پاکستان ٹوٹنے کے اسباب

پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھااور اسلام کے نام پر ہی قائم رہ سکتا تھا اسلام پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا۔ موجودہ پاکستان بھی اسلام ہی کے نام سے قائم رہ سکتا ہے اور ترقی کی منزلین طے کر سکتا ہے جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو ہمارے سامنے مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست کا تصور ہوتا ہے کسی مذہبی تھیوکریسی کا نہیں ہوتا۔ قائد اعظمؒ کی مقناطیسی شخصیت کی وجہ سے مخالفین کو شکست دے کروجود میں آیا تھا اب اسی مقناطیسی شخصیت کی متعین کر دہ راہ پر عمل کر کے دنیا میں اپنا مقام بنا سکتا ہے وہ راہ کیا سب کو معلوم ہے پھر بھی ہم نیچے پیش کردیتے ہیں۔ بین الاقومی ایجنڈے پر اور اندرونی؍ بیرونی سازشی عناصر کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ہمارے ملک کے سیکولر عناصر، کچھ مفاد پرست ، نہاد دانشور،متحدہ ہندوستان کے سابقہ کل پرزے جنہیں قائد اعظم ؒ نے شکست دی تھی،نادان روشن خیال،اسلامی جائز پابندیوں سے الرجک ، دنیا میں ایک شیطانی مملکت کے قیام میں معاون عناصر اور آخر میں امن کی آشا کو لے کوچلنے والے میڈیا مالکان اور ان کی فوج ظفر موج پاکستان کی جڑیں کھوکھلی اور قائد ؒ کی متعین کردہ راہ کو گم کر رہے ہیں ۔ اسلام سے محبت ، اسلام کی نشاۃ ثانیا کی تحریک میں جان ڈالنے، اسے پاکستان کی شکل میں قائم کرنے والے ہمارے عظیم رہنما بانی پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ نے قیامِ پاکستان سے پہلے۲۲ اکتوبر ۱۹۳۹؁ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا’’ مسلمانو! میں نے بہت کچھ دیکھا ہے۔ دولت،شہرت اور آرام و راحت کے بہت لطف اٹھائے اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سر بلند دیکھوں ۔میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کے میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا حق ادا کر دیا میں آپ سے اس کی داد اور صلہ کا طلب گار نہیں ہوں میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا ایمان اور میرا اپنا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدا فعت اسلام کا حق ادا کر دیا اور میرا خدا یہ کہے کہ جناح بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے مسلمان جیئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کے علم کو بلند رکھتے ہوئے مرے‘‘ کیا ہم نے قائد ؒ کی اس متعین کردہ راہ اور ا ن الفاظ پر غور فکر کیا؟ قائد اعظم کے یہ الفاظ ان کی اسلام سے وابستگی اور پختگی کا نمونہ ہیں یہ الفاظ ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہیں جو قائد اعظم ؒ کو سیکولر ثابت کرنے میں ایٹری چوٹی کا زور لگاتے رہتے ہیں قائد اعظم ؒنے تو اپنی پوری زندگی قیام پاکستان کے لیے کھپا دی اور اﷲ تعالیٰ نے ہمیں پاکستان مثل مدینہ عطا کر دیا لیکن کیا ہم نے قائد اعظم ؒ کے ان الفاظ کی لاج رکھی ہے ؟ آج تک ملک میں اسلام کا بابرکت نظام رائج کیا ہے؟قائد اعظم کے یہ الفاظ ان کی اسلام سے محبت اور ان کے دینی عقائد اور فکرو نظر کو واضح کرتے ہیں قائد اعظم ؒنے پاکستان کے اسلامی نظریہ حیات کو متعین کردیاتھا ۔ ۱۹۷۳؁ء کا اسلامی آئین بڑی جدوجہد کے بعد اﷲ نے ذوالفقار علی بھٹو کے دورحکومت میں ہمیں دیا مگر کیا اس اسلامی آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل ہو رہا ہے؟ کیا اس ملک میں سود کا نظام نہیں چل رہا جو قرآن کی رُو ح سے اﷲ اور اس کے رسول ؐ سے جنگ ہے ؟ کیا یہاں عدل کا نظام قائم ہو گیا ہے جو اسلام کی منشاہے اور جس کے بغیر انصاف ممکن نہیں ؟ کیا انسان کی جان کی قدر ہے کہ قرآن کی رُوح سے ایک جان کا نا حق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ؟کیا آئے روز اخبارات میں یہ انکشافات نہیں ہو رہے کہ فلاں قاتل نے ۱۲۰ قتل کیے ہیں فلاں قاتل نے اتنے بے قصور لوگوں کو قتل کیا ہے یہ ٹارگٹ کلنگ کیا ہے؟ یہ اس حدیث کے مطابق نہیں ہے کہ رسول محترم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ مرنے والے کا پتہ نہیں ہو گا کہ اسے کیوں مارا گیاہے اور مارنے والے کو پتہ نہیں ہو گا کہ اس کو کیوں مار رہا ہوں؟۔کیایہ حکومت کی مفاہمت کی پالیسی کے شاخسانے نہیں ہیں جو قانون کی حکمرانی کے زرین اصولوں پر عمل نہیں کر رہی ،قاتلوں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزانہیں دلا رہی تھی بلکہ انہیں پیرل پر رہا کر دیتی ہے اور وہ پھر ناحق لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔کیا سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ان سزا یافتہ قاتلوں کو دوبارہ گرفتار کیا گیاہے؟ اسلام کی بنیاد پر پاکستان حاصل کرنے والے محترم قائدؒ نے۱۴ فروری ۱۹۴۸؁ء کو سبی میں دربار سے خطاب میں فرمایا تھا ’’ ہماری نجات کا واحد ذریعہ ان زرین اصولوں پر مشتمل ضابطہ حیات پر عمل کرنا ہے جو قوانین ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ؐ نے قائم کر دیے ہیں‘‘کیا ہم نے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا آخری زندہ جاوید خطبہ حجۃ الوداع، جو انسانی حقوق کا بنیادی چارٹر ہے کے مطابق اپنے ملک میں اقدامات کیے ہیں یقیناً نہیں کئے؟پاکستان بننے کے بعد۲۱ فروری ۱۹۴۸؁ء ملیر کینٹ میں قائد اعظم ؒ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’ اب آپ کو اپنی سر زمین میں اسلامی جمہوریت معاشرتی انصاف اور اسلامی مساوات کے اصولوں کے احیاء اور فروغ کی پاسبانی کرنا ہے اخوت،مساوات اور اتحاد ہمارے دین تمدن اور ثقافت کے بنیادی عنصر ہیں‘‘کیا ہم نے قائد ؒ کی متعین کردہ راہ پر عمل کرتے پاکستان سمت استوار کی ہے؟ تیرہ سو سال کی باتوں کو پرانے زمانے کی باتیں کہنے والوں نے قائد ؒ کا یہ بیان نہیں پڑھا جو انہوں نے۲۶مارچ ۱۹۴۸؁ء چٹاگانگ میں فرمایا تھا’’ اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا (مقصدحیات) اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل جمہوری نوعیت کا ہو گا ان اصولوں کا اطلاق ہماری زندگی پر اسی طرح ہو گا جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوا تھا‘‘-

