتعلق سودوزیاں سے بے نیاز ہے جبکہ وہ وفااوراستقامت کے ہرامتحان میں کامیاب رہے ہیں ۔قمرزمان کائرہ کاشمارپاکستان کے چند منجھے اورسلجھے ہوئے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جوشدیدسے شدیدترحملے پربھی جواباً صبروتحمل، تہذیب اورتمیز کامظاہرہ کرتے ہیں۔قمرزمان کائرہ نے کارکردگی سے ثابت کیا ہے کہ صدرزرداری کی ٹیم اور پیپلزپارٹی میں کوئی ان کامتبادل نہیں ہے ۔پنجاب کے حوالے سے پیپلزپارٹی میں قیادت کافقدان اب بحران بن گیا ہے ،صدرآصف زرداری کو باامرمجبوری میاں منظوروٹوکوپیپلزپارٹی پنجاب کاصدرنامزدکرناپڑاکیونکہ رانا آفتاب احمدخاں اور امتیازصفدر وڑائچ پیپلزپارٹی پنجاب کے صدورکی حیثیت سے پارٹی قیادت اورکارکنوں کے اعتماد پرپورااترنے اور تسلی بخش سیاسی وتنظیمی کارکردگی کامظاہرہ کرنے میں بری طرح ناکام رہے لیکن میں حیران ہوں ان کے پاس پنجاب میں چودھری غلام عبا س کی صورت میں ایک سنجیدہ اورزیرک سیاستدان موجود ہے ا ن سے کیوں کام نہیں لیا جارہا۔چودھری غلام عباس نے جس طرح زمانہ طالب علمی میں پی ایس ایف کامنظم اورمتحرک کیا تھا وہ ان کے بعدکوئی نہیں کرپایا۔ان کے پاس طلبہ سیاست کابھی تجربہ ہے اوروہ پیپلزپارٹی پنجاب کے قائم مقام صدراور صوبائی جنرل سیکرٹری بھی رہے ہیں اور آج بھی پارٹی قیادت کے ساتھ اعتماد کارشتہ ان کاقیمتی اثاثہ ہے۔بلاشبہ پیپلزپارٹی نے چودھری غلام عباس کوشناخت دی مگراب وہ پیپلزپارٹی کی شناخت ہیں ۔سابقہ گورنر پنجاب سردارلطیف خان کھوسہ کے دورمیں بھی پیپلزپارٹی پنجا ب سیاسی طورپر آئی سی یوسے باہرنہیں آسکی جس پرانہیں ہٹادیا گیا تاہم نئے گورنرپنجاب مخدوم احمدمحمود پیپلزپارٹی کو کس حدتک سہارا دیتے ہیں یہ آئندہ چندروزمیں واضح ہوجائے گا۔میاں منظوروٹوکوپیپلزپارٹی پنجاب کے صوبائی صدرکی حیثیت سے جیالے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔تنویراشرف کائرہ کی صوبائی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے نامزدگی کے بعدان کاامتحان شروع ہوگیا ہے انہیں میاں منظوروٹوکے ہوتے ہوئے اپنا منفرد کردار ادا کرنا ہوگاورنہ ان پربھی ناکامی کی مہر لگ جائے گی۔قاسم ضیاءنے اپنے آپ کوہاکی فیڈریشن جبکہ راجہ ریاض نے خودکوپنجاب اسمبلی تک محدودکیاہواہے۔ نویدچودھری مسلسل ٹی وی ٹاک شوز میں توشریک ہوتے ہیں مگرانہوں نے ہارنے کے باوجود کبھی اپنے حلقہ انتخا ب کارخ نہیں کیاتاہم اشرف بھٹی حلقہ میں نوید چودھری اورپیپلزپارٹی کی نمائندگی بھرپوراندازسے کررہے ہیں۔اسلم گل کو ضیائی آمریت کے سیاہ دورمیں کوڑے مارے گئے اورناحق قیدکیا گیا،ان کی پیپلزپارٹی اوربھٹوخاندان کے ساتھ کمٹمنٹ سے کوئی انکار نہیں کرسکتا وہ اپنے ساتھیوں کے تعصب کانشانہ بنے اورسینیٹر بنتے بنتے رہ گئے،ان سے لاہورمیں پارٹی کوآرگنائزکرنے کاکام لیا جاسکتا ہے۔ اس بار پنجاب کے جیالے پارٹی قیادت اور حکومت سے خوش ہیں اورنہ ان میں وہ روایتی جوش وجذبہ ہے جوحالیہ ضمنی ا لیکشن میں بھی نوٹ کیا گیا،پیپلزپارٹی کے سرگرم جیالے اورکئی ایک ٹریڈرزیونینز کے عہدیدارچودھری عظمت علی جوپچھلی چاردہائیوں سے بھٹوازم کاپرچم اٹھائے ہوئے ہیں ان کے بیٹے کی ملازمت بی آئی ایس پی کی سربراہ فرزانہ راجہ نے چھین لی ہے اس شب خون کے بعدمیراندازہ تھا کہ وہ اس بار بینظیر بھٹو کی برسی میں شرکت کیلئے لاڑکانہ کارخ نہیں کریں گے مگروہ اپنے ساتھیوں سمیت وہاںچلے گئے ۔فرزانہ راجہ نے چودھری عظمت علی کے بیٹے کوبیروزگارتوکردیا مگران کاپیپلزپارٹی کے ساتھ چادہائیوں سے قائم تعلق توڑنے میں ناکام رہیں۔یہ سچ ہے پیپلزپارٹی کوکبھی کارکردگی کی بنیاد پرووٹ نہیں ملے ،عوام سے ووٹ مانگنے کیلئے پیپلزپارٹی کے پاس ذوالفقار بھٹواوربینظیر بھٹو کانام ہی کافی ہے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126832 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.