سچ کی کڑواہٹ

پروفیسر مظہر

سچ کڑوا ہوتا ہے ، مگر جو قومیں سچ کی کڑواہٹ محسوس کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں ، کامران بھی وہی ٹھہرتی ہیں۔ہمارے ہاں البتہ سچ کہنے کا حوصلہ ہے نہ سننے کا،جو تاریخی تلخیوں پر بات کرے وہ قنوطی اور مردم بیزار۔ کڑوا سچ مگر یہی ہے کہ پاکستانی تاریخ کا مورخ اگر پاکستانی ہوا تو مارے شرم کے ایک باب بھی نہ لکھ پائے گا ، یورپین ہوا تو تمسخر اُڑائے گا ، بھارتی ہوا تو احساسِ تفاخر سے جھوم جھوم جائے گااور امریکی ہوا تو تاریخ لکھنے کی ہر گز زحمت نہیں اٹھائے گا کہ غلاموں کی بھی کبھی کوئی تاریخ ہوا کرتی ہے ۔اہلِ دانش کہیں گے کہ یہ مایوس ذہن کی سوچ ہے جبکہ مایوسی کفر ہے اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کا حکم حکمت کی کتاب میں درج ہے ۔بجا مگر یہ حکمِ ربی فرما برداروں کے لئے ہے نافرمانوں کے لئے نہیں۔سوال مگر یہ ہے کہ ہم کتنے فرمابردار ہیں ؟۔ کسی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل یا آئی آر آئی سے سروے کروانے کی ضرورت نہیں ، اپنے دلوں کی ”ٹرانسپرنسی“ سے سروے کروا لیجیئے کہ میرے آقا کا حکم یہی ہے ۔

قائدِ اعظم نے فرمایا ”ہمیں زمین کا ایک ایسا ٹکڑا چاہیے جسے ہم اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کر سکیں “۔ہم نے وہ ٹکڑا حاصل کرکے اُس میں سارے تجربے کر ڈالے سوائے اسلام کے ۔بانی پاکستان نے 9 مارچ 1940ءکو ہفت روزہ ”ٹائم اینڈ ٹائیڈ“ کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا ”اسلام محض ایک مذہب نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے جو صرف خُدا اور بندے کے تعلق تک ہی محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے اور ہر پہلو پر محیط ہے “۔ہم نے صدارتی نظام اپنا یا اور پارلیمانی بھی ، آمریت بھی دیکھی اور جمہوریت کے جلوے بھی ، سوشلزم کو اپنی معیشت قرار دیا اور سرمایا دارانہ نظام کے آگے زانوئے تلمذ تہ بھی کیا لیکن حصولِ پاکستان کی اس ”اساس“ کو کبھی آزمانے کی زحمت نہیں کی البتہ ہر آئین میں تمام قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا عہد ضرور کیا۔یہ الگ بات ہے کہ ان پینسٹھ سالوں میں کبھی اپنا یہ عہد نبھانے کا خیال نہیں آیا ۔شایدہم اپنے تئیںاپنے رب کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ مختارِ کُل تو ایسی چیزوں سے بے نیاز ہے البتہ ہمارا شمار ”نافرمانوں“ میں ضرور کیا جا چُکا ہو گا ۔شاید ہماری ذلتوں کا سبب بھی یہی ہے اور مایوسیوں کی وجہ بھی یہی۔

سوال یہ ہے کہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہے کون سااورکس دن کو ہم احساسِ تفاخر کے ساتھ منائیں؟ ۔کیا 65ء، 71 ء اور کارگل کے معرکے یا پھر یومِ تکبیر؟۔ستمبر 65 ءکی جنگ ہم نے جنگی ترانوں کی گونج میں شروع کی لیکن محض سترہ دن بعد ہی ”تاشقند“ کی چوکھٹ پہ ناک رگڑنے لگے ، دسمبر 71 ءمیں آدھا ملک گنوا کر ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تُجھے“ گانے لگے ، معرکہ کارگل میں اپنے جری جوانوں کی لاشیں اُٹھانے کا موقع بھی نہ مل سکا، یومِ تکبیر کے ایک خالق نے ٹی وی پر پوری قوم سے معافی مانگی دوسرا جلا وطن کر دیا گیا اور ایٹم بم ہم نے شب برات پر پھُل جھڑیوں کی جگہ چلانے کے لئے رکھ لیا ۔جب اپنا ملک بچا نہ سکے تو افغانستان بچانے نکل کھڑے ہوئے اور اپنے آپ کو ایک ایسی اندھی جنگ میں جھونک دیا جس میں پچاس ہزار پاکستانی شہید کروانے کے بعد بھی ابھی تک یہ پتہ نہیںچل سکا کہ یہ جنگ ہماری ہے یا امریکہ کی ۔

