ملک صاحب ۔۔۔سدھر جائیں

9 محرم کو ڈیرہ اسمعیل خان میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد ایک مرتبہ پھر ملک صاحب نے موبائل جام کرنے والی اپنی پالیسی کی دھوم مچانے کے لیے بیان داغ دیا کہ وہاں موبائل سروس جام نہیں کی گئی تھی اس لیے دھماکہ ہو گیا ۔ شاید ملک صاحب بیان دیتے وقت بھول گئے تھے کہ سکیورٹی اداروں نے جلوس کے راستے کی مکمل چیکنگ کرنی تھی اور ان کے مطابق راستہ کلیئر تھا ۔ ملک صاحب یہ بھی بھول گئے کہ موبائل سروس کو معطل کرنے کی ذمہ داری کس کی تھی اور اس مانیٹر کس نے کرنا تھا ؟ کیا براہ راست ملک صاحب جواب دہ نہیں ؟ دہشت گرد کہاں سے آیا ؟ اس نے وہاں بم کس وقت رکھا؟ اسے پکڑنا کس کا کام تھا؟ اور اس قدر سکیورٹی کے باوجود کسی نے اسے جلوس کے راستے میں بم رکھتے ہوئے کیوں نہیں دیکھا؟ راستہ کلیئر کرنے والوں کو بم کا علم کیوں نہیں ہو سکا؟ ایسے ہی کئی سوالات ملک صاحب کا پیچھا کرتے رہیں گے۔دوسری جانب حکومت نے یہ اطلاع ملنے کے بعد کہ بم کچرے کے ڈھیر میں رکھا گیا تھا، ایک ایسے آفیسرکو معطل کر دیا جو سکیورٹی انچارج نہیں تھا۔ دھماکے کے بعد کچر ے کو وجہ بنا کر غیر متعلقہ آفیسر کو معطل کرنے والوں سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ کیا دھماکے سے قبل سکیورٹی اداروں نے یہ رپورٹ دی تھی کہ جلوس کے راستے میں کچرے کاڈھیر سکیورٹی رسک کی صورت موجود ہے ؟

جب ملک صاحب نے موبائل سروس جام کرنے کا اعلان کیا تو طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بھی چند صحافیوں کو اطلاع دے دی کہ یہ اقدامات انہیں کارروائیوں سے نہیں روک سکتے۔ احسان اللہ احسان کا یہ چیلنج میڈیا پر بھی آگیا تھا اور رحمن ملک بھی اس سے بخوبی واقف تھے۔ میرے خیال میں ڈیرہ اسماعیل خان میں دھماکہ کر کے اس نے اپنی بات ثابت بھی کر دی ۔وہ تمام تر سکیورٹی کے حکومتی دعوﺅں کے باوجود اپنا کام کر گیا ۔ یہ خودکش حملہ بھی نہیں تھا کہ ملک صاحب یا کوئی اور وضاحت دے سکے کہ خودکش بمبار کو روکنا تقریبا ناممکن ہو جاتا ہے ۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو ملک صاحب اس کا چیلنج ہار چکے ہیں۔

انٹیلی جنس کی دنیا میں کسی نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے ایک ہی منصوبہ دوسری مرتبہ عمل میں لانا بے وقوفی سمجھی جاتی ہے ۔ شاید ملک صاحب کو لگتا تھا کہ عید پرموبائل سروس جام ہونے کے بعد شدت پسندوں نے اس کامتبادل نہیں ڈھونڈا ہوگا۔ ملک صاحب سے عرض ہے کہ شدت پسند پتھر کے دور میں نہیں رہتے بلکہ ان کے ساتھ انجینئر اور سائنس دان بھی مل چکے ہیں ۔ ان کا ماسٹر مائینڈ اور نیٹ ورک بہت وسیع ہے۔ جب میں نے 9 اور 10 محرم پر موبائل سروس جام ہونے کی اطلاع اپنے چھوٹے بھائی کو دی تو اس نے بے نیازی سے پوچھا اس کا کیا فائدہ ہو گا؟ میں نے کہا شاید دہشت گرد آپس میں رابطہ نہیں کر سکیں گے تو اس نے لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے کہا : اگر مسئلہ رابطے اور ٹائمنگ سیٹ کرنے کا ہی ہے تو یہ لیب ٹاپ اور انٹرنیٹ کس لیے ہے ؟ میں نے اپنے چھوٹے بھائی کی جانب دیکھا اور دعا کی کہ کاش ملک صاحب کے گھر بھی کوئی بچہ ہو اور وہ اسے موبائل سروس جام کرنے کی وجہ بتا دیں ۔

سچ پوچھیں تو کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے کہ میں ایف آئی اے کے سابق سربراہ رحمن ملک صاحب کو بتاﺅں کہ ان کی کچھ باتوں پر دنیا ہنستی ہے۔ انٹیلی جنس کی دنیا کے لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں ۔ان کے اکثر بیانات ایسے ہیں جو کوئی بھی ذمہ دار وزیر داخلہ یا ایف آئی آے کا سربراہ نہیں دے سکتا ۔ اتفاق سے ملک صاحب ان دونوں عہدوں پر فائز رہے ہیں ۔ کبھی وہ ایف آئی اے کے اعلی آفیسر ہوتے تھے اور اس قدر ذہین تھے کہ وزیر داخلہ کے عہدے تک براہ راست ترقی کر گئے ۔وطن عزیز کے اہم اور حساس عہدے پر فائز ہونے کے بعد ان کی یہ ذہانت کس کام میں مصروف ہو گئی اس کا مجھے علم نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ کوئی قانون دان ان کے بیانات کا جائزہ لے تو شاید ان کے خلاف خفیہ راز افشاں کرنے کی پٹیشن دائر کر دے۔

