پرانے شکاری نیا جال

محنت کش نوردین کے کوارٹر میں اس کی بیٹی مریم کی دوسری برتھ ڈے کے سلسلہ میں تیاریاں جاری ہیں کیونکہ محلے والے بھی اپنے بچوں کواتناپیارکرتے ہیں جتنا محلات والے اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیںلیکن محلے اورمحلات کی دنیا ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔محلے اورمحلات میں زندگی گزارنے والے انسانوں کے درمیان فرق اورفاصلہ کبھی نہیں مٹ سکتا۔نوردین کے اہل خانہ کے چہرے پژمردہ ہونے کے باوجوداس وقت خوشی سے دمک رہے ہیں،انہیں بھی خوش ہونے اورخوشی منانے کاپوراحق ہے ۔ کوارٹر کوجھنڈیوں اورغبارو ں سے سجایا جارہا ہے ۔محلے کے بچے بھی وہاں موجود ہیں،آج نوردین کے کوارٹرمیںخوب رونق ہے ۔ کوارٹر سے باہرمحلے میں سیوریج بندہونے سے ہرطرف بدبوپھیل گئی ہے اور گلی کسی گندے جوہڑکامنظر پیش کررہی ہے تاہم نوردین اوراس کے اہل خانہ کواب اس ماحول کی عادت ہوگئی ہے کیونکہ یہ لوگ اسی ماحول میں پیداہوتے اورمرجاتے ہیں ۔نوردین اس وقت چھ برس کاتھا جب وہ اپنے ماں باپ کے ہمراہ ڈسٹرکٹ ننکانہ صاحب کے ایک سرسبز گاﺅں کوٹلہ کاہلواں سے شہرکی اس پسماندہ آبادی میں منتقل ہوا تھا،وہ پڑھنالکھناچاہتا تھامگراس کے باپ کی محدودآمدنی نے اس کایہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا ۔نوردین کاان پڑھ باپ بھی محنت مزدوری کرتے کرتے موت کی ابدی نیندسو گیا اوراپنے باپ کی طرح نوردین بھی دوسروں کابوجھ اٹھاتے اٹھاتے اورسرمایہ داروں کیلئے محلات تعمیرکرتے کرتے ایک دن مرجائے گااوراس کے محلے سے مزید کئی نوردین کتاب اورقلم کی دنیا سے دورمحنت مشقت کرتے کرتے مرجائیں گے کیونکہ ان کامقدرامیرشہرنے لکھا ہے۔ ان بیچاروں کی حالت زار اورسرمایہ داروں کی سوچ شایدکبھی نہیں بدلے گی کیونکہ محلات والے محض اپنے اقتداراورصنعتی اداروں کیلئے بیچارے محلے والوں کواستعمال اوران کااستحصال کرتے ہیں۔ہمارے ہاں سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کی بدولت مفلس مفلس تراورامیرامیرتر ہو تے چلے گئے مگرکسی فوجی یا سرمایہ دارسیاسی حکمران نے اس رجحان کاسدباب نہیں کیا ۔ڈالراورپاﺅنڈ کے مقابلے میں پاکستان کے روپے کی قدرمیں روزبروزکمی کے پیچھے بھی ہمارے سرمایہ دارحکمران اورسیاتدان ملوث ہیں کیونکہ ان میں سے زیادہ ترکاسرمایہ اورکاروبارامریکہ ،کینیڈا،برطانیہ اوریورپ سمیت مختلف بیرونی ملکوں میں ہے اورانہیں پاکستان کے روپے کی قدرمیں کمی سے نقصان بلکہ الٹافائدہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ڈالراورپاﺅنڈمیں کاروبارکرتے ہیں ۔

