پارلیمنٹ میں جمہوریت کا ننگا ناچ

جمہوری نظام بھی اپنے آپ میں ایک عجیب نظام ہے ، جب اس کی خوبیوں کو سامنے رکھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے بہتر کوئی نظام ہوہی نہیں سکتا ہے ، کیونکہ اس نظام میں ایک عام آدمی تک کی بھی حیثیت ہوتی ہے ۔ بلحاظ ذات ، مذہب اور دولت کوئی تفریق نہیں نظر آتی ۔ ایک حیثیت سے موثر نظام ِحکومت کا بھی احسا س ہوتا ہے ، چونکہ جمہوریت کی بنیاد عوام ہے ، اس لئے وضع پالیسی میں ان کے جذبات و خیالات کا خاص خیال رکھا جاتاہے ، یہی وجہ ہے کہ اس صورتحال میں عوامی کام زیادہ ہوتے ہیں ، اس کے علاوہ سیاسی بیداری کے مدنظر بھی جمہوریت کے افادی پہلو کو اجاگر کیا جاسکتا ہے ، جمہوری نظام کا سب سے بڑا تہوار ہوتا ہے الیکشن ، چونکہ آزادی ہوتی ہے ، اس لئے چند شرائط کے ساتھ کوئی بھی میدان میں آکر انتخاب لڑسکتا ہے ،لہذا اس طرح سیاسی شعور بھی بیدار ہوتاہے ، لیکن جب جمہوری نظام کی خرابیوں یا اس کے منفی پہلو کو سامنے رکھتے ہیں تو بڑی تکلیف ہوتی ہے ، خصوصاً ان دنوں دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں اس کے منفی پہلو وں کو سامنے رکھ کر ہی سیا ستداں سیا سی گاڑیاں آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

جمہوری نظام کے منفی پہلو کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے ، اس کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ نااہل بھی منتخب ہوجاتے ہیں ،چونکہ جمہوریت کی میزان میں وزن کی نہیں، تعدادکی اہمیت ہوتی ہے ۔ قابلیت وصلاحیت نہیں دیکھی جاتی ، بلکہ سر گنے جاتے ہیں ۔ تعجب تو یہ ہے کہ ایک کلرک کی تقرری میں قابلیت و صلاحیت دیکھی جاتی ہے ، مگر ایک سیاسی رہنما کے انتخاب میں اس کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا ہے ، بسااوقات تو کوئی بالکل ہی سیاست سے نا آشنا کامیاب ہوجا تا ہے ۔ پھر اس کے علاوہ اکثریت کا نعرہ بھی کھوکھلا نظرآتاہے ، کیوں کہ ایک حلقہ سے کوئی 20امید وار قسمت آزمائی کرتے ہیں ، ظاہر ہے سب کو کچھ نہ کچھ ووٹ ملتے ہیں ، مگر جو کامیاب ہوتا ہے ، اس کے ووٹ ان تمام امیدواروں کے مقابلہ کم ہوتے ہیں ، مگریہی کامیاب قراردیا جاتا ہے اور سیاست کا اہل سمجھ لیا جاتا ہے ۔حکمران جماعت اوراپوزیشن پارٹیاں ،الیکشن کے زمانہ میں سرمایہ عوام کی فلاح سے کہیں زیادہ اشتہارات اوردیگر کاموں میں خرچ کرتی ہیں ، اس طرح یہ سرمایہ کا ضیاع بھی ہے اور عوام کی حق تلفی بھی۔مزید جمہوریت کا تہوار صرف امیروں کے لئے ہی ہے ، کیونکہ آج صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ کوئی خرچ کئے بلکہ لٹائے بغیر کا میاب ہو ہی نہیں پاتا ہے ۔ گروہ بندی نہ ہوتو جمہوریت کا تصور ہی نہیں جاسکتا ہے ۔ جمہوری نظا م کی خرابیوں میں دوخرابیاں یا خامیاں بہت زیادہ نمایاں ہیں ، وہ ہیں عدام استحکام اور سست روی ۔ اس دونوں کی مثال میں ہندوستانی پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے ۔

