زرداری کی ضرب بے حد کاری

پیپلزپارٹی کے کارکنوں کوان کی سیاسی کمٹمنٹ اور ضیائی آمریت کے دورمیں جہدمسلسل اورقربانیوں کے اعتراف میں'' جیالے '' کالقب دیاگیااورانہوں نے پرویزی آمریت کے دوران خودکوبجاطورپر اس خطاب کا اہل ثابت کردیا ،انہیں اپنے جیالے پن اورسیاسی جنون پرناز ہے۔ کئی دہائیوں کے بعدبھی بھٹوکافلسفہ سیاست زندہ ہے اورذوالفقارعلی بھٹو مرحوم اپنی قبرسے قومی سیاست پراورجمہوریت کی تاریخ پر راج کر رہے ہیں تویہ کہنا بیجا نہیں ہوگا۔پیپلزپارٹی کے جیالے روح کی اتھاہ گہرائیوں سے اپنے سیاسی نظریات پرثابت قدم ہیں۔غلام مصطفی جتوئی اورغلام مصطفی کھرسمیت جوبھی جیالے پیپلزپارٹی کے دھارے سے باہر نکلے وہ سیاسی طورپرقصہ پارینہ بن گئے اورپیپلزپارٹی کے نام سے اپنا اپنا دھڑابنانے کے باوجود بھٹومرحوم کے ووٹ بنک کوہتھیانے یانقب لگانے میں ناکام رہے،اب بھی سونامی سیاسی طورپرمسلم لیگ (ن)کیلئے خطرہ ہوسکتا ہے مگرپیپلزپارٹی کابندبہت مضبوط ہے ۔اسلئے صدرزرداری کا پرسکون ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے مستقبل کے حوالے سے پرامیداورپرجوش ہونافطری ہے ۔کل کیاہوگایہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا مگر پیپلزپارٹی کی خوداعتمادی اوران کے اتحادی دیکھ کرلگتا ہے وہ پھرمیدان مار لے گی ۔اگرپیپلزپارٹی دوبارہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آتی ہے تواس صورت میں آصف علی زرداری یقینا دوبارہ صدربننا پسندکریں گے کیونکہ صدر کی حیثیت سے انہیں استثنیٰ حاصل رہے گا اورپنجاب سے وزارت عظمیٰ کیلئے ان کی نگاہ انتخاب اپنے مخلص ،وفاداراورزیرک قمرزمان کائرہ پرپڑے گی اوراس بار چودھری شجاعت حسین اورچودھری پرویزالٰہی ایک اتحادی کی حیثیت سے آصف علی زرداری کے اس فیصلے کوویٹوکرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔قمرزمان کائرہ کوہرفورم اورہرایشوپربات کرنے اوراناموقف منوانے کاہنرآتا ہے اوریہ دوسرے سیاستدانوں کی طرح اپنے سیاسی مخالفین پرتنقیدکرتے ہوئے اخلاقی حدود اورپارلیمانی اقدارسے تجاوزنہیں کرتے لہٰذاان کی یہ خوبی دوسرے سیاستدانوں کیلئے قابل تقلید ہے جوایک دوسرے کے گندے کپڑے چوراہے میں دھونے بیٹھ جاتے ہیں ۔میاں منظوروٹوکوپیپلزپارٹی پنجاب کاصدرنامزدکرکے صدرزرداری نے ایک بارپھر اپنے انتخابی نشان'' تیر''سے کئی شکار کئے ہیں۔واقعی صدرزرداری کاوجودان کے دشمنوں کیلئے بڑابھاری اوران کی ضرب بیحد کاری ہے اوران کی سیاست کوسمجھنا عام سیاستدانوں کے بس کاروگ نہیں بلکہ بقول جاویدہاشمی اس کیلئے پی ایچ ڈی کرناہوگی ۔ سیاست میں وہ شخص اپنے دشمنوں پربڑا بھاری پڑتا ہے،جس کے کھانے اوردکھانے والے دانت مختلف ہوتے ہیں۔

فوجی آمر جنرل ضیاءالحق اپنے دورمیں سیاسی کارکنوں پر کوڑے برسانے اورانہیں قیدخانوں میں بندی بنانے کے باوجود پیپلزپارٹی کاصفایا کرنے میں کیوں ناکام رہا، یہ بات کھاریاں گلیانہ سے چودھری محمدنواز گجر،پیپلزپارٹی پنجاب کے سابق جنرل سیکرٹری چودھری غلا م عباس،جہلم سے پیپلزپارٹی کے سابق ایم پی اے چودھری تسنیم ناصراقبال گجر،کامونکے سے ایم پی ا ے قیصراقبال سندھوایڈووکیٹ ، کوٹلی نواب واہنڈوسے چودھری عظمت علی اورعرفان گل جبکہ لاہورکینٹ سے میاں رمضان کاپیپلزپارٹی ،بھٹوازم اورصدرزرداری کیلئے والہانہ پن دیکھ کرصاف سمجھ آجاتی ہے۔چودھری محمدنوازگجراس عمرمیں بھی پیپلزپارٹی اوراس کی قیادت پرجان چھڑکتے ہیںاوران کی قوت ارادی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے،چودھری محمدنوازگجرجب صدرآصف زرداری اور قمرزمان کائرہ کی شخصیت اورسیاست کی خوبیاں بیان کرتے ہیں توشرکاءمحفل کوبورنہیں ہونے دیتے۔چودھری غلام عباس ایک منجھے ہوئے سیاستدان اور پراعتمادشخصیت ہیں ،وقت کی گرد بھی ان کی صلاحیتوں کوزنگ آلود نہیں کرسکتی ،وہ بڑے کام کے آدمی اورپیپلزپارٹی کاقیمتی اثاثہ ہیں۔چودھری عظمت علی بھی تقریباً چا ردہائیوںسے بھٹوازم کواپنا اوڑھنابچھونابنائے ہوئے ہیں ،عرفان گل ابھی نوجوان ہے مگرپیپلزپارٹی کیلئے اس کاجذبہ صادق اورجنون قابل رشک ہے۔چودھری عظمت علی ۔اپنے قائدین کادفاع اوران کی وکالت کرتے وقت میاں رمضان کی آنکھیں میں ستاروں کی طرح روشن ہوجاتی ہیں۔پیپلزپارٹی کے ہاں چوری کھانے والے نہیں بلکہ خون بہانے والے مجنوں پائے جاتے ہیں۔جیالے سودوزیاں کی پرواہ نہیں کرتے،پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے ضیائی آمریت سے پرویزی آمریت تک کبھی اپناپارٹی پرچم سرنگو ں نہیں ہونے دیا۔

پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی دوران قید استقامت دیکھتے ہوئے پاکستان کے ایک قدآوراورنظریاتی صحافی ڈاکٹرمجیدنظامی کوانہیں مردحرکہناپڑا،آصف زرداری کیلئے مجیدنظامی کی یہ سندیقینا اہمیت کی حامل ہے۔ میں خود 3ایم پی او کے تحت ملتان جیل میں چودہ دن رہ چکاہوں، ہرقسم کی سہولیات کے باوجود جیل جیل ہوتی ہے۔ جیل سے رہائی کے بعدآصف علی زرداری کی ایک ایک کامیابی اوربالخصوص ریکارڈووٹوں سے صدرمملکت منتخب ہونے پرجہاں سیاسی پنڈت بھی حیران تھے وہاں یہ خبر ان کے سیاسی دشمنوں کیلئے پریشان کن بھی تھی ۔سیاست میں وہی کامیاب ہوتا ہے جودرست وقت پردرست فیصلے کرتا ہے ۔اگر2008ءکے انتخابات میں مسلم لیگ کے دھڑے متحد ہوجاتے تویقینا آج قومی سیاست کانقشہ بہت مختلف ہوتا ،مگراس معاملے میں ایک دھڑے کے سربراہ کی ''انا''نے بہت کچھ فناکردیامگراب ان کے پچھتانے سے کچھ نہیں ہوسکتا ۔جولوگ سیاست میں دماغ کی بجائے دل سے فیصلے کرتے ہیں تنہائی ،رسوائی اورپسپائی ان کامقدربن جاتی ہے۔سیاست میں کامیابی کیلئے ''ایک ہاتھ دوایک ہاتھ لو''کااصول اپناناپڑتا ہے ۔صدرآصف زرداری کی کامیابی کاراز''ونڈکھاﺅتے کھنڈکھاﺅ''کے محاورے میں پوشیدہ ہے ، وہ اپنے اتحادیوں کوخوش اوران کی خواہش پوری کرناجانتے ہیں ۔ٹیم ممبرز کے انتخاب کے معاملے میں بھی صدرآصف زرداری بڑے خوش نصیب اورکافی حدتک درست رہے،شاہ محمودقریشی کے سواکسی نے صدرزرداری کی رٹ چیلنج نہیں کی ۔پیپلزپارٹی کے اتحادیوں اورصدرمملکت کے معتمدساتھیوں کی بات کریںتو آصف زرداری کے پاس ہرکسی کامتبادل موجود تھا ،اگرکوئی اپنے آپ کوصدرزرداری کیلئے ناگزیرسمجھتا ہے تویہ اس کی بہت بڑی خوش فہمی یاغلط فہمی ہے ۔پیپلزپارٹی کے تین بڑے مخدوم ،مخدوم امین فہیم ،مخدوم یوسف رضاگیلانی اورمخدوم شاہ محمودقریشی میں سے کوئی بھی صدرآصف زرداری کی پیپلزپارٹی اوراقتدارپرگرفت کمزوریاانہیںبلیک میل نہیں کرپایا۔