انقلاب یا بغاوت

قائداعظم محمد علی جناح نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں، یہ بات انہوں نے سیاسی قیادت کے حوالے سے کہی تھی۔ قدرت نے قائداعظم کو زیادہ مہلت نہیں دی ورنہ امکان تھا کہ یہ کھوٹے سکّے ان کی تربیت حاصل کرکے شاید کھرے ہو جاتے بہرحال آج اگر ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں پاکستان سیاسی تجربات کی ایک بہت بڑی لیبارٹری محسوس ہوتا ہے۔ آئین بنے، ان میں ترامیم ہوئیں، آئین مسترد ہوئے، مارشل لاءآئے اور گئے، جنگل کا قانون بھی ان کھوٹے سکوں کو نہ سُدھار سکا۔ ان کھوٹے سکوں کو دوام بخشنے کے لئے عدالت عالیہ نے ”نظریہ ضرورت“ کی اصلاح ایجاد کر ڈالی، پھر اس نظریہ ضرورت کے سہارے چور دروازے سے اقتدار پر قبضہ جمانے کا راستہ کھل گیا۔

حکمرانوں نے بنیادی جمہوریتوں سے لے کر مقامی حکومتوں تک ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے انہیں اور اُن کے اقتدار کو دوام حاصل ہوسکے۔ اس تمام عرصے میں عوام یا تو خاموش تماشائی بنی رہی یا پھر مٹھائیاں بانٹتے، بھنگڑے ڈالتے نظر آئے۔ سیاست دان ہر آمر کے فرمانبردار بن کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ایک دور بھی ایسا نظر نہیں آتا جب سیاست دانوں نے فوجی آمروں کے ساتھ مل کر اقتدار میں سے اپنا حصہ وصول نہ کیا ہو، اگر کبھی پانچ سات سال بعد انہیں جمہوریت نافذ کرنے کا موقع ملا بھی تو سیاستدانوں نے پہلے اپنی جمع پونجی میں بے تحاشہ اضافہ کرنا اپنا حق سمجھا اور پھر وہ تین سو بلین چار سو بلین ڈالر جمع کرنے کی دوڑ میں جُت گئے۔ بھولے سے بھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے پاکستانی عوام کی زندگی آسان ہو جاتی، انہیں آزادی کا ثمر ملتا، ان کے بچوں کو صحت، تعلیم اور سکون نصیب ہوتا۔

ہمارے سیاستدانوں نے بند کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کرنے کی روایت ڈالی ہوئی ہے لیکن اس میں بھی مخلصی نہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ فریب اور دھوکہ ہوتا ہے حیلے بہانوں سے عوام الناس کے جذبات بھڑکا کر چند ہزار لوگوں کو تو سڑکوں پر لے آیا جاتا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف سڑکوں پر ہائے ہائے، کتا کتا کی صدائیں بلند کرتے ہوئے انقلاب کا علم بلند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ وہ یہ نہیں جانتے ظلم کی حد سے بڑھ جانے سے انقلاب نہیں آیا کرتا کیونکہ ظلم کرنے والے کبھی ظلم سے نہ تھکیں گے اور جبر سہنے والوں کی برداشت کی آخری حد بھی کوئی نہیں۔ انسانی تاریخ کے صفحات بربریت کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں۔ لاکھوں انسانوں کی زندگیاں جنگ کی قربان گاہ پر چڑھا دی جاتی ہیں اور انقلاب کی نیند نہیں ٹوٹتی، چھوٹے معصوم بچوں کو سلاخوں پر چڑھا کر زندہ بھونا جاتا ہے اور ان کی دلدوز چیخیں انقلاب کی سماعتوں سے پھسل پھسل جاتی ہیں۔ عفت کی نگہبانی کرتی نوجوان لڑکیوں کے جسموں سے گہرے کنویں بھر جاتے ہیں اور انقلاب کروٹ تک نہیں لیتا، بھوک سے پوری پوری بستیاں ہڈیوں کے ڈھانچوں میں ڈھل جاتی ہیں اور انقلاب محو خواب رہتے ہیں۔ چیخیں، کراہیں، نعرے، دلیلیں سب بیکار ہیں۔ اس طرح نہ تو ملک سے غربت، بے روزگاری اور بے اعتمادی ختم ہو گی، نہ ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی اور نہ ہی عوام الناس کے مسائل چشمِ زدن میں حل ہو جائیں گے اور نہ ہی آزادی و خود مختاری کا ایک شاندار دور شروع ہوگا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملے گی۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی وہ ملک کے اندر افراتفری کی فضا اپنے مفاد کی خاطر قائم کئے رکھتے ہیں۔