مجھے یاد ہے کہ چند سال قبل لاہور میں ہونے والی دہشت گردی کی ایک واردات کے بعد دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ۔ اس کے بعد ملک صاحب میڈیا پر آئے اور انہوں نے قوم کو اپنی ذہانت سے متاثرکرنے کے لیے کہا دہشت گرد جس گلی سے فرار ہوئے ہیں وہاں تندور پر کام کرنے والے ایک شخص نے انہیں دیکھ لیا تھا ۔ جس کی مدد سے دہشت گردوں کا خاکہ بنایا گیا ہے اور جلد ہی انہیں گرفتار کر لیا جائے گا ۔ اس دن میں یہی سوچتا رہا کہ ملک صاحب کے خلاف تندور کے ملازم کو قتل کروانے کا مقدمہ درج کروانے کی جرات کون کرے گا۔کیا آپ کو لگتا ہے کہ ملک صاحب کے اس بیان کے بعد دہشت گردوں کے ساتھی اس تندور سے روٹیاں لگوانے نہیں آئے ہوں گے؟ ملک صاحب ایک حساس وزارت کا قلمدان سنبھالے ہوئے تھے اور انہیں یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ میڈیا کو کیا بتا رہے ہیں؟

گذشتہ سالوں میں ملک صاحب کی سربراہی میں کام کرنے والے اداروں نے کئی دہشت گرد وں کوگرفتار کیا ۔ دوسری جانب ملک صاحب بھی تواتر سے میڈیاپر بیانات دیتے رہے کہ فون ریکارڈ کی مددسے دہشت گردوں کی گرفتاری میں مدد ملتی ہے ۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اگر ملک صاحب یہ بیانات نہ دیتے تو آج بھی فون ریکارڈ کی مدد سے دہشت گرد پکڑے جا رہے ہوتے ۔ ملک صاحب کے انہی بیانات کے بعد دہشت گرد محتاط ہو ئے اور انہوں نے دہشت گردی کی منصوبہ بندی اور پلاننگ میں لوگوں سے چھینے گئے موبائل استعمال کرناشروع کر دیے۔دکھ یہ ہے کہ دہشت گردی کی پلاننگ یا واردات سے قبل خصوصی طور پر اسی مقصد کے لیے عوام سے چھینے گئے موبائل فون کے مقدمات میں ملک صاحب کو نامزد نہیں کیا جا سکتا ۔

ملک صاحب کی جانب سے یہ شکوہ بھی کیا گیا کہ کراچی میں گرفتار کیے گئے دہشت گردوں کو عدلیہ نے خوف اور دھمکیوں کی وجہ سے رہا کر دیا ۔ حیرت ہے کہ ملک صاحب نے ایک مرتبہ بھی یہ نہیں سوچا کہ ان ججز کو فول پروف سکیورٹی مہیا کرنا کس کی ذمہ داری تھی ۔دوسرے الفاظ میں ملک صاحب خود ہی میڈیا کے سامنے اپنی ناکامی کا اعتراف کر رہے تھے کہ وہ عدلیہ کو سکیورٹی مہیا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور دہشت گردوں کے ساتھیوں نے ان تک رسائی حاصل کر کے دھمکی آمیز پیغام پہنچات ہوئے عدم تحفظ کا احساس دلا دیا۔

محرم میں ملک صاحب کے یہ بیانات بھی منظر عام پر آئے کہ انہیں دھمکیاں موصول ہو رہی ہیںلیکن ان کا ایک بھی ایسا بیان سامنے نہیں آ سکا کہ دھمکیاں دینے والوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ اس قوم کو ڈوب مرنا چاہیے جس کی سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے کا سب سے بڑا عہدے دار یہ کہے کہ اسے دھمکیاں ملی ہیں اور دھمکیاں دینے والے آزاد پھر رہے ہوں ۔ اب اگر میں ایک عام شہری ک طور پر یہ رپورٹ درج کروانے جاﺅںکہ مجھے دھمکیاں دی جا رہی ہیں تو یقینا تھانیدار یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ یہاں تو رحمن ملک کو دھمکیاں دینے والوں کو کوئی نہیں پکڑ سکا تم کس کھیت کی مولی ہو؟

میں نے دو تین بیانات کا ذکراس لئے کیا ہے کہ آپ کو اندازہ ہو سکے ورنہ اخبارات کا ریکارڈ چیک کر لیں آپ کو علم ہو جائے گا کہ ملک صاحب کے کھاتے میں ایسے ہی کئی بیانات موجود ہیں ۔ انہیں احساس تک نہیں کہ لوگ ان بیانات پر ہنستے اور مذاق اڑاتے ہیں کہ انہیں اتنی بھی خبر نہیں کہ میڈیا پر کیا بیان دینا ہے اور کون سابیان سکیورٹی رسک یا” حساس معلومات “ کے زمرے میں آتا ہے۔ ملک صاحب اکثر معاملات میں یہ تو کہتے ہیں کہ وقت آنے پر بتاﺅں گا لیکن انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ بہت کچھ وقت سے قبل بتاتے جا رہے ہیں ۔ کاش ان کی توجہ موبائل سروس جام کرنے کی بجائے دہشت گرد پکڑنے پر مرکوز ہوتی اور حساس معاملات پر بچگانہ بیانات دینے پر کوئی بزرگ ان کے کان کھینچتے ہوئے کہتا:ملک صاحب ۔۔۔سدھر جائیں!!
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 49699 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.