پانچ چور

ہندوستان کا مشہور بادشاہ سلطان محمود غزنوی اکثر راتوں کو چھپ کر گشت کیا کرتا تھا تاکہ رعایا کے بارے میں صحیح حقائق سامنے آسکیں۔ ایک رات محمود غزنوی عام لباس میں تنہا گشت کرنے نکلا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ ایک چوروں کا گروہ ، جو آپس میں صلاح و مشورہ کررہا تھا۔ ان چوروں نے سلطان محمود غزنوی کو دیکھ دریافت کیا کہ اے شخص تو کون ہے اور یہاں کیا کررہا ہے ۔ سلطان نے کہا بھائی میں بھی تم میں ہی میں سے ایک ہوں۔ گروہ کے لوگ سمجھے کہ یہ بھی کوئی چور ہے لہٰذا اس کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیااور آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے۔ آخر کار طے یہ پایا کہ ہر ایک فرد اپنی اپنی صلاحیتوں کے بارے میں تفصیل بتائے تاکہ اس کی صلاحیتوں کے مطابق اسے کام سونپا جائے۔

پہلے نے کہا جناب میرے کانوں میں ایسی خاصیت ہے کہ کتا اپنی زبان میں جو کچھ بھی کہتا ہے مےں سب سمجھ لیتا ہوں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ دوسرے نے کہا میرے آنکھوں میں ایسی طاقت اور خاصیت ہے کہ میں جس شخص کو رات کے اندھیرے میں ایک دفعہ دیکھ لوں ، دن کے اجالے میں اسے پہچان لیتا ہوں۔تیسرے نے کہا کہ میرے دونوں بازﺅں میں ایسی قوت اور خاصیت ہے کہ ہاتھوں سے نقب لگالیتا ہوں یعنی مضبوط سے مضبوط دیوار میں ہاتھوں سے سوراخ کرلیتا ہوں۔ چوتھے نے اپنی خاصیت بتاتے ہوئے کہا کہ مجھ میں یہ صلاحیت ہے کہ میں ناک سے مٹی سونگھ کر بتادیتا ہوں کہ اس جگہ خزانہ دفن ہے یا نہیں۔ پانچواں شخص نے اپنی صلاحیت بتاتے ہوئے کہا کہ میرے پنجے میں ایسی قوت ہے کہ اونچی سے اونچی عمارت میں اپنے پنجے کی قوت سے کمند کو لگادیتا ہوں اور آسانی سے اس عمارت میں داخل ہوجاتا ہوں۔

پھر ان سب چوروں نے مل سلطان سے پوچھا کہ اے شخص تیرے اندر کیا خاصیت ہے جس چوری کرنے میں مدد مل سکے، سلطان نے کہا کہ میری داڑھی میں ایسی خاصیت ہے کہ جب سزائے موت پانے والے مجرموں کو جلّاد کے حوالے کردیا جاتا ہے تو اگر اس وقت میں اپنی داڑھی ہلادوں تو مجرم کو رہائی مل جاتی ہے۔

یہ سن کر تمام چور بولے تم تو ہمارے بہت ہی کام کے آدمی ہو۔ ہم سب کے پاس ایسی صلاحیتیں تو موجود ہیںجن کی مدد سے ہم کامیابی سے چوری کرسکتے ہیں لیکن سزا کے خطرے سے بچنے کا کوئی طریقہ ہمارے پاس نہیں تھا۔ اب تمہاری وجہ سے یہ خطرہ بھی ختم ہوگیا۔ اس صلاح و مشورے کے بعد ان سب نے شاہی محل کا رخ کیا ، سلطان بھی ان کے ہمراہ ہوگیا۔

راستہ میں کتے کے بھونکنے کی آواز آئی تو کتّے کی آواز سمجھنے والے نے کہا کہ کتّا کہہ رہا ہے تمہارے ساتھ بادشاہ بھی ہے لیکن چوروں نے اس بات کی طرف دھیان نہیں دیا کیونکہ لالچ عقل پر دہ ڈال دیتا ہے۔