پاکستان کے مقتدر طبقات اپنے مفادات کو خطرہ میں دیکھ کر دوبارہ شیرو شکر ہوجاتے ہیں اور اپنے اختلافات بھلا دیتے ہیں۔ آزادی سے لے کر اب تک یہی کچھ ہوتا چلا آ رہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب پاکستان کے اندر سرکاری اور غیر سرکاری تمام حلقوں میں ” علمِ بغاوت بلند “ہوتا نظر آرہا ہے۔ آج کا منظر یہ ہے کہ سوات، باجوڑ ، وزیرستان اور شمالی علاقہ جات میں مسلح قبائل، جنگجو اور وار لارڈز چھوٹے بڑے سردار سب کے سب علمِ بغاوت بلند کئے ہوئے ہیں۔ کراچی جیسا عظیم شہر جو پاکستان کی مالیاتی شہ رگ ہے پر ایک گروہ کا مکمل کنٹرول ہے اس کی مرضی اور منشاءکے خلاف اس شہر میں چڑیا بھی پَر نہیں مار سکتی۔ بلوچستان میں کوئٹہ شہر کے اندر باغیوں کے دفاتر قائم ہیں وہ وہاں بیٹھ کر اپنے فیصلے کر رہے ہیں۔ جسے چاہتے ہیں اغواءکر لیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں قتل کر دیتے ہیں۔ آئے دن ان علاقوں سے درد ناک کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔

امریکہ اور نیٹو ممالک کی فوجیں افغانستان میں بیٹھ کر جو کارروائی کر رہی ہیں وہ سب کی سب نہیں تو ان میں سے اکثر ناقص منصوبہ بندی کی بنا پر ناکام ہو جاتی ہیں۔ جس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جاتا ہے اور پاکستان کے خلاف منصوبے بنانے، شکنجے کسنے کی باتیں کھلم کھلا کرتے ہیں۔ آج ہمالہ کے پہاڑ آتش فشاں بن چکے ہیں۔ پنجاب جو بڑا صوبہ ہے پاکستان کی شہ رگ ہے وہ بھی زخمی ہے۔ بڑی پارٹیوں کے درمیان بے اعتمادی اور ایک دوسرے کو مات دینے کے چکر میں تمام صوبوں کی کارکردگی صفر ہوچکی ہے۔ تمام سیاسی گروپ بالادستی کے خواہاں ہیں۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں ڈاکو راج ہے۔ بڑی شاہراہوں پر رات کو سفر کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔ صوبہ خیبر پختون خواہ میں گورنر کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں باقاعدہ جنگ اور امن کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ صوبائی حکومت کے وزیر خودکش حملوں کی زد میں ہیں۔ آئے دن دھماکے اور دھمکیاں سننے کو ملتی ہیں۔ عوام کی سطح پر یہاں چند ایک چھوٹی موٹی تنظیمیں ہیں یہ تنظیمیں اپنے مطالبے منوانے کے لئے راست اقدام اٹھانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین بے یقینی کا شکار ہیں، ایسے حالات میں ان کی بھی کارکردگی صفر ہو کر رہ گئی ہیں، لاءاینڈ آرڈر کا نفاذ کرنے والے محکموں کے اہلکار دہشت گردوں سے نپٹنے کی تکنیک اور تعلیم سے کوسوں دور ہیں۔

خود سوزیاں، خود کشیاں، ڈاکے اور راہ زنی کی وارداتوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہیں۔ یہ صورتِ حال ملک کو تیزی کے ساتھ انارکی کی طرف دھکیلتی چلی جا رہی ہے۔ دشمن موقع کی تلاش میں ہے، اس کے عزائم واضح ہیں اس نے اپنے ہر مرض کی دوا پاکستان کی تباہی کو قرار دیا ہوا ہے۔ ان حالات میں ہمارے حکمرانوں کو سنجیدگی سے غور کرنے اور بنیادی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ پیوند کاری سے کام نہیں چلے گا۔ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر بہت بڑے پیمانے پر عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ حکمران طبقات اور بالادست طبقات کے خلاف عوام میں اُٹھنے والی ” سچی بغاوت “کے ہاتھوں وہ محفوظ رہ سکیں گے؟
abdul razzaq wahidi
About the Author: abdul razzaq wahidi Read More Articles by abdul razzaq wahidi: 52 Articles with 81520 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.