الطاف حسین کا پاکستان کی سیاست سے علیحدگی کا عندیہ

صدر آصف علی زرداری کے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میںمنگل کو گستاخانہ فلم پر مذمتی خطاب اور گستاخانہ فلم جیسے عمل کو جرم قراردینے کے مطالبے کے دوسرے ہی دن 26 ستمبرکومتحدہ قومی موومنٹ نے کراچی کے مقامی ہوٹل میں" عشق ِرسولﷺ اور ہمارا رویہ "کے عنوان سے کانفرنس کا انعقاد کیا جس سے الطاف حسین نے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ملک بھر کے اعتدال پسند ، لبرل،پروگریسواور روشن خیال عوام مجرمانہ خاموشی کا قفل توڑ دیںاور پاکستان بچانے کے لئے آگے آئیںاور پاکستان کو مذہبی جنونیوں سے نجات دلاکراسے ایک امن پسند مہذب ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ملک بنائیں۔الطاف حسین نے کہا کہ اگر پاکستان کے عوام نے شعوری بیداری کا مظاہرہ نہ کیا تو پھر میرے پاس اس کے سواکوئی چارہ نہیں ہوگا کہ میں خود کو پاکستان کی سیاست سے علیحدہ کرلوں۔

الطاف حسین کے ویسے تو اکثر خطاب ”تاریخی“ ہوتے ہیں لیکن یہ خطاب اس لحاظ سے اہم اور مثالی تھا کہ انہوں نے اس میں اپنی پاکستان کی سیاست سے علیحدگی کا عندیہ دیا ہے۔ساتھ ہی انہوں نے پاکستان بچانے کے لئے اعتدال پسند ،روشن خیال، پروگریسواور لبرل ذہن کے افراد کو آگے آنے کی دعوت دی۔

مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سے حالات پیدا ہوئے کہ الطاف حسین نے روشن خیال ،پروگریسیو ،اعتدال پسند اور لبر ل افراد کو سامنے آنے کی دعوت دی اور ان کے نہ آنے پر انہوں نے پاکستانی سیاست سے علیحدگی اختیار کرنے کااعلان کیا ان حالات کی وضاحت تو وہ یا ان کی جماعت ہی کرسکتی ہے ۔ ہاں البتہ مجھے یہ معلوم ہے کہ ان کے ہزاروںبلکہ لاکھوں کارکن ان کی ایک آواز پر اکھٹا ہوکر اپنے آپ کو قربان کرنے تک کے لئے بظاہر ہمیشہ تیارلگتے ہیں،ایسی صورت میں الطاف حسین کا لبرل ، اعتدال پسند اور روشن خیالوں کے ساتھ نہ دینے پر ملک کی سیاست سے علیحدگی کے سوا اور” کوئی چارہ“ نہ ہونے کی بات کرنا باعثِ حیرت ہے۔

حالانکہ اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اگر الطاف حسین خود ہی پاکستان واپس آجائیں تو وہ خود بھی پاکستان کو مشکلات اور مسائل سے نکال سکتے ہیں جبکہ ان کے واپس ملک میں آنے سے ان کی تحریک کو بھی بے انتہا آکسیجن ملنے اور کارکنوں کے ساتھ عام لوگوں کو بھی ان کی تحریک کاساتھ دینے کے لیئے حوصلہ ملے گا۔رہی بات ان کے لیئے خطرہ کی تو وہ اپنی اتحادی پیپلز پارٹی سے اپنی خصوصی سکیورٹی کا انتظام کراسکتے ہیں ویسے تو وہ خود ” نہ جھکنے والے ہیں اور نہ ہی ڈرنے والے“ ہیں تو پھر کیا سوچنا ؟اپنے چہیتے کارکنوں کو یہ پیغام دیں اور وطن واپس آنے کا اعلان کردیں۔

مجھے یقین ہے کہ الطاف حسین کا کوئی کارکن ان کی خواہش کے آگے ضد نہیں کرسکتا ۔ اس طرح وہ ملک کو مذہبی جنونیوں سے نجات دلانے کے لیئے خود بھی براہ راست جدوجہد کرسکتے ہیں یا جاری جدوجہد میں حصہ لے سکتے ہیں ۔

