''جنرل نیازی'' مردم یدان اور غازی

ہمارے ہاں دوطرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ایک وہ جواپنے عہدے اورعہد پربوجھ ہوتے ہیں اوردوسرے وہ جن کیلئے عہدہ ایک بوجھ ہوتاہے تاہم عہدحاضر میںدوسری قسم کے لوگ ناپیدہیں۔تخت وتاج سے بے نیازکچھ لوگ اپنے مزاج کے حوالے سے شہنشاہ ہوتے ہیں خواہ وہ وحدت روڈپر دس مرلے کے کوارٹرمیں کیوں نہ رہتے ہوں اورکچھ لوگ فطری طورپربھکاری ہوتے اوردوسروں کے مال کومیلی نگاہ سے دیکھتے ہیں خواہ وہ بڑے بڑے محلات میں رہتے ہوں،ڈاکٹراجمل نیازی ایک درویش اوردبنگ انسان ہے۔ان میںمدبراورمقررکے تمام اوصاف پائے جاتے ہیں ،آپ کوان کی تحریروںاورتقریروںمیں مولاناعبدالستارخان نیازی کی سوچ اورمنفرداسلوب کے شاعر منیرنیازی کی خوشبوملے گی،سرکار ی ملازمت ان کیلئے بوجھ بن گئی تھی جوانہوں نے اپنے کندھوں سے اتاردیا،اب بھی وہ بے نیازی اوربیقراری سے لکھتے ہیں اورانہیں پڑھنے والے سرشاری کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں ۔ بزرگ سیاستدان معراج خالد مرحوم کیلئے وزارت عظمیٰ کامنصب بلاشبہ بوجھ تھا جبکہ ان کے بعدآنیوالے کئی وز رائے اعظم اس آئینی عہدے کیلئے کسی بوجھ کی طرح تھے۔سنا ہے کچھ محب وطن لوگ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کوصدرمملکت بنانا چاہتے ہیں ،میں پورے وثوق سے کہتا ہوں اگروہ صدرمملکت منتخب ہوئے توصدارت کامنصب ان کیلئے ایک بھاری بوجھ بن جائے گاجس طرح جسٹس (ر)محمدرفیق تارڑکیلئے صدرات کااعلیٰ ترین عہدہ ایک بوجھ تھا،بلاشبہ جسٹس (ر)محمدرفیق تارڑ کوان کی قابلیت،کمٹمنٹ اوراہلیت کی بنیادپرصدرمنتخب کیا گیا تھامگروہ آج بھی شریف خاندان کے احسان مند اوران کے ساتھ مخلص ہیں۔پرویز ی آمریت سے نجات اوربحالی جمہوریت کے بعدجاویدہاشمی کومسلم لیگ (ن)میں وہ مقام نہیں دیاگیا جس کے وہ مستحق تھے لہٰذا انہوں نے انتقاماً مسلم لیگ (ن) چھوڑدی تاہم اب اس بات کافیصلہ وقت کرے گاانہوں نے یہ انتقام میاں نوازشریف سے لیا ہے یاوہ اپنے آپ سے انتقام لے رہے ہیں۔کچھ سیاسی پنڈت چودھری نثارعلی خان کواپوزیشن لیڈر کے منصب پربوجھ سمجھتے ہیں،ان کے نزدیک اس منصب پرجاویدہاشمی کاحق تھا۔سیاست میں غلط وقت پرغلط فیصلے اورغلط شخصیت کے انتخاب سے سب کچھ بربادہوجاتا ہے۔

سینیٹرمشاہداللہ خان کی بھی ایک ٹاک شو کے دوران کوئی ادا ان کی قیادت کوپسندآگئی تھی جس کے نتیجہ میں باوفااورباصفاصدیق الفاروق کوہٹاکرانہیں مسلم لیگ (ن) کامرکزی سیکرٹری اطلاعات بنادیا گیاجومیرے نزدیک اس عہدے کیلئے ایک غلط انتخاب ہیں۔میں کئی نامی گرامی سیاستدانوں کوجانتا ہوں جوتنقیداورتوہین کے درمیان فرق نہیں کرسکتے اورکچھ سیاستدان توتنقیدکرنے کی بجائے مخصوص جھگڑالو عورتوں کی طرح طعنہ بازی شروع کردیتے ہیں۔