دوسرے چور نے مٹی سونگھ کر بتادیا کہ خزانہ یہاں ہے، تیسرے نے کمند پھینکی اور سب شاہی محل میں داخل ہوگئے۔ نقب زن چور نے دیوار میں سوراخ کیا اور خزانہ چوری کرکے آپس میں تقسیم کرلیا اور اپنی اپنی قیام گاہوں پر چلے گئے۔ سلطان نے ہر ایک کا حلیہ اور انکی رہائش گاہوں کو اپنے ذہن میں محفوظ کرلیااور خود کو ان سے چھپا کر شاہی محل میں واپس چلا گیا۔

دوسرے دن سلطان نے دربار میں رات کا تمام واقعہ بیان کرکے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ان چوروں کو گرفتار کرلو اور قتل کی سزا سنادو۔ جب یہ تمام چور شاہی عدالت میں حاضر ہوئے تو خوف سے کانپنے لگے ، لیکن وہ چور جس اندر یہ صلاحیت تھی کہ جسکو رات کے اندھیرے میں دیکھ لیتا تھا دن اسے بلا شک و شبہ کے پہچان لیتا تھا ، بہت مطمئین تھا ۔ اس کے چہرے پر خوف کے ساتھ اس امید کے بھی آثار تھے کہ ہم مجرم تو ہیں لیکن سلطان کی داڑھی ہل جائے گی تو ہمیں چھوڑ دیا جائے گا۔

اس شخص کا چہرہ ڈر و خوف اور امید سے کبھی زرد اور کبھی سرخ ہورہا تھا کہ سلطان محمود غزنوی نے حکم دیا کہ ان کو پھانسی پر لٹکادو، کیونکہ ان کی چوری کا خود سلطان عینی گواہ ہے۔ یہ سننے کے بعد اس چور نے ہمت کرکے ادب سے عرض کیا کہ اگراجازت ہو تو ایک گزارش عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اس کو اجازت دیدی گئی تو اس نے کہا حضور! ہم میں سے ہر ایک نے اپنی مجرمانہ صلاحیتوں کو پورا کرکے دکھادیا۔میں نے آپ کو پہچان لیا ہے۔ اے سلطان! آپ اپنی داڑھی ہلادیجئے تاکہ ہم اپنے جرم کی سزا سے بچ جائیں۔ہماری صلاحیتوں نے تو ہمیں پھانسی تک پہنچادیا ہے۔ اب صرف آپ کی صلاحیت ہی ہمیں اس سزا سے بچا سکتی ہے برائے کرم جلدی سے اپنی داڑھی کو ہلائیے اور اپنی داڑھی کی خاصیت سے ہم کو بچالیجئے۔

ان چوروں کی فریاد اور خوف سے سلطان محمود غزنوی کے دل میں رحم جوش مارنے لگا تو مسکرایا اور بولا تم سب نے اپنی اپنی صلاحیتیں دکھادیں اور تمہاری صلاحیتوں نے تمہاری گردنیں تختہ دار تک پہنچادیں۔ لیکن اس شخص کی وجہ سے تم سب کو رہا کرنے کا حکم دیتا ہوںکیونکہ اس شخص نے مجھے پہچان لیا ہے مجھے اس کی پہچاننے والی آنکھ سے شرم آتی ہے لہٰذا میں کیوں نہ اپنی داڑھی والی خصوصیت ظاہر کروں۔

اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے لیکن یہ صلاحیتیں اگر اچھے اور تعمیری کاموں میں صرف کی جائیں تو انسان دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کرلیتا ہے اور دوسرے انسانوں کو بھی اس کی ذات سے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ان صلاحیتوں کو برے اور تخریبی کاموں میں صرف کیا جائے تو انسان ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے اور کوئی بھی اسے اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا۔
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 303805 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.