اے این پی اورمتحدہ قومی موومنٹ کوایک ساتھ لے کرچلنا اورمسلم لیگ (ن) کے روٹھ جانے کے بعدمسلم لیگ (قائداعظم) کوفوری طورپراتحادی بنانا بلاشبہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔اگرچودھری برادران اپنے مزاج کیخلاف یہ اتحادی نہ کرتے توان کے ساتھ بھی وہی ہوتاجوانہوں نے فوجی آمرپرویز مشرف کے آشیرباد سے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کیا تھا۔ کئی بارصدرزرداری بندگلی میں جاکھڑے ہوئے اوریوں لگااب ان کاقتدار نہیں رہے گامگرہرباروہ مچھلی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں سے پھسل گئے ۔یوسف رضاگیلانی کی نااہلی کے بعدایوان صدر کی مرضی سے پیپلزپارٹی نے عدالت میں سوئس حکام کولیٹر لکھنے کی حامی بھرکے سیاسی پنڈتوں سمیت سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کو بھی حیران اورپریشان کردیا۔

جس طرح صدرآصف زرداری نے اپنے کئی معتمدساتھیوں کوناراض اورنظراندازکرتے ہوئے یوسف رضاگیلانی کو وزیراعظم بنایااس پرانہیں زندگی بھر صدرآصف زرداری کاممنون ہوناچاہئے تھامگرعہدہ چھن جانے اورپانچ برس کیلئے نااہل ہونے پر الٹاوہ اپنے محسن سے ناراض لگتے ہیں اورآج کل ان کے بارے میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی افواہوں کابازارگرم ہے ،اگریہ پیپلزپارٹی میں رہے تو ان کے گلے شکوے دورہوسکتے ہیں اورانہیںدوبارہ وزیراعظم بنانے کیلئے سوچاجاسکتا ہے مگرجس جماعت میں ان کے جانے کی افواہیں گردش میں ہیں وہاں اس حوالے سے اندھیراہی اندھیرا ہے کیونکہ وہاں انہیں یاان کے دومیں سے کسی ایک بیٹے کو وفاقی یاصوبائی وزارت کے سوا کچھ نہیں ملے گااورنیاصوبہ بنانے کے حوالے سے بھی یوسف رضاگیلانی کی جدوجہدمتاثرہوگی لہٰذا میرے خیال میں وہ مستقبل قریب میں پیپلزپارٹی چھوڑنے کی غلطی نہیں کریں گے ورنہ ملتان میں شروع ترقیاتی منصوبوں کامستقبل بھی تاریک ہوجائے گا اوران کے گروپ میں سے شاید ہی کوئی ان کے ساتھ پیپلزپارٹی چھوڑنے کیلئے آمادہ ہوگا اگرانہوں نے کوئی جذباتی فیصلہ کیا تومزیدتنہااورکمزورہوجائیں گے ۔یوسف رضاگیلانی نے وزیراعظم بنائے جانے پر محض حق نمک اداکرنے کیلئے صدرزرداری کے ساتھ بھرپوروفاداری کی اوران کیلئے فداکاری تک کردی مگر ان کاانچاہوتا ہواقدخودان کیلئے خطرہ بن گیا اورانہیں منظرسے ہٹانے کے سواکوئی چارہ نہیں رہا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے شہردارمخدوم جاویدہاشمی کوبھی سیاسی طورپرقدآورہونے کی سزاملی تاہم جاویدہاشمی اپنی قیادت کے فیصلوں سے اختلاف اوران پرتنقیدکرتے تھے جبکہ یوسف رضاگیلانی نے بدعنوانی چھپانے کیلئے اپنا منصب ،وقاراور سیاسی مستقبل داﺅپرلگادیالہٰذاان کی یہ حالت زارفطری ہے۔جولوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادارہوتے ہیں ان کیلئے یوسف رضاگیلانی کاانجام ایک پیغام ہے ۔اگریوسف رضاگیلانی نے ایوان صدر کی بجائے آئین اورعدلیہ کاساتھ دیاہوتاتوآج ان کاعوام کے دل پرراج ہوتا ۔بدقسمتی سے ہمارے ہاںزیادہ ترسیاسی پارٹیوں میںکسی کوسیاسی اورانتظامی عہدہ اس کی قابلیت یا سمجھداری نہیں بلکہ محض قیادت کے ساتھ وفاداری ، اداکاری اوراس کی سرمایہ کاری کی بنیاد پردیاجاتا ہے،جولوگ پارٹی فنڈزکے نام پرقیادت پراپناسرمایہ نچھاوریادوسری صورت میں سرمایہ کاری کرتے ہیں وہ انہیں پارٹی ٹکٹ اوراسمبلی کی سیٹ کی صورت میں سودسمیت واپس مل جاتا ہے ۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126744 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.