جمہوری نظام کی خوبیوں اور خامیوں کے پیش نظر آج کے جمہوری نظام کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سیاستدانوں نے اس کے افادی پہلو وں کو یکسر ہی نظر اندازکردیا ہے ، صرف منفی پہلووں کے مدنظر ہی اپنی سیاسی دکان چمکانے میں مصروف ہیں ، یہی وجہ ہے کہ خودغرضی ، مفاد پرستی ، گروہ بندی ، فرقہ بندی اور حق تلفی ہر جگہ نمایا ں نظرآتی ہے ۔

ہندوستانی جمہوریت بھی ایک قابل قدر جمہوریت ہے ، مگر یہاں کی موجودہ صورتحال پر ہر اعتبار سے ندامت ہوتی ہے ، کیونکہ آئے دن جمہوریت کے مندر میں ایسے ایسے واقعات رونماہورہے ہیں ، جو ملک اور جمہوری نظام کے لئے باعث شرم ہے ۔پروموشن بل پیش کرنے سے قبل یو پی اے سربراہ سونیا گاندھی ، مرکزی وزیرنرائن سامی اور اور ایس پی ممبر پارلیمنٹ یشویر سنگھ کے درمیان جو ہوا وہ بھی پارلیمنٹ اورجمہوریت کے لئے تضحیک آمیز ہے ، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ مرکزی وزیر نرائن سامی کے ہاتھ سے یشویر سنگھ نے پروموشن بل کی کاپی چھین لی ، اس کے بعد چھینا جھپٹی کا سلسلہ شرمناک انداز میںشروع ہوا ، ایس سی، ایس ٹی کے لئے ریزرویشن میں پروموشن بل پر جو ہنگامہ جاری ہے ، اس پر کئی ایک انداز سے گفتگو کی جاسکتی ہے ۔ سب سے پہلے ممبران کو یہ سوچناچاہئے تھا کہ پارلیمنٹ صرف ہنگامہ آرائی کی جگہ نہیں ہے ، پارلیمنٹ تو اس لئے ہے کہ ملک کے عوام کے لئے پالیساں طے کی جائیں ، ان کی فلاح وبہبود کے لئے لائحہ عمل تیار کئے جائیں ، ان کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے قانون بنایا جائے ، مگر ایسا محسو س ہوتا ہے کہ ممبران نے ان تمام باتوں سے یکسر ہی نظریں چھرالی ہیں ، انہوں نے ہنگامہ آرائی کرنا ہی فرض منصبی تصور کرلیا ہے ، انہیں عوام کا ذرابھی خیال نہیں ہے ، انہوں نے صرف اور صرف برسراقتدار جماعت کو پریشان کرنا اور فضول بحث میں وقت ضائع کرنا ضروری سمجھ لیا ہے ،برسراقتدار اور اپوزیشن پارٹیوں کو کم از کم پارلیمنٹ کے وقار کو داغ دارکرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے تھی ۔ جمہوریت کو شرمسار کرنے والا ایسا واقعہ کبھی کبھار نہیں ،بلکہ ایک معمول کے طور اکثر رونما ہورہا ہے ۔ موجودہ سرمائی سیشن میں13دسمبر کو جو واقعہ پیش آیا وہ بھی کوئی معمولی نہیں ہے ، وہ بھی ایک قابل احترام جگہ کے لئے معیوب کن ہے ، اس دن بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے نائب صدرجمہوریہ حامد انصاری پر تبصروں کے تیر چلائے ، ان کے لاکھ سمجھانے کامایاوتی پر کچھ اثر نہیں ہوا ، اسی طرح فروری 2012میںکرناٹک کے ممبراسمبلی موبائل پرفحش فلم دیکھتے پائے گئے ۔