پسماندگی اورناخواندگی آج بھی ہرمحلے کا مقدر ہے جبکہ محلات والے اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کیلئے انہیں دنیا کے مہنگے ترین اوراعلیٰ سے اعلیٰ معیار کے حامل تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں جہاں سے وہ اقتدارمیں آنے ،اپنے کالے دھن کوسفیدکرنے ،عوام اوراداروں کویرغمال بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے اقتدارکوطول دینے کا طریقہ کار سیکھتے ہیں ۔جس وقت پاکستان کے عام طالبعلم مختلف سیاسی پارٹیوں کی احتجاجی تحریک کوکامیاب بنانے کیلئے کلاسز کابائیکاٹ کرکے سڑکوں پرآنسوگیس اورلاٹھی چارج کاسامنا کررہے ہوتے ہیں اس وقت سرمایہ دار،جاگیرداراورصنعتکارسیاستدانوں کے بچے بیرون ملک جدید تعلیم کے حصول میں مصروف ہوتے ہیںاوروطن واپسی پربراہ راست اعلیٰ سرکاری عہدوں پریا انتخابات میں دھونس دھاندلی سے جیت کراقتدار کے ایوانوں میں جابیٹھتے ہیں جبکہ عام لوگ اوران کے بچے زندگی بھرقطاروں میں کھڑے ہوکر ووٹ کی پرچی پرمہرلگاتے لگاتے اورجمہوریت کے ثمرات کاانتظار کرتے کرتے زندگی کی بازی ہارجاتے ہیں ۔معذرت چاہتاہوں میں نوردین کی محرومیوں کانوحہ لکھتے لکھتے محلے سے محلات کی طرف نکل آیا ،نوردین کی چھندی بیٹی مریم نے کیک کاٹنے کیلئے چھری اٹھائی توبجلی چلی گئی اورپورے محلے پراندھیرے نے چادرتان لی۔اس دوران اچانک کچھ بڑی گاڑیوں کاایک قافلہ محلے کے پاس آکررک گیا، نفیس اورسفیدلباس والے افرادگاڑیوں سے اتر کرنوردین کے گھر کی طرف چل پڑے ،ان کے ہمراہ کچھ مسلح افراد بھی ہیں ۔گاڑیوںسے اترنے والے افرادگندے پا نی اوربدبودارماحول میں سے ہوتے ہوئے نوردین کے دروازے پرپہنچ کررک گئے اوران میں سے ایک مسلح نوجوان نے نوردین کے کوارٹرکادروازہ کھٹکھٹایااورساتھ اسے آوازدی ،کوارٹر کے اندرگہرااندھیرا ہے مگرنوردین کی آنکھیں روشن ہیں اوروہ آوازسن کردروازے پرآگیا جہاں کافی لوگ اس کے منتظر ہیں ،نوردین اچانک اپنے کورٹرکی دہلیز پرمتعددمسلح افرادکودیکھ کرگھبراگیا مگردوسرے لمحے ان میں سے ایک شخص نے نوردین کواپنے سینے سے لگالیا اوراس کے باپ کی موت پراظہارافسوس کرناشروع کردیا جوتین برس قبل انتقال کرگیا تھا ،اس شخص کی اچانک تعزیت نے نودین کا پرانا زخم تازہ کردیا اوراس کی آنکھوں کاپیمانہ چھلک پڑامگروہ نم آنکھوں کے ساتھ ان افرادکواپنے کوارٹر کے اندرلے گیا اوران کی حاطرمدارت کی ۔ان افراد نے دوران گفتگو نوردین اوراس کے اہل خانہ کو اپنے آنے کامقصد بتایا اوران سے الیکشن میںووٹ دینے کی درخواست کی اوران کے محلے کے بنیادی مسائل کے سدباب کاوعدہ کیا ۔