نظریہ ضرورت

بلاشبہ درست کہا ہے کسی نے سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا،مگرمیں سمجھتا ہوں جس سیاست نے ہمارے ملک میں رواج پایا ہے اس سیاست کی آنکھیں ہوتی ہیں اورنہ ان آنکھوں میں شرم ہوتی ہے جبکہ اس بیوفالیلیٰ کاضمیربھی نہیں ہوتا ۔ایک دورتھا جب ہمارے ہاں سیاستدان اورسیاسی کارکن مرنے مارنے پراترآتے مگراپنے نظریات پر سمجھوتہ نہ کرتے ، کچھ کو دائیں بازواورکچھ کوبائیں بازوکی نمائندہ سیاست کا علمبردار سمجھاجاتا تھا۔سیاسی نظریات میں ہم آہنگی کی بنیاد پراتحاد بنتے جبکہ نظریات سے انحراف کے سبب اتحادٹوٹ کر بکھرجایاکرتے تھے اوریہ وہ دورتھا جب سیاست آج کی طرح کالی اور گالی نہیں تھی اورآج کی طرح سیاستدان اقتداریامراعات کیلئے وفاداریاں اورخاندانی حمیت نیلام نہیں کرتے تھے ۔آج ہمارے ہاں ہونیوالی سیاست صرف اورصرف نظریہ ضرورت کاطواف کرتی ہے۔زیادہ ترسیاستدانوں نے محض اقتدارکیلئے اپنے اپنے نظریات اپنے مردہ ضمیر کے ساتھ دفنا دیے ہیں۔آج سیاست ،منافقت ،مفادات اورمراعات کادوسرا نام ہے ،کچھ سیاستدان مفادات اورمراعات کیلئے اپنے ہاتھوں سے اپنی غیرت تک نیلام اوربدنام کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ہمارے ہاںسیاست کئی روپ دھارے ہوئے ہے ،کسی نے اس سیاست کونیلام گھر بنادیاتوکسی نے اس کوبازارحسن بنا لیا ۔کئی اعلیٰ اوراونچے خاندانوں سے تعلق رکھنے والوں نے سیاست میں شارٹ کٹ کیلئے اخلاقی اقدار کادامن تارتار کردیا ۔سیاست کوبازارحسن بنانے اور''دانے اورچوزے'' کاکاروبار کرنیوالے آج ہمارے معاشرے میں زیادہ بااختیار اورباوقار بنے بیٹھے ہیں۔انہیں ہمارے بعض سیاستدانوں کی کمزوریوں اورمجبوریوں کواستعمال کرناخوب آتاہے۔اس کیلئے سیاستدانوں کے شوق اوران کی پسند ناپسندکاخاص خیال رکھنا پڑتا ہے اوررات کے اندھیرے میں ان کی خوب خدمت کی جاتی ہے۔جہاں اس قسم کے مردانہ شوق ہوں گے وہاں نظریات اورحمیت کادم گھٹ جانافطری امر ہے۔

ہمارے ہاں آج تک جوبھی سیاسی یامذہبی اتحاد معرض وجود میں آئے وہ اقدار نہیں صرف اقتدارکیلئے تھے۔حالیہ دودہائیوں میں ہمارے ہاں راتوں رات نظریہ ضرورت کے تحت جس قسم کے سیاسی اتحادبنے اورختم ہوئے ان کے اسباب ومحرکات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔اس دوران جوبھی سیاسی اتحادبناوہ ہمارے سیاستدانوں کے مطابق'' قومی مفاد''میں بنااورجوبھی اتحادکانچ کے گلاس کی طرح ٹوٹاوہ بھی صرف اورصرف'' قومی مفاد''میں توڑاگیا،بیچارے عوام آج بھی اس قومی مفاد کی صورت دیکھنے کیلئے ترس رہے ہیں،اس ''قومی مفاد''کاصرف ہمارے سیاستدانوں کے ہاں آناجاناہوتاہے۔یوں توکئی سیاسی اتحاد بنے اورٹوٹ گئے مگرآج تک کسی سیاسی اتحاد کی طرف سے پاکستان کے منتشرعوام کومتحد کرنے کی خواہش یا کوشش نہیں کی گئی۔ان دنوں بھی ہمارے سیاستدان صرف اورصرف نظریہ ضرورت کے تحت اِدھر سے اُدھر اوراُدھر سے اِدھردیوانہ وار بھاگ رہے ہیں ،نہ پہلے کسی کاآنایاجانا نظریات کے تحت تھا اورنہ ا ب ایسا ہے۔تاہم میرے نزدیک سیاسی پارٹیوں کی تبدیلی کوئی ایشونہیں لیکن نظریات بدلنااوراپنا ضمیر کچلنا ضرورشرمناک ہے ۔پاکستان میں سیاست نے ایک منفعت بخش تجارت کاروپ دھار لیا ہے اورزیادہ تر امیدوارسرمایہ کاری اورپارٹی قیادت کے ساتھ وفاداری کی اداکاری کرتے ہیں اورالیکشن میںکامیابی کے بعدانہیں ان کا پیسہ سودسمیت وصول ہوجاتا ہے لہٰذا ان سرمایہ دارامیدواروں کوجس پارٹی کی طرف سے الیکشن کیلئے ٹکٹ کی ضمانت نہیں ملتی یہ اپنا ''بیگ ''اٹھائے اس جماعت سے جمپ کرکے کسی دوسری پارٹی میں چلے جاتے ہیں اوریہ سب کچھ بھی نظریہ ضرورت کے زمرے میں آتا ہے ۔