خوف آتا ہے

شہر کر اچی کا ہر فر د سہما ہو اڈرا ہو ادکھا ئی دے رہا ہے یو ں محسوس ہو تا ہے گو یا دشمن کے نر غے میں ہیں قا بض فوج فاتح کی طرح قتل عام کر رہی ہے اگر ایسا ہوتا تو ہم اپنے مقدر کا لکھا سمجھ کر صبر کر لیتے کہ آخر دہلی بھی تو سات بار لٹی تھی نا در شاہ نے وہا ں پر پا نچ روز تک قتل عام کا حکم صادر کر ایا تھا۔ لیکن ! یہا ں تو اپنے ہی اپنے گھر کو آگ لگا تے اپنے ہی گھر کے چراغ ہیں یہ ہمارے ہم وطن اور مسلما ن ہیں ۔کراچی میں آگ و خون کا کھیل پھر اپنے عروج پر ہے اربا ب اختیار اسے روکنے سے قا صر اور بے بس ہیں وہی سیاسی پا ر ٹیوں سے گفت وشنید اور با ہمی مفا ہمت اور تعاون کی یقین دہا نیاں ہیں تاجر بر ادری بھتہ خوروں کے ہا تھوں یر غما ل ہے سرمایہ دار، ڈا کٹرز ، استاتذہ ، انجینیرزجو اس ملک کی تر قی میں فعال کر دار ادا کر رہے ہیں اپنا کا روبار سمیٹ کر بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں آخر سب کو اپنی اور گھر والوں کی جانیں عزیز ہیں جب اس ملک کے قا نون نا فذکر نے والے ادارے انھیں تحفظ فرا ہم نہیں کر سکتے تو وہ کیوں یہاں اپنے پیا روں کی لا شے اٹھانے کا انتظار کریں ۔ رہ گئے غریب عوام تو وہ نہ وطن چھوڑ سکتے ہیں نہ اس ملک میں محنت سے روزی روٹی کما سکتے ہیں وہ بس بیرون ملک منتقل ہو نے والوں کو حسر ت سے دیکھ رہے کہ اب ہما را کیا ہو گا ہمارے روز گار کا کیا ہوگا بس کسی روز انجانی گو لی کا نشانہ بن جا نا ان کے مقدر میں لکھا ہے۔

پیا رے نبی ﷺ نے فر ما یا ”تم میں ایک زما نہ ایسا بھی آئے گا کہ جب مقتو ل کو خبر نہ ہو گی کہ اسے کیو ں قتل کیا گیا “،آج ایسے ہی زما نے سے ہم گذ ر ر ہیں ہیںیہ ہمارے لیے کسی عذا ب سے کم نہیں جب انسان کے دلو ں سے انسا ن کا احترام اٹھ جا ئے تو سمجھ لیجیے کہ عذا ب کامو سم آپہنچا ایک ہی ملک کے ایک ہی مذ ہب کے پیرو کا ر ایک ہی ملت کے امین ایک دوسرے کو خو فزدہ کر یں یا ان سے خو ف زدہ رہیں تو اس سے بڑھ کر عذاب موسم اور کیا ہو سکتا ہے ،ایک ہی وطن کے لو گ ایک دوسر ے کو بر ی نگا ہو ں سے دیکھیں کو ئی کسی کا پر سان حا ل نہ ہو تو با قی کیا رہ جا تا ہے انسان اپنے ہی دیس میں خو دکو پر دیسی محسو س کر نے لگے تو عذا ب ہے ۔ وا صف علی واصف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب زمانہ امن کا ہو اور حا لا ت جنگ جیسے ہو ں تو سمجھو عذاب ہے ،،جنا زے اٹھ رہے ہوں کند ھا دینے وا لو ں کی تعداد میں اضا فہ ہو تا جا رہا ہو ، آنکھیں نم ہو ںارد گرد جشن منا نے وا لے در ند ے ہو ں دلو ں سے مروت نکل جا ئے ایک دوسرے کا احساس ختم ہو جا ئے کیا ہم وحشی قو م ہیں کیا ہم پرکو ئی عذا ب نہیں آئے گا یو م حسا ب نہیں آئے گا مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم واقعی ظالم بے حس قوم ہیں ہما ری آنکھو ں پر نفرت کی پٹی بند ھی ہو ئی ہے ہم نے کبھی یہ سو چا کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کے لیے کیسا پا کستا ن بنا رہے ہیں ہم انھیں کیا جواب دیں گے ۔ ہم نسل، ز با ں علا قے کی بنیا دپر کب تک خون بہا تے رہیں گے یہ کیو ں بھو ل جا تے ہیں کہ جب تعصب کی ہوا چلتی ہے تو پھر انسانیت کو چ کر جا تی ہے ۔

