کراچی وال

دل وہی رہتے ہیں جذبات بدل جاتے ہیں
وقت کے ساتھ خیالات بدل جاتے ہیں
جو ہر اک بات پہ دیتے تھے حوالہ میرا
اب مرے ذکر پہ وہ بات بدل جاتے ہیں
لب خاموش تھے لیکن نظریں شکوہ کر رہی تھیں ، نظروں کی تاب کا مکمل ادراک تھا ۔گلے ملتے ہوئے گِلے بھی ہوئے ، شکایتیں بھی ہوئیں اور ناراضگی کا اظہار بھی ہوا کہ ایسی کیا آفت پڑی کہ اِن سر سبز وادی کو چھوڑ کو گرد آلود ماحول میں جا بسے ، شہد جیسی نہروں کو چھوڑ کر گدلے پانی کو آب حیات سمجھ بیٹھے ،یہ درخت ، یہ آبشاریں ، یہ خیرہ ساز میدان ، برف کی چادر لپٹے بلند بلا چوٹیاں ،خوشبو سے مہکتے پھولوں ، تازگی کی نوبہاریں ، کیونکر تم پر اس قدر حاوی ہوگئیں کہ میزبان سے مہمان بن گئے ہو ۔جذبات کا ایک ایساپَل تھا کہ روندھی ہوئی ہوئی آواز میں کہنا پڑا کہ مجھے گھٹی ہوئی فضا سے آزادی کی فضا میں سانس لینے دو ۔سوات کے علاقے چارباغ کی فضاﺅں میں شہر کراچی جیسا ہنگم نہیں تھا ، چادرلپٹے ہر شخص "پہ خیر راغلے"کہہ کر سلام کر رہا تھا ،دیرے میں آمد کے ساتھ ہی بیٹھے لوگ اٹھ گئے اورسینے سے لگ کر بڑوں سے ماتھے پر بوسہ لیا اور چھوٹوں کے سر پر ہاتھ پھیرا۔کراچی سے آنے والوں کو عجیب سے نظروں سے دیکھا جاتا ہے ، خاص کر جب آپ کراچی کی فضاﺅں میں در بدر پھرتے ہوئے شکاری پرندوں سے خود کو شکار ہونے سے بچاتے بھی ہیں۔کراچی کا بہت خطرناک تاثر پایا جاتا ہے جیسے وہاں کے شہری بیروت ، عراق یا صومالیہ میں رہ رہے ہوں ۔کراچی کے حالات سے مجھ سے استفسار کیا گیا تو حسب روایت میں نے انھیں تشفی دینے کی کوشش کی کہ کراچی ایسا بھی نہیں ہے کہ جیسا آپ لوگ سمجھ رہے ہیں ۔لیکن میری کسی بھی بات کو تسلیم کرنے کے بجائے انھیں اس بات پر اصرار تھا کہ ہمیں یہاں طالبان سے اتنا ڈر نہیں لگتا جتنا کراچی میں آزادانہ نقل و حرکت سے ڈر لگتا ہے ۔میں سیاسی گفتگو سے ہر درجہ اجتناب برت رہا تھا لیکن ان کا اصرار تھا کہ سچائی کے ساتھ انھیں وہاں کی صورتحال کے ساتھ آگاہ کروں ۔میں نے اِن سے کہا کہ کراچی میں تو آپ بھی رہتے رہے ہیں ، سوات کے حالات خراب تھے تو بھی کراچی میں تھے ، اس کے باوجود ایسا کیوں لگتا ہے کہ کراچی کسی اور خطے کا حصہ ہے ۔انھوں نے تسلیم کیا کہ سوات سے جب کراچی آرہے تھے تو انھیں سندھ میں داخلے پر کراچی والوں نے فائرنگ کرکے نہیں روکا تھا اور نہ ہی سہراب گوٹھ سے گذرتے ہوئے عزیز آباد ، کریم آباد لیاقت آباد پر ان پر فائرنگ ہوئی تھی ۔ ان کا یہ اصرار تھا کہ ان پر تعلیم کے دروازے بند ہیں تو میں مسکرا کر کہنے لگا کہ کراچی میں جتنے بھی پختون آباد ہیں ان کی آبادیوں میں جتنے بھی سرکاری اسکول ہیں وہاں کے مقامی پختون توجہ دینے کے بجائے اپنے بچوں کو گیراجوں ، منی بسوں کی کنڈیکٹریوں ،کمپنیوں میں ملازمت دلانے کی زیادہ تگ ودو کرتے ہیں ۔ کراچی کے جتنے بھی مضافاتی حصوں پر پختون آبادی رہتی ہیں سب سے پہلے تو یہ ہی دیکھ لو کہ وہاں کوئی فلاحی ، رفاعی پلاٹ نہیں ملے گا ۔