راستے خطرناک کیسے ہوجاتے ہیں؟

آج صبح کراچی شفیق موڑ کے قریب فائرنگ ۔ دو افراد زخمی ۔ منگھوپیر میں پولیس موبائل پر فائرنگ ۔ ایک اہلکار جاں بحق دوسرا زخمی۔ بھتہ خوری ٹارگٹ کلنگ۔ ڈکیتی ۔ اور راہ زنی ۔ کراچی منی پاکستان۔ شہر قائد لہو لہو ہے۔ ایک خوف وہراس کی فضاءہے جہاں عورتیں اپنے سہاگ کی گھر واپسی تک سلامتی کی دعائیں مانگتی ہیں اور مائیں اپنے بیٹوں کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگاتی ہیں کہ بلا ضرورت گھر سے نہ نکلنا کہیں کوئی اندھی گولی ہمارا آشیانہ نہ جلا دے۔ اسی شہر کراچی سے کل ایک بچی کا خط موصول ہوا جو اتنا متاثر کن تھا کہ آنکھیں نم ہو گئیں کراچی کی ساتویں جماعت کی اس بچی کا خط اہل ِ کراچی حکمرانوں اور اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کے لئے ایک تازیانہ بھی ہے اور لمحہ فکریہ بھی ۔ اس کے سوالات کے جوابات کون دے سکے گا ۔ خط کچھ یوں ہے کہ :

پاکستان ہمارا پیارا وطن ہے۔ اس کا ہر شہر، ہر قصبہ، چپہّ چپہّ ہمیں جان سے پیارا ہے۔ لیکن ہر کسی کو اپنی جائے پیدائش سے خاص وابستگی ضرور ہوتی ہے۔اسی طرح ہمیں ”کراچی“ سے ہے۔ میرے ماں باپ اور ہم سب بھائی بہن یہیں پیدا ہوئے۔ میری امی نے کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرزکیا، میرے ابو نے این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ اب میرا بھائی بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتا تھا۔ اس کا خواب تھا کہ وہ بھی پاپا والی مادرعلمی میں داخلہ لیتا، اور شاید ایسا ہو بھی جاتا اگر ہم سے ہمارے سارے خواب چھین نہ لیے جاتے۔

باجی! آپ یقینا سوچ رہی ہوں گی کہ ہم سے ہمارے خواب چھیننے والے کون لوگ ہیں؟ ہمارے ماں باپ، جنہوں نے کراچی سے اسلام آباد نقل مکانی کی؟ نہیں.... انہوں نے تو شاید ہمیں تابناک مستقبل دینے اور روزانہ کے ڈر،خوف، اندیشوں اور بے یقینی کی فضا سے نکالنے کی ایک انتہائی بے ضرر کوشش کی ہے۔ لیکن.... اس کوشش میں ہم دونوں بہن بھائی کے مستقبل کے سارے خواب، سارے ارمان چکنا چور ہو کر رہ گئے ہیں۔ شاید اپنے مسکراتے لبوں اور دل میں گرتے آنسوﺅں کی وضاحت پوری طرح نہ کرپاﺅں اور شاید گیارہ سال کی، ساتویں جماعت کی طالبہ ہونے کی حیثیت سے یہ بات میرے منہ سے زیب بھی نہیں دیتی کہ ہمارے کراچی بدر ہونے کی وجہ کراچی کے روز بہ روز بدتر ہوتے ہوئے حالات ہیں۔

باجی! ہمارے والدین لاکھ کوشش کریں کہ ہم ٹی وی کے نیوز چینل نہ دیکھیں، اخبارات کے خبروں والے صفحات ہم سے دور رہیں تاکہ ہم اپنے شہر کے حالات سے بے خبر اور خوف و ڈر سے دور رہیں۔ لیکن.... جب صبح اسکول جانے کے وقت پر ہمیں یہ بتایا جائے کہ آج شہر کے حالات خراب ہیں لہٰذا، تمہارا سکول بند ہے۔ تو یہ ہمارا حق ہے کہ اپنے والدین سے یہ ضرور پوچھیں کہ یہ ”حالات خراب“ کیا ہوتا ہے؟ لیکن ہمارے ہر قسم کے سوالوں پر مطمئن کرنے والے ماں باپ ہم سے کہتے ہیں کہ جاﺅ، جا کر سو جاﺅ پس اسکول نہیں جانا ہے۔ یقینا ہمارے والدین ہمیں کچھ نہ بتا کر ہمیں اس ڈر اور خوف سے دوررکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے وہ خود گزررہے ہوتے ہیں لیکن باجی! آپ ہی انصاف کریں کہ کیا آگ کے دہانے پر بیٹھ کر اس کی تپش سے محفوظ رہاجاسکتا ہے؟

ہم لاکھ بچے سہی لیکن اس شہر کے اچھے اور برے، دونوں حالات ہم پر راہ راست اثرا نداز ہوتے ہیں۔ اچھے حالات والے دنوں میں ہم گھومنےجاتے تھے۔ پارک جاتے تھے، اپنے قائداعظم محمد علی جناح رحمة اللہ علیہ کے مزار پر جاتے تھے، خوش رہتے تھے اور خراب حالات والے دنوں میں ہم اسکول نہیں جاتے بلکہ کہیں بھی نہیں جاتے، بس خوف کے سائے میں رہتےتھے جس سے یقینا ہماری کارکردگی اور صلاحیت دونوں غیر محسوس طریقے سے متاثر ہوتی ہیں۔

