ناریل کے تیل سے پہلی کامیاب پرواز

ایک نجی مسافر بردار ائر لائین کے ایک طیارے نے جزوی طور پر حیاتیاتی تیل کو بطور ایندھن استعمال کرتے ہوئے ایمسٹرڈم تک کامیاب پرواز کی ہے۔

ورجن اٹلانٹک ائرلائین کے اس طیارے نے لندن کے ہیتھرو ائر پورٹ سے ایمسٹرڈم تک کا سفر کیا لیکن اس پرواز میں کوئی مسافر سوار نہیں تھا۔

 

اس ماہ کے اوائل میں ایک ائربس، اے 380 جیٹ طیارے نے بھی ایک ایسے متبادل ایندھن کو استعمال کیا تھا جسے سینتھیٹک کے ذریعے گیس سے محلول میں تبدیل کیا گیا تھا۔ دنیا میں مسافروں کی آمد و رفت کے لیے استعمال ہونے والے طیاروں میں اے 380 جیٹ طیارہ سب سے بڑا ہے۔

بہت سے ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ متبادل توانائی کے لیے حیاتیاتی ایندھن پائیدار ذریعہ نہیں ہے کیونکہ اس کا اثر خودرنی وسائل کی کمی کی شکل میں ظاہر ہو گا۔

ورجن کے بوئنگ 747 کے چار میں سے ایک انجن کو حیاتیاتی تیل کے ایک ایسے ٹینک سے منسلک کیا گیا تھا جس کا طیارے کے دوسرے ایندھن فراہم کرنے والے ٹینکوں سے کوئی تعلق نہیں تھا اور جو طیارے کو ایک انجن کے ذریعے بیس فی صد طاقت فراہم کر رہا تھا۔

اگر کوئی دشواری پیدا تو ہوتی تو روایتی ایندھن سے چلنے والے طیارے کے دوسرے تین انجن طیارے کو پرواز کے قابل رکھ سکتے تھے۔

طیارے میں استعمال کیا جانے والے حیاتیاتی ایندھن کا آمیزہ باسو نامی پھل اور ناریل سے تیار کیا گیا تھا۔

اس آمیزے کو تیار کرنے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ باسو کا درخت برازیل میں پایا جاتا ہے اور اس وقت باسو یا ناریل کی جو پیداوار ہے اس کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس کا ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا تو اس کا خوردنی وسائل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

کہا جاتا ہے کہ دونوں پھلوں سے حاصل ہونے والے تیل کو بالعموم آرائشی اشیاء اور گھریلو کاغذ سازی جیسی مصنوعات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

تاہم کہا جاتا ہے کہ اس حیاتیاتی تیل کے استعمال کے بارے میں ایک خدشہ یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ اس تیل کا ذخیرہ بلندی پر جا کر منجمد ہو سکتا ہے۔

جی ای اور بوئنگ کمپنیاں درکار ٹیکنالوجی کے تیاری میں لگی ہیں لیکن ورجن اٹلانٹک کا کہنا ہے کہ دس سال کے اندر ہوائی کمپنیاں پرواز کے لیے پودوں سے حاصل ہونے والی توانائی پر انحصار کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔

 

YOU MAY ALSO LIKE: