دلکش اور خوش نما ‘ عنبر ‘

ماحولیاتی اورحیاتیاتی تاریخ کے قدرتی اور منفرد محافظ

خوبصورت لہجے کے شاعرفیض احمد فیض کی کتاب’’ زنداں نامہ‘‘ میں نازک احساسات پر مبنی ایک نظم کا عنوان ہے ’’ حیبب عنبر دست‘‘ فیض نے اس نظم میں جس عنبر صفت دست کا زکر کیا ہے اس سے قطع نظر کہ وہ کون ہے البتہ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ حسن کی تعریف کے لئے عنبر ایک خوبصورت استعارہ ہے جس کا استعمال فیض جیسا حساس شاعر ہی کرسکتا ہے لیکن خوبصورتی کے ساتھ ساتھ عنبر کا ایک تعارف عنبروں کی تشکیل کا طویل طریقہ اور اس دوران اُن میں قبل از تاریخ کی جاندار اور غیر جاندار اشیاء کا محفوظ ہوجانا بھی ہے ۔

*عنبر (Amber)کیا ہے:
بنیادی طور پر عنبر(Amber) درختوں کا شفاف اور خوبصورت رنگوں کا وہ قدیم تحفہ ہیں جودرختوں میں سے حشرات سے دفاع کے لئے بہنے والی رال یا گوند سے بنتے ہیں اور ہم تک لاکھوں سال کے عرصے کے بعد ’’ رکاز‘‘ (Fossils)کی شکل میں پہنچتے ہیں رال یا گوند کے ٹھوس اور سخت عنبر بننے کے اس طویل کیمیائی عمل کے دوران ہوا کا گذر نہ (Airtight)ہونے کے باعث ان کے اندر کئی حشرات اور دیگر اشیاء قید ہوجاتی ہیں یاان کی باقیات محفوظ ہوجاتی ہیں حتی کہ بعض سخت جان عنبروں میں قدیم زمانے کی ہوا کے بلبلے بھی مقیدپائے گئے ہیں جس کی مدد سے ماہرین کو قدیم آب و ہوا اور حشرات کے بارے میں زبردست آگاہی حاصل ہورہی ہے واضح رہے یہ حشرات جب درختوں کی لیس داررال یا گوند کو کھانے آتے ہیں تو وہ اس میں چپک جاتے ہیں اور ہوا بند(Airtight)ہونے کے باعث ہمیشہ کے لئے اس میں مقید ہوجاتے ہیں عظیم یونانی ماہر حیاتیات اورفلاسفر ’’ تھیوفہارسٹس‘‘ (Theophrastus)وہ پہلا شخص تھا جس نے لگ بھگ چارسوسال قبل مسیح میں عنبر کے خواص کے بارے میں تحقیق کی تھیں تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عنبر زیادہ تر ان ساحلی علاقوں میں پائے جاتے ہیں جہاں ماضی میں صنوبری جنگلات کی بہتات تھی بعد ازاں یہ درخت زیر آب آگئے اور ان کی رال یا گوند درختوں سے علیحد ہو کر دلدلی پانی اور ساحلی پہاڑیوں میں پھیل گئی اور مخصوص کیمیائی عوامل کے بعد نیم دائروی شکل کے ٹھوس عنبروں میں تبدیل ہوگئی جنہیں غوطہ خور اور تاجر حضرات تلاش کر کے فروخت کرتے ہیں۔

*وجہ تسمیہ:
عنبر میں موجود ترش مادےSuccinicکے باعث ماہرین معدنیات اسے Succiniteکے نام سے بھی پکارتے ہیںیہ لفظ لاطینی زبان کے لفظ Succinumسے ماخوذ ہے جس کے معنی ترش کے ہیں جب کہ قدیم جرمنی کے لوگ عنبر کے آگ کی تپش سے نرم ہوجانے اور زیادہ حرارت دینے پر جل جانے کے باعث اسے‘‘آگ کا پتھر ‘‘ Bernsteinکے نام سے جانتے تھے اورجب عظیم یونانیوں نے کپڑے سے عنبر کو رگڑا تو اس میں برق پیدا ہوئی چناچہ اس نسبت سے انہوں نے عنبر کو ’’ سورج دیوتا ‘‘ کے خطاب Elektronسے منسوب کیا لفظ الیکٹران آج بھی بجلی کے لئے مستعمل لفظ Electricityکا بنیادی ماخذ ہے اسی طرح لیتھونیامیں Gintaras، لٹونیامیںDzintarsاور روس میں لوگ اسے Yantarکے نام سے جانتے ہیں واضح رہے یہ تمام لفظ ایک ہی لفظ Jainitarکی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں جس کے معنی ’’ سمندری رال یا گوند‘‘ کے ہیں جب کہ موجودہ رائج نام’’ عنبر‘‘(Amber) کا تعلق عربی زبان سے ہے جو اسپرم نسل کی وہیل مچھلی سے خارج ہونے والے ایک چمکیلے اور چکنے مادے ’’مشک دانے‘‘ یا Ambergrisیا Anbargrisسے نکلا ہے یہ مادہ سطح سمندر پر تیرتا رہتا ہے جب کے اسے خوشبو یات(Perfumes) بنانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے چونکہ یہ مادہ سمندر کی لہروں کی ہمراہی میں تیرتا ہوا ساحل پر پہنچ جاتا ہے جسے لوگ مختلف مقاصد کے لئے جمع کرتے ہیں اسی طرح لاکھوں سال قبل درختوں کی رال یا گوند سے تخلیق ہونے والے عنبر بھی زیادہ تردلدلی مٹی اور ساحلی چٹانوں میں تلاش کئے جاتے ہیں لہذاچمکیلے Ambergrisسے متاثر ہوکر ان خوبصورت اور چمکدارقدرتی فن پاروں کو عنبر(Amber)کہا جانے لگا ۔

*عنبر کے مسکن:
۱۔بحیرہ بالٹک
دنیا میں سب قدیم اور زیادہ تعداد میں عنبرشمالی یورپ میں واقع بحیرہ بالٹک سے متصل علاقوں میں پائے جاتے ہیں ان علاقوں سے دنیا کے تمام عنبروں کا 80فیصد حاصل ہوتا ہے جن میں سے اکثر کا تعلق 35سے 40ملین لاکھ سال قبل ائیوسین عہد سے ہے بحیرہ بالٹک کا یہ آبی علاقہ جو چاروں جانب خشکی سے گھرا ہوا ہے کھارے پانی کا دنیا کا سب سے بڑا زخیرہ بھی ہے چناچہ اس سے متصل علاقوں سے ملنے والے عنبروں میں تقریبا 8فیصد ترشSuccinicایسڈ پایا جاتا ہے لہذا انہیںSucciniteعنبر بھی کہا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ 1850 کی دہائی کے بعد سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ عنبروں کی تشکیل ایک قدیم مقامی درختPinites Succiniferکی رال یا گوند کی مرہون منت ہے لیکن 1980میں کی جانے والی تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ عنبر کئی اقسام کے کیمیائی عناصر سے مل کر تخلیق ہوئے ہیں واضح رہے بحیرہ بالٹک کے 45فیصد برف سے ڈھکے ساحل سے متصل وہ ممالک جہاں قدرت کا یہ دلفریب خزانہ وافر مقدار میں پایا جاتا ہے ان میں ڈنمارک، ایسٹونیا، فن لینڈ، جرمنی، لٹویا، لیتھونیا، پولینڈ، سوئیڈن اور روس میںKaliningrad Oblastمیں واقع علاقہ Sambia قابل زکر ہیں بحیرہ بالٹک کی دیومالائی کہانیوں کے مطابق اس خطے میں عنبروں کی بڑی تعداد میں دستیابی کی وجہ سطح سمندر کے نیچے دیومالائی کردار JurateاورKastytisکا عنبروں سے بنا محل تھا جسے آسمانی بجلی کے دیوتا Perkunasنے ناراض ہو کر تباہ کردیا تھا مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس تباہی کے باعث یہاں سے ابھی تک عنبر حاصل ہو رہے ہیں ۔

۲۔جمہوریہ ڈومینیکن
دوسرا مقام جہاں عنبر پائے جاتے ہیں اس کا تعلق بحیرہ کیریبین کے ساحلی ملک جمہوریہ ڈومینیکن اور اردگرد کے علاقوں سے ہے ان علاقوں میں عنبروں کی تلاش کے لئے کان کنی کی صنعت قائم ہے اس علاقے میں پائے جانے والے عنبرعموما شفاف ہوتے ہیں جب کہ ان کا تعلق بھی چالیس سے پچیس ملین سال قبل کے عہدسے ہے ڈومینیکن عنبر کی تشکیل میں بنیادی حصہ قدیم درخت Hymenaea Proteraکی رال یا گوند کا ہے جمہوریہ ڈومینیکن سے ملنے والے عنبر وں کا سب سے اہم وصف ان کے اند ر بڑی تعداد میں مقید ’’رکاز‘‘ کا پایا جانا ہے جس کی مدد سے ماہرین ماحولیات اس علاقے سے استوائی جنگلات کے ختم ہو نے کی وجوہات اور اس زمانے (Period) کے بارے میں آگاہ ہو سکے ہیں جمہوریہ ڈومینیکن میں عنبر تین مقامات پر پائے جاتے ہیں جن میں شمال میں La Cordillera Septentrional، مشرقی علاقوں میں Bayaguanaاور Sabanaکے ساحلی پہاڑوں اور گہرے پانیوں کے علاقے شامل ہیں واضح رہے ان علاقوں میں قدیم ترین عنبر جو گیلی مٹی میں ملے ہیں ان کاتعلق La Cordillera Septentrionalمیں پائی جانے والی ’’ لا کومبرا، لاٹوکا، پالو کیوماڈو، لا بیوکارا اور لاس کاکوس عنبر کی آبی کانوں سے ہے۔

۳۔ایلس ورتھ کاؤنٹی، کنساس
امریکہ کی وسطی ریاست کنساس کی کاؤنٹی ایلس ورتھ بھی عنبروں کے حوالے سے ایک اہم مقام ہے یہاں پر کچھ ایسے عنبر دریافت ہوئے ہیں جن کا تشکیلی عرصہ سو ملین سال قبل کے لگ بھگ ہے جب کہ ان عنبروں میں اس زمانے کے حشرات اور بیکٹیریا بھی مقید پائے گئے ہیں جو تحقیقاتی نکتہ نظر سے انتہائی زبردست دریافت ہے ۔

ان اہم علاقوں کے علاوہ دنیا بھر میں تقریبا 300مقامات ایسے ہیں جہاں عنبر پائے جاتے ہیں مثلا وسطی سوئٹزرلینڈ کے پہاڑی سلسلے کوہ الپس، آسٹریا اور فرانس میں پچپن سے 200ملین سال جب کہ براعظم افریقہ میں مڈغاسکر اور نائجیریا میں60ملین سال پرانے عنبر پائے جاتے ہیں اسی طرح براعظم ایشیا میں مینمار سابقہ برما یہاں پر پچاس ملین سال قدیم اورلبنان میں 130ملین سال پرانے عنبر دریافت ہوئے ہیں یوکرائن ،نیوزی لینڈ، ملائیشیا،میکسیکوکے علاوہ انڈونیشیا کے جزائر بالی اور جاوا میں بھی عنبر کافی بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔

*عنبر کے استعمال:
عنبر کے روزمرہ استعمال کی تاریخ خاصی پرانی ہے اپنی متغیر خصوصیات کے باعث اسے بہت سی اشیاء کی آرائش کے لئے استعمال کیا جاتا ہے واضح رہے عنبر جپسم کی مانند سخت اور پانی کی سی کثافت رکھنے والا مرکب ہے جوموافق حالات میں باآسانی اپنی ہیت تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے انہی خصوصیات کے باعث اسے عرصہ دراز سے سگار کے ہولڈر،برتن، جیولری کے ڈبے، شطرنج کے مہرے ، موم بتیوں کے اسٹینڈ، قلم دان اور دیگر ان گنت اشیاء کی زیبائش میں استعمال کیا جاتا رہا ہے حتی کہ فلا لین کپڑے کو چمکدار بنانے کے لئے بھی عنبر کا تیل استعمال کیا جاتا ہے جب کہ اسلامی ممالک میں مصنوعی عنبر اور حقیقی عنبر کی بیش قدر تسبیحیں بنائی جاتی ہیں تاہم دنیا بھر میں عنبر کا سب سے زیادہ استعمال مصنوعی جیولری میں کیا جاتا ہے جن میں گلے کے خوش نما ہار، کنگن ، جھمکے، بندے، کڑے،انگوٹھیاں، چوڑیاں اور کف لنک بٹن وغیرہ شامل ہیں جہاں تک عنبر کے ماضی میں استعمال کا تعلق ہے تو اس کے شواہد مصر، سوئٹزرلینڈ، جنوبی انگلینڈ اور ڈنمارک میں پتھر اور کانسی کے ادوار کے برتنوں، تسبیحوں،زیورات اور تعویذوں کی شکل میں ملے ہیں اس کے علاوہ عنبر کے تیل کو دوائیوں کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ اسی طرح مشہور امریکی ماہر Keith Peck جوکہ وائیلن بجانے والی چھڑی(Bow)بنانے کے صف اول کے ماہر تسلیم کئے جاتے ہیں وہ چھڑی کی تیاری میں عنبر کے مرکب اور تیل کا استعمال کرتے تھے جسے بین الاقوامی سطح پر وائیلن کے شیدائیAmber Frog Bowکے نام سے جانتے ہیں۔

*عنبروں کی مشہوراقسام :
یوں تو عنبروں کی تمام اقسام ان علاقوں کی نسبت سے مشہورہیں جہاں سے وہ حاصل ہوتے ہیں ان میں بالٹک عنبر(Gedanite Amber)، ڈومینیکن نیلا عنبر،یوکرائن کے علاقے Delatyn سے حاصل ہونے والے Delatyniteعنبر، ڈومینیکن جمہوریہ سے حاصل کئے جانے والے شفاف عنبراور ترکی کے علاقے Oltuسے دریافت ہونے والے سیاہ عنبر وں کو عالمی سطح پر زیادہ پذیرائی حاصل ہے تاہم دنیا بھر میں عنبر ہلکے پیلے ، سرخی مائل بھورے،نیلے اور ہرے رنگ میں پائے جاتے ہیں جہاں تک عنبروں کے مختلف رنگ ، کیمیائی خواص اور بناوٹ کا تعلق ہے تو اس کا انحصار درخت کی قسم اس کی گوند یا رال اور زیر زمین دفن رہنے کے مدت پر ہوتا ہے۔

*شاہراہ عنبر(Amber Road)
عنبروں کی تجارت کے لئے استعمال کی جانے والی گذرگاہوں(Amber Road)کو یورپ کے اولین تجارتی راستے کا اعزاز حاصل ہے یہ راستہ قدیم ادوار سے براعظم یورپ، ایشیا اور یورپ سے شمالی بحیرہ روم کے ممالک کے درمیان آبی اور خشکی کے راستوں کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اگر ہم اس شاہراہ اور اس سے متصل گذرگاہوں پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ قدیم زمانے میں زیورات کی آرائش اور دیگر مقاصد کے لے عنبروں کی تجارتی گذرگاہیں بحیرہ بالٹک اور بحیرہ شمال کے ساحلوں تک پھیلی ہوئی تھیں جن کی وسعت روس میں بہنے والے دریا Dnieperاور پولینڈ سے شروع ہونے والے دریا Vistulaکے ذریعے اٹلی، یونان، بحیرہ اسود اور پھر وہاں سے مصر تک جاتی تھیں یہی وجہ ہے کہ فرعون مصر شہنشاہ توت آخ آمون) (Tutankhamunکے مقبرے میں بھی عنبر بڑی تعداد میں ملے ہیں اسی طرح سلطنت روما میں بھی بحیرہ بالٹک کے کنارے واقع وسطی یورپ کے تاریخی علاقےPrussiaکے ساحل کے ساتھ ساتھ یہ گذرگاہیں موجود تھی جو موجودہ جمہوریہ چیک اور سلواکیہ کے علاقوں تک جاتی تھیں اور پھریہاں سے آگے بڑھتی ہوئی بحیرہ روم کے مغرب میں واقع بحیرہ ایڈریاٹک سے جا ملتی تھیں دوسری جانب بحیرہ اسودکے آبی راستوں سے ہوتی ہوئی یہ گذرگاہیں براستہ قدیم شاہراہ ریشم (Silk Road) ایشیامیں عربیہ، فارس اور چین کے مقامات پرآ ملتی تھیں اپنی وسعت اور اہمیت کے پیش نظر اس آبی اور خشکی کی ’’شاہراہ عنبر‘‘پر ابھی بھی تاجرسارا سال مصروف سفررہتے ہیں۔

*عنبر محل(The Amber Room)
عنبر محل یا عنبریں حجلہ جسے جرمن زبان میں Bernsteinzimmer کہا جاتا ہے ایک حیرت انگیز تاریخی فن پارہ ہے جو 1701میں پروشیا کے بادشاہ فریڈرک اول نے تعمیر کروایا تھا، پچپن مربع میٹر پر محیط اس کمرے کو بعد میں زارِروس پیٹر دی گریٹ اول نے تقریبا چھے ٹن عنبریں محلول، شہد اور سونے کے آمیزے کی مدد سے جوڑکر مزیدخوبصورت طرز تعمیر دی تھی یہ عنبریں کمرہ طویل عرصے تک زارِ روس کے محلات کا سب سے دلکش اور دلفریب مقام رہا تاہم 1941میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر نے اس علاقے میں زبردست تباہی پھیلائی جس کے نتیجے میں یہ کمرہ تباہ ہوگیا لیکن زیادہ تر لوگو ں کا خیال تھا کہ نازی افواج کیتھرائن محل میں واقع اس کمرے میں سے قیمتی عنبر چرا کر’’کوئینگ برگ ‘‘ لے گئے تھے جسے اب کیلی ننگراڈ کہا جاتا ہے تاہم بعد کی تحقیقات سے واضح ہوگیا کہ یہ عنبریں کمرہ جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار ہو کر بالکل ختم ہو گیا تاہم اس کی بحالی کا کام حکومت روس نے دوسری جنگ عظیم سے قبل کھینچی گئی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کی مدد سے1979 میں شروع کیا اورسینٹ پیٹرز برگ شہر کی تین سوویں سالگرہ کے موقع پر2003میں باضابطہ افتتاح کیا گیا لیکن دلچسپ امر یہ کہ بعض ماہرین ابھی تک اصل عنبر یں کمرے کی باقیات کی تلاش میں مصروف ہیں ۔