پٹھان کالونی ، جیسی کراچی کی قدیم آبادی میںایک کمپاﺅنڈ میں تین,چار اسکول ہیں،اسکے علاوہ اسکی منسلک آبادیاں ،بنارس ،فرنٹیئر کالونی،میں کوئی سرکاری جگہ ہی موجود نہیں ہے جہاں کوئی سرکاری ہسپتال ، میدان ، یااسکول ،کالج بنایا جاسکے، میٹرول کا علاقہ کچھ نقشے کے مطابق بنا ہوا ہے تو وہاں پارک بھی ہے ،کھیل کا میدان بھی ہے ، اسکول اور کالج بھی ہے ، ایسی طرح اسلامیہکالونی میں ایک ایسی جگہ بھی لینڈ مافیا نہیں چھوڑی جہاں کوئی ترقیاتی فلاحی کام کیا جاسکے ، واٹر پمپ ، ڈسپنسری ، کھیل کامیدان ،پارک ،ہسپتال ، اسکول کی تمام جگہوں پر ہمارے پختونوں نے ہی قبضہ کرکے اپنے بچوں کو سستی تعلیم سے محروم رکھا ہے ۔ ڈیسلوا ٹاﺅن ، عمر فاروق کالونی ، اجمیر نگری ، لانڈھی ،کنواری کالونی ،اشرف نگر ،پٹیل پاڑہ ،میراں ناکہ ، پیر آباد ، بلدیہ ، اتحاد ٹاﺅن،سلطان آباد کیماڑی میں اسی طرح چھوٹی چھوٹی پختون آبادیوں میں کسی اور کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اپنے ہم زبان کی وجہ سے ہمیں پریشانی کا سامنا ہے۔پرائیوٹ اسکول کے نام پر دو ، دو تین کمروں کے اسکول کھول کر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے والے لوگ بھی باہر سے نہیں آئے۔باقی رہے وہ طالب علم جوکراچی حصول علم کےلئے آنا چاہتے ہیں تو کیا انھیں داخلہ نہیں ملتا ، اگر ایسا ہوتا توکراچی کے ایسے متعدد کالج ہیں جہاں صرف پختون تنظیموں کی اجارہ داری ہے۔میں نے اُن سے کہا کہ سوات میں تو کوئی اسکولوں کو بم سے اڑا دےتا ہے لیکن وہاں ہم نے اپنی آبادیوں میں اسکول تو کیا ، جنازے نکالنے کے لئے کھلی گلیاں نہیں چھوڑیں۔اکثر علاقوں میں جنازہ شاہراہ میں رکھ دیا جاتا ہے اور جسدخاکی کو ہاتھوں سے اٹھا کر گھر سے نکالا جاتا ہے۔پہاڑوں اور بیانوں میں جھونپٹری ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں کہ انھیں گیس ، پانی اور بجلی فراہم کی جائے ۔اسمیں کس کا کتنا قصور ہے کہ سینکڑوں فٹ بلندی پر پتھروں سے ایک گھر بنا کر رہائش اختیار کر لی جاتی اور پھر چند سالوں بعد جب یہ پہاڑ ،بیابان کچے مکانات سے بھر جاتے ہیں تو پہاڑوں پر پانی ، گیس ، بجلی پہنچانے کے تقاضے اس طرح کئے جاتے ہیں جیسے حکومت نے انھیں پلاننگ کرکے ندی نالوں کنارے ، پہاڑوں میں رہنے کی اجازت دی تھی ۔میں نے ان کے اس اعتراض پر سر تسلیم خم کیا کہ وہ کراچی شہر کہ مہنگی زمینوں کو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ، لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ میںغلطی کروں اور قصور وار کسی اور کو ٹھہراوں۔مجھ سے شناختی کارڈ کے حصول میں پریشانی کا تذکرہ کیا تو میں بے ساختہ ہنس پڑا ۔ مجھے حیرانی سے دیکھ کر کہنے لگے کہ مذاق اڑا رہے ہو ۔ تو میں نے کہا کہ کیا کبھی نادرا آفس کا چکر لگایا ہے ؟ ۔ پختون آبادیوں کے قریب جتنے بھی نادرا آفس ہیں وہاں ایجنٹوں کی زیادہ تعداد خود ہمارے پختون نظر آئیں گے۔ہم رہتے سوات ،وزیرستان میں ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ ایڈریس کراچی کا بھی ہو ، ووٹ بھی دو ہوں ، تو بھلا کرائےے کے مکانات کی تصدیق کون کرے گا ۔ کرایہ دار تو آج ہے اور کل کہیں اور ہے، بچوں کے پیدائشی صداقت نامے ہم نہیں بناتے ، اسکولوں میں ہمارے بچے نہیں جاتے ، کرائےے کے مکانات یا ایسی کچی آبادیوں میں ہم رہتے ہیں جو حکومت کے کسی ادارے کے نقشے میں نہیں۔شادی بیاہ کرتے ہیں تو اپنی روایت کے مطابق حق تقویض کرکے اپنی اولادیں سونپ دےتے ہیں کہ ن کی آنے والی نسل کو قانونی دستاویزات کی ضرورت پڑے گی یا نہیں۔جائز کام کےلئے ہم خودتقاضے پورے نہیں کرتے ورنہ بنگالی ،برمی ، افغانیوں کی لاکھوں کی ایسی تعداد ہے جنھوں نے رشوت دیکر تمام دستاویزات حاصل کرلیں ہیں ۔ اب وہ مقامی لگتے ہیں اور وہاں کے مقامی ، غیر مقامی لگتے ہیں۔مجھ سے سب سے بڑا نوکیلا جواب ٹارگٹ کلنگ کا پوچھا گیاکہ پختون وہاں چن چن کر قتل کئے گئے۔میں نے ان سے پوچھا کہ مجھے یہ بتاﺅ کہ جب سوات میں لوگوں کو چن چن کر قتل کیا جارہا تھا تو سب لوگوں نے نقل مکانی کیوں کی ؟ اور اُن کو چن چن کر قتل کرنے والے کون تھے ؟ ۔کراچی میں ہر رنگ ، نسل، مذہب اور زبان والا ہلاک ہوا ہے اس بات سے انکار نہیں ہے ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم صرف اپنے گھر سے اٹھنے والے جنازوں کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ دوسرے کے گھر میں شائد شادیانے بج رہے ہونگے تو بھائی ایسانہیں ہے۔مجھے اپنا گاﺅں بہت عزیز ہے ۔بہت خوبصورت ہے ،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے علاقوں میں وسائل پیدا نہیں کئے ۔ ہم بیرون ملک جاتے یا بیرون شہر ، وہاں جاکر رزق بھی تلاش کرتے ہیں اور رہائش بھی۔لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ جس جگہ ہم جا رہے ہیں وہاں جو لاکھوں کی تعداد میں افرادی قوت موجود ہے اُن کا کیا ہوگا ۔ جب وسائل ہمارے اپنے علاقوں میں نہیں اور ہمیں ایک ہی ملک میں ہجرت کرنا پڑتی ہے تو وہاں کے لوگ کیا کریں گے ۔بس تمام بگاڑ کی یہی بنیادیں وجہ ہے۔جیسے ہم سمجھنا نہیں چاہتے۔کم از کم اتنا بھی ہوتا کہ جو لوگ جس شہر میں کروڑوں روپے کما رہے ہیں وہ یہیں خرچ بھی کرتے تو یقینی طور پر روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوتے ، سب کا معیار زندگی بھی بلند ہوتا ۔لیکن یہاں تو آوے کا آواہی بگڑا ہوا ہے۔ نقشے،پلاننگ اور حکومت سے منظوری کے بغیر ایسی آبادیاں وجود میں آچکیں ہیں کہ چند ماہ بعد جب گذرو تو پارک تھا لیکن اب اس کی جگہ مکانات ،فلیٹوں نے لے لیں ہیں۔دیرے میں بیٹھے ہوئے چھوٹے بڑے بزرگ مسکرا کر کہنے لگے کہ تم "کراچی وال"ہوگئے ہو ، کراچی والوں کی زبان بولنے لگے ہو ، میں نے کہا کہ جب تک آپ خود حقیقت کو قریب سے نہیں دیکھو گے اُس وقت تک بد گمانیاں دلوں میں پیدا رہیں گی ۔ ہمارے اسلاف نے چھوٹے لاﺅ لشکر کے ساتھ ہندوستان پر سینکڑوں برس حکمرانی کی ۔ کیا ہم اپنے سلوک ،اپنی محبت سے کراچی وال کے دلوں میں جگہ نہیں پاسکتے ۔مسئلے اور پریشانیاںبہت ہیں لیکن حل ایک ہی ہے اور وہ حل ہے ، محبت کا ، پیار کا ، احساس ذمے داری کا۔ !!
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.