باجی! ہمارے والدین تو شاید یہ کرسکتے تھے کہ انہوں نے ہمارے خوابوں پرہمارے مستقبل کو مقدم جانتے ہوئے نقل مکانی کرلی۔ اگرچہ اسلام آباد بھی ہمارے پیارے وطن کا ایک بہت پیارا اور بہت خوب صورت شہر ہے لیکن.... اگر یہ نقل مکانی کراچی کے حالات کی بجائے کسی اور وجہ سے ہوتی تو ہمیں بہت خوشی ہوتی۔ دوسری بات یہ کہ ہم نے تو شہر چھوڑ دیا لیکن کیا کراچی کا ہر خاندان اور ہر بچہ نقل مکانی کرسکے گا؟؟ میرے نانانانی، دادا دادی ، تمام دوست، میرا اسکول جہاں میں پہلی سے ساتویں تک تعلیم حاصل کرتی رہی؟ میرے اسکول کے راستے میں قائداعظم کا مزار آتا تھا۔ میں دن میں دو مرتبہ انتہائی پابندی سے اپنے عظیم قائد کو دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتی جاتی اور آتی تھی۔مجھے لگتا ہے، میری نقل مکانی سے قائد کی روح کو بھی صدمہ پہنچا ہوگا۔

میرے ابوکہتے ہیں کہ ”تم سوچتی بہت ہو، مت سوچا کرو۔“ مگر میں کیا کروں؟ مجھے یہ نقل مکانی اچھی نہیں لگی۔ مجھے میرے دادا یاد آتے ہیں۔ اپنا اسکول یاد آتا ہے، گلشن اقبال میں آٹھویں فلور کا اپنا اپارٹمنٹ یاد آتا ہے جہاں ہم سب دوستیں شام میں مل کرکھیلاکرتی تھیں۔

باجی! میں کیا کروں ؟؟ ہم سب کیا کریں؟؟ میرا دل بہت اداس ہے۔ ہمارے ملک کے بڑے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ کراچی کے سب لوگ کراچی اور پاکستان سے پیار کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ہم یہاں کے ہنگاموں سے متاثر ہوتے ہیں مگرایسا تو نہیں ہوسکتا کہ سارے اہل کراچی اسے چھوڑ دیںاور نقل مکانی کرلیں۔ راستہ بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا، ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ کسی بھی شہر کا سکون برباد کرنے والے وطن دوست ہرگز نہیں ہوسکتے۔

کوئی مجھے بتائے کہ کیا میرے والدین کایہ فیصلہ صحیح ہے؟ شاید کسی کا جواب مجھے مطمئن کرسکے اور میں اس خوب صورت شہر میں دل لگا سکوں جہاں میرے قائداعظم کا مزار جسے ہر روز دن میں دو مرتبہ دیکھنے کی بچپن سے عادت تھی، مجھ سے میلوں دور ہوگیا ہے۔

یہ عید میں نے دادا دادی کے بغیر منائی کہ اتنی جلدی ہمارا کراچی واپس جانا ممکن نہیں تھا۔ ہمیں یہاں آئے ہوئے ایک ماہ بھی نہیں ہوا، ابھی ہمارے داخلے بھی نہیں ہوئے لیکن، کیا میں ماما پارسی اسکول کی جگہ کسی اور اسکول کو دے سکوں گی؟؟ کیا میرا بھائی جو انتہائی ذہین ہے، میرے ابو کی مادرعلمی میں داخلہ نہیں لے پائے گا؟؟

باجی! سوالات بہت سے ہیں جو میں اپنے ابو سے کرتے ہوئے ڈرتی ہوں، جن کا موبائل ہر دوسرے مہینے چھن جاتا تھا، جن کو ہر سال دو سے زائد مرتبہ گن پوائنٹ پر ان کے والٹ سے محروم کردیا جاتا تھا جس میں ان کا ڈرائیونگ لائسنس، شناختی کارڈ، کریڈٹ کارڈ اور بہت کچھ ہوتا تھا، اور جن کا ڈوپلی کیٹ حاصل کرنے کے لیے وہ مہینوں بھاگ دوڑ کرتے تھے۔ میرے ابوروزانہ کراچی سے حب (بلوچستان) انڈسٹریل ایریا جاتے تھے جہاں ان کی دواﺅں کی فیکٹری تھی۔ ہم دونوں بہن بھائی بھی بہت دفعہ ان کے ساتھ فیکٹری گئے تھے اور ہمیں بہت مزہ آیا تھا مگر اب میرے ابو کہتے تھے کہ وہاں کا راستہ بہت خطرناک ہوگیا ہے۔ میں تمہیں نہیں لے جاسکتا۔ باجی ! یہ راستے خطرناک کیسے ہو جاتے ہیں؟؟
Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 44891 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.