کچھ سیاستدان اپنے ساتھیوں کی کمٹمنٹ اوران کاکام پسند کرتے ہیں اورکچھ کواپنے درباریوں کی حدسے زیادہ خوشامدمیں مزاآتاہے ۔مشاہداللہ خان نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ''عمران خان کی بڑھکیں بھی ٹائیگرنیازی کی طرح ثابت ہوں گی،ان میں اورجنرل نیازی میں کوئی فرق نہیںجس طرح وہ بنگلہ دیش میں ذلت آمیزشکست سے دوچارہوئے تھے اس طرح تحریک انصاف الیکشن میں ناکام ہوگی ''۔ہرباشعور انسان جانتا ہے 1971ءکاسانحہ سیاسی قیادت کے بلنڈرکاشاخسانہ تھاجبکہ سرنڈرکرنے کافیصلہ بھی ٹائیگر نیازی کانہیں کسی اورکاتھا کیونکہ ٹائیگرسرنڈرنہیں کیا کرتے ورنہ مسلم لیگ (ن) کے قائدمیاں نوازشریف کوٹائیگرکے لقب سے پکاراجاتااورنہ ان کاانتخابی نشان ٹائیگر ہوتا،میاں نوازشریف کوبھی پرویزمشرف کے کارگل ایڈونچر کی آگ بجھانے کیلئے امریکہ جاناپڑاتھا ،ضرورت پڑنے پرمحفوظ راستہ تلاش یااختیار کرنابزدلی نہیں ہوتی۔انگریز نے جنرل امیرعبداللہ خان نیازی کی بہادری اورپیشہ ورانہ مہارت کودیکھتے ہوئے انہیں ٹائیگرنیازی کاخطاب دیا تھاورنہ ہمارے ہا ں توبعض رینٹ اے کالم نگاربونے سیاستدانوں کو ٹیپوسلطان اورشیرشاہ سوری بنا دیتے ہیں ۔جنرل اے اے کے نیازی واقعی مردمیدان اور غازی ہونے کے ساتھ ساتھ ٹائیگرکی طرح بہادر،نڈراورملک دشمنوں کیلئے بے رحم تھے ۔سانحہ سقوط ڈھاکہ کی سازش کے پیچھے صرف بھارت نہیں بلکہ پوری شیطانی تکون ملوث تھی۔ اس بدترین ناکامی اوربدنامی کے پیچھے فوج نہیں نااہل سیاسی قیادت کاہاتھ تھا ۔اس وقت جنرل یحییٰ خان پاکستان کے آئینی سربراہ اور افواج پاکستان کے کمانڈران چیف تھے ،اگراس وقت پاکستان اورافواج پاکستان کی باگ ڈورکسی ہوشمند شخص کے ہاتھوں میںہوتی توہمیں یوں خفت اورشکست کاسامنا نہ کرناپڑتا۔اب ظاہر ہے پاکستان کاکمانڈران چیف توخودسرنڈر کرنے کیلئے نہیں جاسکتا تھا،لہٰذااس شرمناک تقریب میں جانے کیلئے ایک مضبوط اعصاب والے نڈراورغیرمعمولی انسان کی ضرورت تھی جومردانہ وار اس کٹھن صورتحال کاسامنا کرتا کیونکہ کوئی جرنیل وہاں جانے کیلئے تیار نہیں تھا اورہمارا ملک اس نازک معاملے میں مزیددیرکامتحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ہزاروں زندگیاں اورہزاروں خاندانوں کی خوشیاں خطرے میں تھیں ،اس کڑے وقت میں جنرل اے اے کے نیازی یعنی ٹائیگرنیازی نے قربانی دینے کافیصلہ کیااورانہوں نے ملک وقوم کا وقاربچانے کیلئے اپناسب کچھ داﺅپرلگادیا۔ٹائیگرنیازی کومیدان جنگ سے گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ انہیں خصوصی طورپرایک حکمت عملی کے تحت سرنڈرکرنے کی رسمی کاروائی کیلئے وہاں بھیجاگیا تھا۔ا نسان اپنے اقتدارنہیں بلکہ کرداراورافکار کی بنیاد پرباوقارہوتا ہے،جولوگ پاکستان کے بانی محمدعلی جناح ؒ کااحترام نہیں کرتے وہ ٹائیگرنیازی کی تعظیم کس طرح کرسکتے ہیں۔جو لوگ دوسروں کی غلطی یاناکامی کابوجھ اپنے کندھوں پراٹھاتے ہیں وہ بزدل نہیںبہادرہوتے ہیں، ٹائیگرنیازی کے کردارپرانگلی اٹھانے والے تاریخ کومسخ نہیں کرسکتے۔بدقسمتی سے ہم اپنے اورخاص اپنوں کے سوادوسروں کوغدارڈکلیئرکرنے میں کوئی شرم یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔پاکستان اوراس کے لوگ ٹائیگرنیازی کے مقروض اوراحسان مندہیں۔ جس معاشرے میں اپنے کسی قومی ہیرواورمحسن کے ساتھ توہین آمیزرویہ اختیار کیا جاتا وہ شہرخموشاں بن جاتا ہیں۔پاکستان کی تاریخ کے بیشتر سرنڈراوربلنڈرسیاستدانوں سے منسوب ہیں۔ہمارے منتخب سیاسی حکمرانوں نے کئی بار امریکہ کے سامنے سرنڈرکیااوریوٹرن لیا۔9/11کے بعد امریکہ کے ایک وزیرکی ایک فون کال پرقوم کومکے دکھانے والے فوجی آمرپرویز مشرف نے پاکستان کی خودمختاری اورحاکمیت اعلیٰ سرنڈرکردی اورکچھ سیاستدان اپنی جان بچانے کیلئے سرنڈراور بلنڈرکر تے ہوئے اپنے ملک اورعوام کوایک بدمست اوربے لگام فوجی آمرکے رحم وکرم پرچھوڑکر ملک سے باہرچلے گئے جبکہ ان کے ساتھی جیل کی کال کوٹھڑیوں میں سڑتے رہے۔

ہم مشاہداللہ خان کو اپنے قائدین کی وکالت اوردوسری سیاسی قیادت پرتنقید کرنے کے حق سے دستبردارنہیں کرسکتے لیکن ان کے پاس جنرل اے اے کے نیازی اورعمرا ن خان کی آڑمیں پورے نیازی قبیلے کوبزدلی کاطعنہ د ینے کاکوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔نیازی قبیلے کے لوگ جذباتی اورجنونی ہوسکتے ہیں مگران کے ڈی این اے میں بزدلی کے جراثیم نہیں ہوتے ۔مشاہداللہ خان کی اپنی جماعت میں اعظم خان نیازی، ارشدخان نیازی ، شعیب خان نیازی اوربجاش خان نیازی اورجاپان میں مسلم لیگ (ن)کے روح رواں لطیف حسن نیازی سمیت کئی سیاسی طورپر قدآورنیازی سرگرم ہیں اورانہوں نے پرویز ی آمریت کے سیاہ دورمیںاپنے خون سے مسلم لیگ (ن) کی آبیاری کی ہے،فوجی آمر پرویز مشرف نے اعظم خان نیازی اوران کے عزیزواقارب کومعاشی طورپرتباہ کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی مگراس کے باوجودانہوں نے میاں نوازشریف کاساتھ نہیں چھوڑا۔انعام اللہ خان نیازی اورنجیب اللہ خان نیازی دونوں بھائی بھی چندماہ پہلے مسلم لیگ (ن) چھوڑکرتحریک انصاف میں گئے اورانہوں نے عمران خان کے فرسٹ کزن ہونے کے باوجود مسلسل کئی برسوں تک اس کاساتھ نہیں دیا مگرخودکوپارٹی قیادت کی طرف سے دیوارکے ساتھ لگائے جانے پران دونوں نے تحریک انصاف کاپرچم تھام لیا۔عمران خان کاکزن ہوناانعام اللہ خان نیازی یانجیب اللہ خان نیازی کی چوائس نہیں تھی وہ قدرت کافیصلہ تھا مگرمیاں نوازشریف کے ساتھ کام کرناان دونوں بھائیوں کی مرضی ومنشاسے تھا۔نیازی بڑے دبنگ ،مہم جواورنڈڑہوتے ہیں ،اگرکسی نے معلوم کرناہے تومیاں منظوروٹوسے پوچھے جوانعام اللہ خا ن نیازی کی بہادری اوربیباکی کے چشم دیدگواہ ہیں ۔