کراچی کے شہریوں کی نظریں سپریم کورٹ پر

یہ لاشوں کا شہر ہے۔ یہاں ایک دن میں درجن سے زاید خاندانوں کے چراغ گل کردیے جاتے ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی گزشتہ ایک عرصے سے بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ لاقانونیت کا بازار گرام ہے۔ ہر شخص خوف کی فضا میں سانس لینے پر مجبور ہے۔ عوام عدم تحفظ کے احساس تلے زندگی گزاررہے ہیں، شہریوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، بے گناہ مارے جارہے ہیں اور قاتل دندناتے پھررہے ہیںشاید اس لئے کہ قانون نافذ کرنے کے ذمہ دارمفاہمتی پالیسی کی وجہ سے منمناتے پھر رہے ہیں حکومتی اتحادیوں کے سامنے۔

کسی کو نہیں معلوم کہ خونریزی اور قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ مزید کتنی جانیں لے گا؟ یوں معلوم ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنےو الے اداروں نے دہشت گردوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کے ان واقعات نے پورے شہر کو خوف زدہ کرکے رکھ دیا ہے۔ روشنیوں کے شہر کی رونقیں ماند اور تجارتی سرگرمیاں دم توڑ رہی ہیں۔ دکانیں اور مارکیٹیں سر شام ہی بند کردی جاتی ہیں۔ جس کے باعث ملکی معیشت کو نقصان ہورہا ہے۔

کراچی میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی کی لہر نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رواں ماہ (اکتوبر 2012ئ) کے صرف 20 دنوں میں 180 کے لگ بھگ افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ جاں بحق ہونے والے ان افراد میں وکیل، ڈاکٹر، پولیس افسر، پیپلزپارٹی، اہل سنت والجماعت، متحدہ قومی موومنٹ، اے این پی و دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔

گزشتہ پیر 15 اکتوبر 2012ءکو اہل سنت و الجماعت کے 5 کارکنوں کو دن دہاڑے نشانہ بنایا گیا جس کے بعد مذکورہ جماعت نے جمعے کے روز احتجاج کا اعلان کیا۔ بعدازاں احتجاجی مظاہرے کے بعد واپسی پر ابوالحسن اصفہانی روڈ کے قریب ان کی ریلی کو نشانہ بنایا گیا اور مزید 3 کارکن خالق حقیقی سے جا ملے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ریلی کے شرکاءپر فائرنگ کے دوران پولیس اور رینجرز کی نفری تعینات تھی جو تماشا دیکھتی رہی اور دہشت گرد فرار ہوگئے۔ جمعے ہی کے روز کلفٹن کے علاقے زمزمہ اسٹریٹ کے قریب پیپلزپارٹی کی رکن سندھ اسمبلی کلثوم چانڈیو فائرنگ سے زخمی ہوئیں۔

سوال یہ ہے کہ جو حکمران اپنی پارٹی کے رہنماﺅں اور کارکنوں کو تحفظ نہ دے سکیں،وہ دوسروں کی جان و مال کی کیا حفاظت کریں گے؟ شہریوں کی حفاظت پر مامور پولیس خود دہشت گردوں کے نرغے میں ہے وہ عوام کو کیسے بچائیں گے؟ یہ صورت حال انتہائی سنگین ہے جس کا سد باب کیا جانا ضروری ہے ورنہ کراچی کی خاموش جنگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی پھر صورت حال کو کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔

یہاں قابل ذکر امر یہ ہے کہ سوات میں نشانہ بننے والی ملالہ پر حملہ کے بعد شمالی وزیرستان میں آپریشن کی تیاریاں کی جارہی ہیں، شمالی وزیرستان پر فوجی آپریشن کے سائے منڈلارہے ہیں۔ تمام علاقوںمیں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کرکے علاقے کی کڑی نگرانی شروع کردی گئی ہے۔ ملالہ پر حملہ قابل مذمت ہے اور کوئی ذی شعور اس کی اجازت نہیں دے سکتا مگر کیا صرف ملالہ ہی ایک انسان ہے جس کے لیے الیکٹرانک میڈیا اور تمام سیاست دانوں نے آسمان سر پر اٹھالیا؟ کیا کراچی میں روزانہ 10 سے 15 افراد دہشت گردوں کی درندگی کا شکار نہیں ہوتے؟ اہل سنت و الجماعت سے تعلق رکھنے والے 4 بھائیوں کو ایک ساتھ مارا گیا، ان کے خاندان کو اجاڑنے پر میڈیا نے واویلا کیوں نہیں مچایا؟ کیا وہ انسان نہیں تھے یا پھر ان کا خون اتنا سستا تھا کہ میڈیا نے ان کے حق میں آواز اٹھانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا مطالبہ کرنے والوں سے صرف ایک سوال ہے کہ ملالہ پر حملہ سوات میں ہوا تو آپریشن کا مطالبہ شمالی وزیرستان میں، آخر کیا معنی رکھتا ہے اور جہاں آپریشن کی ضرورت ہے، جہاں کے باسی ہر لمحہ خوف کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جہاں روزانہ درجن بھر لاشیں گرانا معمول ہے، وہاں کیوں آپریشن نہیں کیا جاتا؟ کیا کراچی حکومتی عمل داری میںنہیں آتا جو سیاست دانوں سمیت میڈیا نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ حالاں کہ کراچی کے تاجر بدامنی کے بڑھتے واقعات سے اتنے پریشان ہیں کہ وہ براہ راست فوج کو آپریشن کی دعوت دے رہے ہیں۔ وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت نے کراچی میں جاری خونریزی و دہشت گردی کو ختم کرنے اور شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کے لیے فوجی آپریشن کا مطالبہ کردیا ہے۔ اس صورت حال پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ تاجر حکومت سے مایوس ہوچکے ہیں، جب ہی وہ براہ راست آرمی چیف سے مداخلت کرنے اور صورت حال کنٹرول کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

اگر حکومت واقعتا اپنی رٹ بحال کرنے اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے جارہی ہے تو دہشت گرد کراچی میں روزانہ حکومتی رٹ کی دھجیاں بکھیرنے اور قانون کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ اس صوت حال پر حکمرانوں، سیاست دانوں، صحافیوں اور نام نہاد این جی اوز نے خاموشی کا لبادہ کیوں اوڑھا ہوا ہے؟ کیا یہ ان کی دوغلی پالیسیوں اور دہرے رویے پر دلیل نہیں؟

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران امریکی دباﺅ پر فیصلے کررہے ہیں جب یہ لوگوں کو تحفظ نہ دے سکیں، جب یہ اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے تو پھر سپریم کورٹ نوٹس لیتی ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ عدالت انتظامی معاملات میں مداخلت کررہی ہے۔ سپریم کورٹ کا 6 رکنی بنچ کراچی بدامنی از خود نوٹس کیس کی سماعت 23 اکتوبر کو کرے گا، اس بنچ کی سربراہی چیف جسٹس کررہے ہیں، یہ بنچ عدالت کے احکامات پر عمل درآمد کا جائزہ لے گا۔ شہریوں نے اپنی تمام توقعات سپریم کورٹ سے وابستہ کرلی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی میں قیام امن کے لیے سپریم کورٹ اپنے دیے گئے احکامات پر عمل درآمد کیسے کرواتی ہے اور کیا عدالت کے نوٹس سے کراچی میں قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا؟
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 77762 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.