اس بار الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوگی ،یہ وہ دعویٰ ہے جوہرالیکشن کے وقت کیا جاتا ہے مگرماضی میںجوکچھ کیا گیاوہ اصغرخان کیس کافیصلہ منظرعام پرآنے کے بعداب کوئی رازنہیں رہا۔ہمارے ہاں پری پول اورپوسٹ پول رگنگ کاایک ہزارایک طریقہ ہے ۔ معاشرے کے مفلس افراد ہزارپانچ سوروپے میں اپنا قومی شناختی کارڈ امیدواروں کے پاس گروی رکھ دیتے ہیں اورجس طرح ووٹروں سے اپنے انتخابی نشان پرمہرلگانے کا حلف لیا جاتا ہے ،اس دھاندلی کاسدباب کون اورکس طرح کرے گا ۔آج کل پاکستان میں بظاہر عام انتخابات کی آمد آمد ہے مگرہمارے سیاسی پنڈت اس سلسلہ میں زیادہ پرامید نہیں ہیں۔حکمران ،اپوزیشن اوراسمبلیوں سے باہر بیٹھی پارٹیاں ایک دوسرے کیخلاف نیا سیاسی اتحاد بنانے کیلئے ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔خوب بھاﺅتاﺅاورایک دوسرے کاسیاسی وزن کیا جارہا ہے ۔ تاہم اس بار الیکشن جس وقت بھی ہوگاماضی کے انتخابات سے بہت مختلف ہوگا کیونکہ کئی سروے اوراندازے باطل ہوسکتے ہیں اوریوتھ کاسیلاب اپنے ساتھ ماضی کی نشانیاں بہالے جائے گا۔

پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) کے درمیان مرکزاورپنجاب میں شراکت اقتداراور اتحادبارے کون سوچ سکتا تھا،اس اتحاد کوبرقراررکھنے یااقتدارمیں بچانے کیلئے نظریہ ضرورت کے تحت مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزیروں نے بازوﺅں پرسیاہ پٹیاں باندھ کر اپنے دشمن فوجی آمرپرویز مشرف سے حلف اٹھایا مگراس وقت بھی صرف ایک نڈراوربہادرآدمی جاویدہاشمی نے انکارکیا تھااوراب اسی نظریہ ضرورت کے تحت میاں نوازشریف نے وزیراعظم منتخب ہونے کی صورت میںصدرآصف زرداری سے حلف اٹھانے کا بیان دے کر کسی کوحیران توکسی کوپریشان کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی پیپلزپارٹی سے علیحدگی کے فوراً بعد نظریہ ضرورت کے تحت ہی پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (قائداعظمؒ)کے درمیان بھی شراکت اقتدارہوئی تھی اورآنیوالے انتخابات کیلئے بھی اتحاد برقراررکھنے کافیصلہ کیا گیا ہے تاہم یہ اتحاد پانی کے بلبلے سے زیادہ نازک ہے،ماضی میں ایک دوسرے کوقاتل کاخطاب دینے اورایک دوسرے کے کردارپرانگلیاں اٹھانے والے آج ایک دوسرے کے اتحادی جبکہ ماضی کے دوست آج بدترین دشمن اورایک دوسرے کے رازوں پرسے پردہ اٹھارہے ہیں لیکن پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (قائداعظمؒ) کے درمیان دو نوں طرف بے یقینی اوربدگمانی موجود ہے جومیاں منظوروٹوکوپیپلزپارٹی پنجاب کاصدربنانے کے بعدمزیدبڑھ گئی ہے۔

مسلم لیگ (ن) اورپاکستان تحریک انصاف کے درمیان شدیدمیڈیا وارجاری ہے جس سے بظاہرپیپلزپارٹی کافائدہ اوردوبارہ ایوان اقتدار کی طرف راستہ ہموارہورہا ہے تاہم کچھ بعید نہیں کسی مرحلے پر مسلم لیگ (ن) اورپاکستان تحریک انصاف کے درمیان بھی اتحادہوجائے۔30اکتوبروالے تحریک انصاف کے جلسہ کی کامیابی کے بعدجماعت اسلامی کاجھکاﺅ تحریک انصاف کی طرف تھا اوراس دوران مسلم لیگ (ن) پرسیاسی حملے بھی کئے گئے مگربعدمیں انہیں اپنا ارادہ بدلنا پڑا،ان دنوںجماعت اسلامی والے تیل اورتیل کی دھار دیکھ رہے ہیں،جماعت اسلامی کوآج کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد یاسیٹ ایڈجسٹمنٹ سے زیادہ ایک قاضی حسین احمد کی ضرورت ہے،قاضی حسین احمد کے پس منظر میں چلے جانے سے جماعت اسلامی بھی عوام کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ہے۔ متحدہ مجلس عمل کی تنظیم نوکے دوران جماعت اسلامی کو نظراندازکرناسیاسی طورپر مولانا فضل الرحمن کے مفادمیں ہے لیکن اگر آج قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے امیرہوتے توصورتحال مختلف ہوتی تاہم جومذہبی پارٹیاں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پرمتحد ہوئی ہیں ان کے درمیان بھی نظریہ ضرورت کے سوا کوئی قدر مشترک نہیںہے،متحدہ مجلس عمل سے باہررکھناجماعت اسلامی کی سیاست کیلئے ایک بڑادھچکا ہے لیکن اس صورتحال سے سیاسی طورپرمسلم لیگ (ن) کوفائدہ ہوگاکیونکہ انہیں پاکستان تحریک انصاف سے جوخطرہ ہے وہ جماعت اسلامی کے ساتھ نہ ہونے سے مزید بڑھ جاتااورجماعت اسلامی کے بااثرلوگ بھی پاکستان تحریک انصاف کی پسندیدگی میں کمی کے بعداب مسلم لیگ (ن)کے ساتھ اتحاد یاسیٹ ایڈجسٹمنٹ کے خواہاں ہیں کیونکہ انہیں زمینی حقائق کابخوبی احساس اورادراک ہے ،اسلئے جماعت اسلامی فرینڈلی اپوزیشن کی طرح پچھلے کئی ماہ سے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیخلاف خاموش ہے تاہم عوام اس خاموشی کومحسوس کررہے ہیں کیونکہ لاہورمیں پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ (قائداعظمؒ)یا تحریک انصاف نہیں بلکہ جماعت اسلامی کواپوزیشن پارٹی سمجھاجاتا تھا۔شہبازشریف کوبحیثیت وزیراعلیٰ دونوں بار پنجاب اسمبلی میں کسی قابل اپوزیشن لیڈرکاسامنا نہیں کرناپڑاورنہ ماضی میں انعام اللہ خان نیازی نے اس وقت کے وزیراعلیٰ میاں منظوروٹوکواسمبلی کے اندراورباہربری طرح زچ کردیا تھا۔آج پیپلزپارٹی کے راجہ ریاض اورمسلم لیگ (قائداعظمؒ)کے چودھری ظہیرالدین کاپنجاب اسمبلی میں ہونانہ ہوناایک برابر ہے،پیپلزپارٹی کے سابق اپوزیشن لیڈرقاسم ضیاءنے بھی جان بوجھ کرخودکوقومی ہاکی ٹیم کے معاملات تک محدودکرلیا ہے مگروہاں بھی وہ اچھا نتیجہ دینے میں ناکام رہے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے گورنرپنجاب سردارلطیف کھوسہ، جہانگیر بدر،نویدچودھری اوراسلم گل بھی اپنے عہدوں سے انصاف اورقیادت کے اعتماد کاحق ادا نہیں کرپائے جبکہ آصف ہاشمی نے پیپلزپارٹی کے حوالے سے لاہور میںاپنا آپ منوایا ہے ۔پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی یوں تو نائب وزیراعظم ہیں مگروہ اپنے طورپرپنجاب کے اپوزیشن لیڈر بنے ہوئے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں میں پارٹی لیڈرزاوران کے بیوی بچوں کے سوا کسی دوسرے کیلئے راستہ ہموار نہیں کیا جاتا۔مسلم لیگ (قائداعظمؒ)میں سینیٹر کامل علی آغا اورایم پی اے سیمل کامران سمیت کئی قدآوراورقابل لوگ موجود ہیں مگرقیادت کی طرف سے کسی کواپنابھرپور کرداراداکرنے کی اجازت نہیں ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے پاس سیالکوٹ سے چودھری غلام عباس کی صورت میں جوسنجیدہ اورمنجھے ہوئے لوگ دستیاب ہیں انہیں دیوار سے لگادیا گیا ہے۔میاں شہبازشریف نے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن پارٹیوں کے ہاں قیادت کے فقدان کابھرپورفائدہ اٹھایا ہے مگرمیں سمجھتا ہوں ایک فعال اورموثراپوزیشن کاکردارکسی بھی حکومت کے کام کامعیاربرقراراورسمت درست رکھنے جبکہ کام کی رفتارتیز کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتاہے ۔جس وقت تک پاکستان کی سیاست میںنظریہ ضرورت کی بنیاد پراہم فیصلے ہوتے رہیں گے اس وقت تک ہمارے ہاں ریاستی نظام اورسیاسی کلچر کی تبدیلی کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔عوام بھی نظریہ ضرورت کے تحت ووٹ دینا چھوڑدیں اوراپنے اندرسوئے پڑے نظریات اورضمیر کوبیدارکریں ورنہ یہ غلامی اوربدنامی والی کی زندگی ان کامقدربن جائے گی ۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126826 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.