سینیٹرمشاہداللہ خان کو عمران خان پرتنقیدکر نے کاپوراحق ہے مگرعمران خان کے ساتھ سیاسی دشمنی کے سبب نیازی قبیلے کی توہین نہ کریں ۔تحریک قیام پاکستان اوتاستحکام پاکستان کے حوالے سے عبدالستارخان نیازی مرحوم کا بڑانام اوراونچامقام ہے ان کی پاکستان کے ساتھ نظریاتی کمٹمنٹ اور قومی خدمات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ایک انمول آدمی حمیدنظامی مرحوم کے ہمراہ عبدالستارخان نیازی نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے قائداعظم محمدعلی جناح ؒ کی قیادت میں قیام پاکستان کی جدوجہدکومزیدموثربنانے کیلئے مسلم طلبہ کومتحداورمنظم کیا ۔منفردانداز کے ہردلعزیزشاعر منیرنیازی قوم کاسرمایہ افتخار تھے جبکہ بیباک کالم نگارڈاکٹراجمل نیازی ہماراقومی اثاثہ ہیں۔نیازی قبیلے سے تعلق رکھنے والے زیرک انسان اورایک منجھے ہوئے منتظم حفیظ اللہ خان نیازی نے طلبہ سیاست سے قومی سیاست تک اپنے انمٹ نقوش ثبت کئے ہیں ۔حفیظ اللہ خان نیازی ایک دانشورہونے کے ساتھ ساتھ دوراندیش بھی ہیں،ان کی ہرتحریرمیں بھرپورموادہوتا ہے۔میں سیاسی طورپرعمران خان کامداح نہیں ہوں مگران کی کامیابیوں اورخوبیوں سے انکار نہیں کرسکتا ۔کرکٹ ورلڈکپ میں پاکستان کی تاریخی کامیابی عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں کی مرہون منت تھی۔انہوں نے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر کیلئے عوام کے سامنے جھولی پھیلائی توعوام نے اپناسب کچھ ان کی جھولی میں ڈال دیا ،شوکت خانم کینسر ہسپتال محض ایک عمارت یاایک ادارہ نہیں بلکہ عمران خان کی ساکھ اوراس کے اعتماد کا کوہ ہمالیہ ہے۔ہمارے لوگ ووٹ توکسی بھی کھمبے کودے دیتے ہیں مگرنوٹ کسی بااعتمادشخصیت کے سواکسی کونہیں دیتے،سماجی سرگرمیوں کے حوالے سے عبدالستارایدھی اورعمران خان عوام کے نزدیک قابل اعتماد ہیں۔اگرعوام نے عمران خان پراعتمادکیاتوعمران خان نے بھی ناممکن کوممکن بنادیا،عمران خان کوبہت سارے فنڈزبیرون ملک سے بھی ملے جویقیناکسی اورکونہ ملتے ۔اب تک انہوں نے قوم سے جوبھی کہا وہ کردکھایا ،ان کاکام بولتا ہے جبکہ دوسروں کی صرف زبانیںبولتی ہیں۔ کچھ اور سیاستدانوں نے بھی قوم سے پیسہ لیا تھا مگروہ رقم کہاں صرف ہوئی قوم کواس سوال کاجواب ملناابھی باقی ہے ۔اگرعمران خان نے ڈرون حملوں کیخلاف امن مارچ کیا ہے تواس میں بھی کیڑے نکالے جارہے ہیں۔کیا ڈرون حملوں کیخلاف امن مارچ کرناصرف تحریک انصاف کافرض تھا دوسری پارٹیاں کہاں ہیں۔ اگرہماری سیاسی قیادت اپنے اپنے مفادات کی حفاظت اور آئین میں ترمیم کیلئے آپس میںمتفق اورمتحدہوسکتی ہے توپھر ڈرون حملوں کی بندش کیلئے ان کے درمیان اتحادکیوں نہیں ہو سکتا۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.