زندہ قومیں اپنی پالیسیاں خود مرتب کرتی ہیں لیکن ہمارے پالیسی ساز غیروں کے محتاج ہیں۔شاید اسی بنا پر ہماری پالیسیوں میں استقامت کا فقدان ہے ۔ہم نے امریکہ کے اشارے پرطالبان کے ساتھ مل کر جہاد کی ٹھانی اور پھراُسی کے حکم پر طالبان ہی کے خلاف تلوار اٹھا لی ۔امریکہ ہمارا اتحادی ہے لیکن رحمٰن ملک صاحب کہتے ہیں کہ بلوچستان میں غیر ملکی ہاتھ کار فرما ہے۔ظاہر ہے کہ یہ خفیہ ہاتھ امریکہ کا ہو سکتا ہے یا بھارت کا ۔ اہلِ دردتو دہائی دیتے چلے آ رہے تھے کہ بلوچستان ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے ،لیکن حکمرانوں کو اپنی کرپشن چھپانے سے فرصت تھی نہ جرنیلوں کو امریکی جنگ لڑنے سے اور اب جبکہ حالات ایسے موڑ پر پہنچ چکے ہیں کہ کسی وقت بھی کوئی بھی سانحہ رونما ہو سکتا ہے ، حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک رینگتی نظر نہیں آتی۔یہ کوئی ڈھکی چھُپی بات نہیں کہ گریٹر بلوچستان کی تشکیل اور گوادر کی بندر گاہ پر قبضہ امریکہ کا دیرینہ خواب ہے۔آبنائے ہرمز، گوادر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں دُنیا کا تینتیس فیصد تیل گزرتا ہے ۔امریکہ گوادر پر قبضہ کرکے آبنائے ہر مز پر کنٹرول اور ایران کا گھیراؤ کرنا چاہتا ہے جو اقتصادی میدان میں تیزی سے دُنیا پر چھاتے ہوئے چین کو کسی بھی صورت قبول نہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاک چین دوستی میں متواتر دراڑیں پڑتی چلی جا رہی ہیں۔ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطر امریکہ نے نواب اکبر بگتی کو اپنے پٹھو مشرف کے ہاتھوںشہید کروا کر اپنے لئے آسانیاں پیدا کر لی ہیں۔ایک طرف وہ پاکستان کا سٹریٹیجک پارٹنر ہے تو دوسری طرف کابل میں ”بلوچ لبریشن آرمی“ نامی تنظیم کی نہ صرف بھرپور سرپرستی کر رہا ہے بلکہ اُنہیں پچاس ہزار روپئے ماہانہ تنخواہ بھی دی جا رہی ہے ۔یہی وہ نوجوان ہیں جو بلوچستان میں دہشت گردی ، نسلی فسادات اور فرقہ واریت کے ذمہ دار ہیں۔عین ممکن ہے کہ ”مسنگ پرسنز“ کے معاملات میں بھی اُن کا کسی حد تک ہاتھ ہواور یہ ایک خاص منصوبے کے تحت ایجنسیوں کو بد نام کرنے کی سازش ہو۔

لا پتہ افراد کا الزام2007 ءسے براہِ راست خفیہ ایجنسیوں پر لگایا جا رہا ہے ۔چیف جسٹس صاحب نے فرمایا ہے کہ کچھ ٹھوس شواہد ایف سی کی جانب اشارے کرتے نظر آتے ہیں ۔ لیکن فوج اور حکومت اِس سے صریحاََ انکاری ہیں ۔اختر مینگل صاحب البتہ یہ ماننے کو تیار نہیں اور اُنہیں ماننا بھی نہیں چاہیے کیونکہ اُن کا گھر تو خونم خون ہے وہ اگر فوج اور حکومت کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کر رہے ہیں تو کچھ غلط نہیں کر رہے کیونکہ مقتدر تو وہی ہیں اور عوام کی حفاظت بھی اُنہیں کا فرض ہے۔اگر حکومت یا فوج یہ سمجھتی ہے کہ اس میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے تو پھر اُس ہاتھ کو تلاش بھی اُنہی نے کرنا ہے اختر مینگل صاحب نے نہیں۔ناراض بلوچوں کو مطمعن کرنے اور اُن کے حقوق کی پاسداری ہی سے معاملات میں سلجھاؤ کی کوئی کرن نظر آ سکتی ہے ۔یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ حکومت اس میں ملوث نہیں ہے۔ہمیں اختر مینگل جیسے محبِ وطن شخص کی اس آخری کوشش میں اُن کا بھر پور ساتھ دینا چاہیے کیونکہ اِس کے بعد شاید ہمیں موقع نہ مل سکے۔اُن کے چھ نکات کو شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات نہ سمجھا جائے ۔اُن کے سارے مطالبات با لکل درست ہیں اور کوئی ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں جس میں پاکستانیت کی جھلک نظر نہ آتی ہو ۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 865 Articles with 559630 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More