نوردین نے اپنے بڑے بیٹے کے استفسار پراسے بتایا کہ آنیوالے افرادمیں سے دو ہمارے حلقہ سے منتخب ہونیوالے ارکان اسمبلی تھے ،ان میں سے ایک سابق ایم این اے اوردوسراسابق ایم پی اے تھا مگرپچھلے الیکشن میں بھی یہ صرف ایک بارانتخابی مہم کے دوران ہمارے محلے میں آئے تھے اوراس وقت بھی ہماری گلی کاسیوریج بند تھا،انہوں نے اس وقت بھی بڑے بڑے عہدوپیمااوروعدے کئے تھے مگرہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے کے بعد پورے پانچ سال تک ہماری آبادی اورہمارے محلے کیلئے کچھ نہیں کیاہم لوگ کئی باراکٹھے ہوکراپنے مختلف مسائل کے سلسلہ میں ان کے محلات کادروازہ کھٹکھٹایا بہت دہائی دی مگران دونوں نے کبھی ہم سے ملنا اورہمارے زخموں پرمرہم رکھناگوارہ نہیں کیا،ہم مفلس ہونے کے باوجوداپنے دل اور ا پنی جھونپڑیوں کے دروازے ان امیروں کیلئے کھول دیتے ہیں،ان کوعزت سے اپنے گھرمیں بٹھاتے ہیں مگر انہوں نے کبھی ہمیں قومی وسائل میں سے ہمارا حق نہیں دیا،انہیں بحیثیت انسان ہماری نہیں بلکہ صرف ہمارے ووٹ کی ضرورت ہے۔ جس وقت تمہارے داداکاجنازہ اداکیا جارہا تھا تویہ شخص اس وقت جنازہ گاہ کے نزدیک ایک جلسہ عام سے خطاب کررہا تھا مگرمعلوم ہونے کے باوجود نہ یہ جنازے میں شریک ہوا اورنہ تین برس تک کبھی افسوس کیلئے ہمارے ہاں آیاجبکہ اب انتخابات کااعلان ہونے پریہ ووٹوں کی خاطر ہمارے ہاں اظہارافسوس کیلئے آگیا، نوردین کے بیٹے کویہ سب کچھ سن کرشدیدغصہ آگیا اوراس نے کہا اگرمحلات میں پیداہونے اورپرورش پانے والے سرمایہ دار،وڈیرے ،سرداراورصنعتکار ہماری خوشی غمی میں شریک نہیں ہوسکتے اورجو ہمارے گلی محلے کے مسائل کاسدباب نہیں کرسکتے ہم انہیں آئندہ ووٹ نہیں دیں گے اوراپنے محلے یاآبادی سے کوئی ایماندار،باضمیراورباکردارفرد نمائندگی کیلئے تلاش کرتے ہیں ۔اس نے کہا یہ سرمایہ دارسیاستدان پرانے شکاری ہیں جوہرالیکشن میں عوام کیلئے نیا جال بناتے اور بچھاتے ہیں اورہم لوگ باآسانی ان کے اقتدارکی سیڑھی بن جاتے ہیں ۔ہم انہیں اپنے کندھوں پراٹھاتے اوران کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں مگران کے نزدیک ہماری حیثیت پاﺅں کے جوتے سے زیادہ نہیں ہے،اوریہ کہتے ہوئے نوردین کا بیٹااپنے باپ سے لپٹ کررونے لگا۔

ہمارے ہاں سیاسی پارٹیاں ہرنیا الیکشن آنے پراپنااپنا پارٹی منشور بناتی یعنی ایک طرح سے ووٹرز کیلئے نیا جال بچھاتی ہیں،عوام کوووٹ کی پرچی پرمہرلگاتے ہوئے صرف چندمنٹ کاوقت لگتا ہے مگران کے ووٹوں سے منتخب ہونیوالے نمائندوں کوپانچ برس تک اپنے ووٹرزکے خون سے پیاس بجھانے،ان کے ووٹوں کی قیمت وصول اورقومی وسائل پرہاتھ صاف کرنے کاوقت مل جاتا ہے۔گندے جوہڑوں میں پرورش پانے اورخون پینے والی جونک بھی اپنا پیٹ بھرجانے کے بعدکسی انسان یاحیوان کا مزیدخون نہیں چو ستی مگرہمارے حکمران طبقے کی چھ دہائیوں میں پیاس بجھی اورنہ ان کی بھوک مٹتی ہے۔ اقتدارمیں آنے کے بعد حکمرا ن جماعت کے انتخابی منشور پرایک فیصدبھی عمل نہیں کیا جاتا،ہمارے ہاں انتخابی منشورمحض ایک رسمی کاروائی،سیاسی ضرورت کے تحت یاپھرمحض عواام کوبیوقوف بنانے کیلئے تیارکیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں دستور،جمہوراورمنشورصرف سرمایہ دارسیاستدانوں کے ہاتھوں کاکھلونا ہیں۔ایک بارپریس کانفرنس کرنے کے بعدپارٹی سربراہان کوبھی اپناانتخابی منشوریادنہیں رہتا ۔الیکشن کیلئے پارٹی ٹکٹ دینے کیلئے ہرکسی کودرخواست کے ہمراہ ناقابل واپسی بھاری فیس اداکرناپڑتی ہے مگراس کے باوجود ٹکٹ دینے یانہ دینے کااختیارصرف پارٹی لیڈراوراس کے معتمدساتھیوں کی صوابدید پرہوتا ہے اوریوںٹکٹ کے خواہشمند افراد کی درخواستوں کے ساتھ کروڑوں روپے پارٹی لیڈرزکے نجی اکاﺅنٹ میں چلے جاتے ہیں اوران رقوم کاآج تک کبھی آڈٹ نہیں ہوا اورپھرانٹرویوزکے بعدجس جس امیدوار کوحتمی طورپرپارٹی ٹکٹ دے دیا جاتا ہے اس سے پارٹی کے الیکشن فنڈزکے نام پرمزیدکروڑوں روپے نقدوصول کئے جاتے ہیں اوریہ بھی پارٹی لیڈرزکے نجی بنک اکاﺅنٹ میں چلے جاتے ہیں اوراس پیسے سے ایک پھوٹی کوڑی بھی کسی ٹیکس کی مدمیں قومی خزانے میں نہیں جاتی ،بڑی سیاسی پارٹیوں کیلئے سیاست اورانتخابات ایک منفعت بخش کاروبار ہے۔چندایک کے سوازیادہ ترپرانے چہرے مگرسیاسی پارٹیوں کے وعدے اوربلندبانگ دعوے ہربارنئے ہوتے ہیں جوآج تک وفانہیںہوئے مگرانہیں بار بارآزمانے اوران کے ہاتھوں ''ماموں''بننے کے باوجودعوام پھر ان کی لچھے دارباتوں میں آجاتے ہیں۔ہمارے سیاستدان اس قدرشاطر نہیں ہیں جس قدرہماری قو م بھولی اوربیوقوف ہے ۔ہرالیکشن کیلئے سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد بناتی اورتوڑتی ہیں مگران سیاسی پارٹیوں نے کبھی عوام کومتحد کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی کیونکہ اہل سیاست کیلئے منتشر عوام کواستعمال اوران کااستحصال کرنااوربے زبان جانوروں کی طرح ہانک کرپولنگ سٹیشنوں تک لے جانااورووٹ کی پرچی پراپنے مخصوص پارٹی نشان پرمہرلگوانا بیحدآسان ہے۔جوں جوں الیکشن نزدیک آرہے ہیں توں توں موسمی پرندوں کی ''اڑان ''میں تیزی آگئی ہے ۔یہ پرندے ایک سیاسی پارٹی کی شاخ سے اڑ کردوسری پارٹیوں کی منڈیروں پربیٹھ رہے ہیں ، عوام کے سواہرکسی کواپنامطلب اورمفادعزیز ہے ۔ اگرعوام کوشعبدہ بازاورسرمایہ دارسیاستدانوں کے ہاتھوںاستعمال ہونے میں مزاآتا ہے توان کی مرضی ،اللہ کرے اس بارشہری مختلف سیاسی پارٹیوں کے نامزد ''کھمبوں '' اور''انجنوں''کی بجائے امیدواروں کوان کی ذاتی قابلیت اوراہلیت کی بنیاد پرووٹ دیں اورووٹ کی پرچی سے سرمایہ دارانہ نظام جمہوریت کے پرخچے اڑادیں ورنہ محلے والے کسی صورت محلات والوں کی غلامی سے آزاد نہیں ہوں گے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126813 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.