*عنبر میوزیم
بحیرہ بالٹک کے کنارے واقع ملک لیتھونیا کے علاقے Palangaمیں دنیا کا سب سے وسیع و عریض عنبر عجائب گھر Palanga Amber Museum ہے جس میں28,000کی تعداد میں دلکش عنبر محفوظ ہیں جن میں سے پندرہ ہزار عنبروں میں قدیم حشرات، مکڑیاں، مکھیاں اور پودے بھی مقید ہیں ،1963سے قا ئم اس میوزیم میں تقریبا چار ہزار پانچ سو عنبر انتہائی دیدہ زیب جیولری کی شکل میں موجود ہیں یاد رہے یہ عجائب گھرانیسویں صدی کے ایک عنبروں سے محبت کرنے والے Thszkeiwiczخاندان کے 1897میں تعمیر کئے گئے محل میں قائم کیا گیا ہے جہاں ہر سال عنبروں کی نمائش بھی منعقد کی جاتی ہے میوزیم میں 750مربع میٹر رقبے پر پندرہ کمرے قائم ہیں جہاں عنبروں کے بارے میں معلومات اور ان کی تشکیل کے طریقے آرٹ کے مختلف میڈیم کے زریعے اجاگر کئے گئے ہیں میوزیم میں یورپ میں دریافت ہونے والا ساڑھے تین کلو گرام کا تیسرا سب سے وزنی عنبر بھی موجود ہے یاد رہے Sun Stoneکے نام سے پہچانے جانے والے اس عنبر کو دو مرتبہ چوری کیا جاچکا ہے تاہم اب یہ بحفاظت میوزیم میں موجود ہے اس عنبر کے علاوہ میوزیم میں پندرہویں صدی کی ایک انگوٹھی جس میں عنبر جڑا ہوا ہے، سہولویں صدی کی عنبر سے سجی صلیب، تسبیحیں، سگریٹ ہولڈر اور آرائشی ڈبے شائقین کی تفریح طبع کاباعث بنتے ہیں۔عنبروں سے محبت Palangaکے لوگوں کاتاریخی ورثہ ہے یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں سترہویں صدی ہی سے عنبروں کو زیورات میں تبدیل کرنے کا کام کیا جارہا ہے جب کہ اٹھارویں صدی میںیہ علاقہ روسی سلطنت میں عنبروں کی تجارت کا سب سے بڑا مرکز تھا اور پہلی جنگ عظیم کے ابتدائی زمانے میں Palangaسے سالانہ دوہزار کلو گرام خام عنبر دنیا بھر میں بھیجا جاتا تھا ،اس کے علاوہ لتھونیا ہی میں عنبر میوزیم گیلری،روس میں کیلی ننگراڈ عنبر میوزیم کے علاوہ ڈنمارک، سوئیڈن،پولینڈ،جرمنی ، ہالینڈ، برطانیہ، امریکہ اور جمہوریہ ڈومینیکن میں بھی دلکش عنبروں اور ان سے بنی ا شیاء عجائب گھروں کا اہم حصہ ہیں۔

*عنبراور ان کے قیدی
اب تک ملنے والے عنبروں میں جاندار اور غیر جاندار دونوں اقسام کی اشیاء پائی گئی ہیں جاندار اشیاء کے رکازات(Fossils)میں سرفہرست مختلف اقسام کی مکھیاں ہیں اس کے علاوہ چیونٹیاں، بھڑ، پروانے، مکڑیاں، کیچوے، دیمک،جوئیں،شہد کی مکھیاں،مچھر، ٹڈے ،کیکڑے،لال بیگ، بھونرے،پسو، تتلیاں اور مخصوص سمندری حیات وغیرہ یاان کی باقیات شامل ہیں جب کہ غیر جاندار اشیاء میں جلی ہوئی لکڑی، کانٹے، شاخیں،بیج ، پتیاں،پرندوں کے پر ، درختو ں کی چھال ،قدیم کشتیوں کی لکڑی کے ٹکڑے، مٹی کے زرات وغیرہ کثیر تعداد میں دریافت ہوئے ہیں اس کے علاوہ عنبروں میں مقید ہوا کے بلبلے بھی دیکھے جاسکتے ہیں جو ان کے درمیان شفاف چمک دارننھے منے موتیوں کی طرح نظر آتے ہیں ان میں سے بعض ہوائی بلبلے67ملین سال پرانے ہیں ان ہوائی بلبلوں پر تحقیق سے علم ہوا ہے کہ زمانہ قدیم میں زمین کی آب وہوا میں آکسیجن کی مقدار 35فیصد تھی جو اب سمٹ کرمحض 21فیصد رہے گئی ہے۔
ATEEQ AHMED AZMI
About the Author: ATEEQ AHMED AZMI Read More Articles by ATEEQ AHMED AZMI: 26 Articles with 109905 views I'm freelance feature essayist and self-employed translator... View More