قارئین! قا ئد اعظم ؒکی اتنی صاف اسلام کے راستے کی طرف رہنمائی کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں امن کی آشا اور دوستی کی ہندوستانی؍ امریکی پُرانے ڈاریکٹرین سے باہر آ جانا چاہیے یہ باقی ماندہ پاکستان کے حصے بخرے کرنے اسے مزید توڑنے کی بین الاقوامی سازش ہے امریکہ کے جار ی کردہ نقشوں کو دیکھا جا سکتا ہے جس میں پاکستان کی تقسیم کو دکھایا گیا ہے۔کراچی؍بلوچستان میں مشرقی پاکستان جیسی کاروائیوں سے ہمای آنکھیں کھل جانی چاہی ہیں ساتھ ہی ساتھ امریکہ ہندوستان کو خطے کا تھانے دار بنا نا چاہتا ہے خود مختیار ایٹمی اسلامی پاکستان کو اس کی تفیلی ریاست بنانا چاہتا ہے۔ ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے اسی امریکہ نے اپنے اتحادی؍دوست پاکستان کی بھارت کے حملے کے وقت ہماری کوئی بھی مدد نہیں کی تھی اور کہتا رہا میرا بحری بیڑا مدد کو پہنچ رہا ہے مگر وہ کبھی بھی نہ پہنچا بلکہ اس وقت کے یہودی امریکی وزیر خارجہ نے اپنی کتا ب میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ پاکستان توڑنے میں امریکہ کا بھی ہاتھ تھا اس کے باوجود ہم نے اپنی ترجیحات کا تعین کیوں نہیں کر رہے ؟ اس کا جواب پاکستان کے حکمرانوں اورقوم نے اﷲ کو دینا ہے قائد اعظم ؒ تو یقیناً اﷲ سے اجر پا لیں گے کہ انہوں نے سچ کر دکھایا، کیا ہم اﷲ کے سامنے اس جواب دہی کے لیے تیار ہیں؟ نظریہ اسلام اور نظریہ پاکستان پر ایمان رکھنے والی سیاسی اور دینی،ا یماندار،کرپشن سے پاک، نڈر لوگ پاکستان کی لیڈر شپ کے اندر اٹھ کھڑے ہوں اور پاکستان کو ترقی کے راستے پر گامزن کریں ورنہ کرپشن،رشوت، لوٹ کھسوٹ، مہنگائی ٹارگٹ کلنگ، ٹھپہ مافیا، بھتہ مافیہ، ناانصافی، امن وامان ،بے روزگاری، لو شیڈنگ،خود کش حملے، بیرونی جار حیت ،سرحدوں پرحملے،ڈرون حملے،عدل و انصاف کا نہ ہونا ،اسٹریٹ کرائم،اغوا برائے تاوان سے نجات ممکن نہیں ۔ہمیں اسلامی دنیاکی طرف سے چلنے والی ٹھنڈی ہوا(عرب بہار) کے جھونکوں کو محسوس کرنا چاہیے ہمیں اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لینی چاہیے ورنہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔

قارئین! ہمیں اپنے پاکستان توٹنے کے اسباب پر غور کرنا چاہیے عوام کو ان کے جائز حقوق دینے چاہیں اﷲ نے پاکستان کو آزاد عدلیہ دی ہے جو کام حکومت کے کرنے کے کام ہیں وہ عدلیہ کر رہی اور حکمران شرم کے بجائے عدلیہ پر تنقید کرتے ہیں اﷲ پاکستانی قوم پر مہربان لگ رہا ہے آزاد الیکشن کمیشن قائم ہو چکا ہے فوج کی نگرانی میں لوگوں کو اپنی رائے کا حق ملا تو پاکستان قائم و دائم رہے گا انشاء اﷲ
Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1118 Articles with 953576 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More