ایسے غیر مہذب اوربے بیہودہ حرکتوں کا آئے دن رونما ہونا ، جمہوریت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے ، ایسے میں محسو س ہوتا ہے کہ کسی کو کسی کاذرا بھی خیا ل نہیں ہے ، مایاوتی نے جس انداز میں حامد انصاری سے گفت وشنید بلکہ تکرارکیا ، وہ ایک چیئر مین کے ساتھ بدسلوکی ہے اور پارلیمنٹ کے لئے ناقابل برداشت معاملہ بھی ۔ مایاوتی کو اعتراض کرنے سے قبل یہ سوچنا چاہئے تھا کہ ہم فالتوبکواس کرکے وقت برباد کررہے ہیں ،و ہ بھی سیشن نہ چلنے میں مخل ہے ۔ یہ بھی اچھی طرح یا د ہے کہ خواتین ریزرویشن بل کے معاملہ پر بھی حامد انصاری کے ہاتھوں سے بل چھین لی گئی تھی ،مگر نہ جانے کیا وجہ رہی ہے کہ ایسی بےہودہ حرکت کر نے والے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کے خلاف توہین پارلیمنٹ اور ہتک عزت کا مقدمہ چلتا۔

ان تمام بیہودہ حرکتوں سے جمہوریت کے منفی پہلو ہی اجاگر ہو تے ہیں،اولا ً بحث میں قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے اور بالکلیہ کچھ ہا تھ نہیں آتا ہے ،پھر ان ہنگامہ آرائیوں میں حکومت کے عدم استحکام کا پہلو بھی واضح نظر آتا ہے ،جیسا کہ ایف ڈی آئی کے مسئلہ پر حکمراں جماعت ووٹنگ کرانے کو تیا ر نہ تھی مگر ہا ئے توبہ کے بعد وقت برباد کرکے آخر وہ تیار ہو گئی ،اس ووٹنگ میں حکومت کے بکھر جانے کا پہلو کھل کر سامنے آیا۔وقت کی بربادی اور غیر مہذب حرکتیں سب سے زیا دہ قابل غور مسئلہ ہے،کیو نکہ اس صورت حال میں کسی بھی ناحیہ سے کو ئی بھی فائدہ برآمد نہیں ہوتا ہے ۔ایسے میں اپوزیشن اور برسر اقتدار پارٹیوں کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ ملکی مفاد کے پیش نظر ہی کو ئی قدم اٹھائےں اور ملکی مفاد کے عینک سے پارلیمانی سیشن کو دیکھیں ،ورنہ صرف وقت ضائع ہو گا ،غیر مہذب واقعات رونما ہوں گے ،جمہوریت داغدار ہو گی ،پارلیمنٹ کا وقار مجروح ہوگا ،جمہوریت نافع ہونے کی بجائے مضر ہوگی ،قانون اور پالیسیاں بنانے کی جگہ میدان جنگ میں تبدیل ہوتی رہے گی ۔

ان تمام ہنگامہ آرائی اور بحث بازی پر وزیر خزانہ پی چدمبرم نے تشو یش ظاہر کی ہے،انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں آج کل جو ہو رہاہے وہ واقعی غیر مہذب و غیر مفید ہے ۔کھینچا تانی ،ٹال مٹول اور بے جا لین دین سے حکومت متاثر ہو رہی ہے، چنانچہ یہ ضروری ہے کہ معاملات جلد فیصل ہوں تاکہ قیمتی اوقات ضائع ہونے سے بچ جائےں ۔واقعی ایسے موقع پر چدمبرم جیسے سیاسی داو پیچ سے آگاہ اور کانگریس کے کلیدی رہنما کا اس معاملہ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا اور حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرانا انتہائی اہم ہے ۔بس خدا کرے ہمارے رہنما شرافت کا لبادہ اوڑھ لے ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92443 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More