کراچی کے با رے میں اب یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اسے مختلف لسا نی اور قومیت کے در میا ن تقسیم کر دیا گیا ہے ایک قو میت کے فرد کو دوسرے علا قے میں جا نے کی اجا زت نہیں یا اسکے لیے خطرنا ک ہے ،کر اچی ایک آتش فشا ں کاروپ دھا ر چکا ہے جس میں وقفے وقفے سے لا وا ابل کر با ہر آتا ہے تبا ہی مچا تا ہے جا نو ں کا نظرانہ و صو ل کر تا ہے اور خا موش ہو جا تا ہے ۔ان چار مہینوں میں سینکڑوں شہری جا ن سے ہا تھ دھو بیٹھے کیا یہ المیہ نہیں ؟کچھ دن امن رہتا ہے پھر وہی بگڑتی صو رتحا ل ، روز انہ گھرو ں سے کا م پر نکلنے والوں کو کو ئی امید نہیں ہوتی کہ واپس صیح سلا مت آئیں گے یا خدا نخوستہ کسی ان جا نی گو لی کا شکا ر ہو جا ئیں گے کہیں سے کو ئی انسا ن نما حیوا ن وارد ہو کئی گھرو ں کے چشم وچرا غ گل کر کے غا ئب ہو جا ئے پھر لا کھ کو شش کر یں قا تلو ں کے با رے میں کچھ پتہ نہیں لگتا ۔خانہ پر ی کے لیے بے گنا ہ لو گ پکڑے جا تے ہیں قا نو ن نا فذ کر نے والے الگ بے بس ہیں گو یاا پنے ہی ملک میں اپنے ہی لو گو ں کے ہا تھو ں ایک دوسر ے کے خو ن سے ہا تھ رنگے جا رہے ہیں ۔درجنو ں لو گو ں کی ہلا کتوں کے بعد سرکا ری مشنری حرکت میں آتی ہے تصفیہ کے لیے پا رٹیو ں کو ایک جگہ جمع کیاجاتا ہے سیا ست دا ن اپنی پا رٹی کی مظلو میت میں نعر ہ لگاتے ہیں کہ یہ سیا سی نعرے ان کی سیا سی اقتدار کو مستحکم کر تے ہیں ان کا سیاسی کا رو بار چلتا ہے ان کی فتح کا پر چم بلندہو تا ہے اور ہماری عوا م نہیں جا نتے کہ جس جگہ اور جہا ں ان کے مفا دات وا بستہ ہوں وہ اپنی قوم کو قر بانی کے لیے آگے کر دیتے ہیںیہ معصو م عوام اپنی قومیت کے زعم میں ما ری جا تی ہے تما م سیا سی پار ٹیا ں خامو ش ہیں روزانہ مرنے والوں کا تماشہ دیکھ رہی ہیںمیںسمجھتی ہو ں کہ پا کستا نی ایک قوم بن کر رہنے میں ہما ری عظمت اور بھلا ئی ہے با قی سب با تیں فضو ل ہیں ہم سب ایک پا کستا نی شہری ہیں جو صدیو ں سے مختلف تہذ یبو ں کا گہو راہ ہے،جہا ں تما م قو میت اپنا ایک ا علی مقام رکھتی ہے اس لسا نی فسادات میں ہم اپنے ہی مسلما ن بھا ئی خو ن بہا رہے ہیں ایسی خطر نا ک صو رتحا ل سے نبٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ان ٹا رگٹ کلنگ کے اصل و جو ہا ت کو تلا ش کیا جا ئے جب تک اصل مسئلہ کو حل نہیں کیا جائے گا یہ سلسلہ جا ری رہے گا اور اصل مسئلے کا حل سپریم کورٹ نے کراچی امن وامان کیس میں پیش کر دیا ہے عد التی حکم کے مطا بق کے کر اچی کے حالات خراب کر نے والے تما م دہشت گردوں کو گرفتار کیا جائے ان کو بھی جو گرفتار ہو نے کے بعد پیرول پر رہا ہو گئے تھے ۔ 1996ءسے کرا چی میں رینجرز تعنیات ہے ان کی مو جودگی کے باوجود اب تک کرا چی کا امن بحال نہیں ہو سکا اس لیے سپریم کو رٹ کا یہ فیصلہ بھی قا بل ستا ئش ہے کہ رینجرز کو ملک کی سر حدوں کی حفا ظت کے لیے وا پس بھیج دیا جا ئے پولیس کے اختیارات بڑھا ئے جا ئیں ان پر سے ہر قسم کے سیا سی دباؤ کو ختم کیا جا ئے جب قا نون نا فذ کر نے والے ادارے مضبوط ہو ں گے تو پھر امن وامان میں بہتری بھی آئے گی ۔سپریم کور ٹ کے احکاما ت سے اس شہر میں خوف و دہشت گردی کا جوراج ہے خدا کر ئے کہ اس خاتمہ ہو سکے ۔افتخار عارف کی یہ نظم ایسا لگتا ہے انھوں نے اسی شہر کے تنا ظرمیں لکھی ہو آپ کی نذر ہے۔
اس شہر و خس خاشاک سے خو ف آتا ہے
جس شہر کا وارث ہوں اس سے خوف آتا ہے
شکل بننے نہیں پا تی کہ بگڑ جا تی ہے
نئی مٹی کو چا ک سے خوف آتا ہے
وقت نے ایسے گھمائے کہ افق، آفاق کہ بس
محور گردش سفا ک سے خوف آتا ہے
یہی لمحہ تھا کہ معیار سخن ٹہرا تھا
اب لہجہ بے کاک سے خوف آتا ہے
آگ جب آگ سے ملتی ہے تو لہو دیتی ہے
خاک کو خاک کی پو شاک سے خوف آتا ہے
کبھی افلا ک سے نا لوں کے جواب آتے تھے
ان دنوں عالم افلا ک سے خوف آتا ہے
رحمت سید لو لا پہ کامل ایما ن
امت سید لو لا ک سے خوف آتا ہے۔
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 148207 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.