اب بات کرتے ہیں ان کے خطاب کی جس کی ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ پوری تقریر میں الطاف حسین نے مجموعی طور پر ملک کے مجموعی حالات خصوصاََ عشق رسولﷺ کے موقع پر ہونے والی ہنگامہ آرائی اور دیگر واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ،بنیاد پسندوں اور مذہبی رجحان رکھنے والے افراد کو ٹارگیٹ کرکے سیکولر ،لبرل ،اعتدال پسند اور روشن خیال لوگوں کی حوصلہ افزائی کی اور یہ کہنے کی کوشش کی کہ ان لوگوں کے سامنے آنے اورعملی جدوجہد کرنے سے ہی پاکستان کا مستقبل وابستہ ہے۔

حیرت اس بات پر بھی ہے کہ الطاف حسین نے اپنی تقریر میں پسند کی شادی کرنے پر کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی مذمت کی لیکن کراچی میں بلاوجہ ہی ” نا معلوم “ ٹارگیٹ کلرز کے ہاتھوں روزانہ ہی دس بارہ معصوم اور نہتے افراد کی ہلاکت پر انہوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہاتاہم الطاف حسین نے کراچی میں یومِ عشق رسول ﷺ کے موقع پر ہونے والی ہنگامہ آرائی پر یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ اس ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کا تعلق کراچی سے نہیں تھا ۔مجھے نہیں معلوم متحدہ کے قائد نے جو پورے ملک کے۸۹فیصد مظلوم لوگوں کے لیڈر ہونے کے دعویدار بھی ہیں صرف کراچی کے لوگوں کا کیس کیوں لڑا اور انہیں ہنگامہ آرائی کے الزام سے بچانےکی کوشش کیوں کی؟

میں یہ نہیں کہتا کہ کراچی کے اکثر لوگ ہی شرپسند اور دہشت گرد ہیں لیکن اس بات سے بھی کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ قائد اعظم کے شہر کے سب ہی باسی چند نامعلوم دہشت گردوں ،شرپسندوں ، چندہ یا بھتہ مافیاسے تنگ ہیں جنہوں نے ملک کے سب سے بڑے شہر کی دو کروڑ آبادی کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ ،حکومت میں رہنے کے باوجود اس شہر کے لوگوں کو ان دہشت گردوں سے آزادی دلانے کے لئے مسلسل ناکام ہے لیکن حکومت کا ساتھ دینا بھی شائد اس کی مجبوری ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یومِ عشق رسول ﷺپر ہنگامہ کرنے والوں نے آپ ﷺ کی سنت اور قرانی تعلیمات کے خلاف توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کی ۔لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ اس روز یہ سب کچھ کرنے والے ” کوئی اور تھے“ ۔ممکن ہے کہ انہوں نے یہ صرف اس لئے ہی کیا ہو کہ مسلمانوں ، اسلام کے اصل مجاہدوںاور سچے عاشقینِ رسول ﷺ کو بدنام کیا جاسکے؟ کیونکہ عاشق رسول ﷺ کی صفحوں میں گھس کر انہیں بدنام کرنے کا اس سے اچھا موقع انہیں نہ جانے پھر کب ملتا؟۔

وہ لیڈر جو بغیر سوچے سمجھے یوم ِعشقِ رسول ﷺ پر ہونے والی ساری شرپسندانہ کارروائیوں کی ذمہ داری عاشقِ رسول ﷺپر ڈال رہے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ کہیں کوئی انہیں استعمال تو نہیں کررہا ہے؟ کہیں کوئی ان سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش تو نہیں کروارہا ؟

پاکستان میں اس روز جو کچھ ہوا اس کی ذمہ دار ہماری حکومت اور حکومت کے اتحادی ہیں کیوں کہ انہوں نے اسے روکنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی۔

خیال آرہا ہے کہ صدر آصف زرداری کے اقوامِ متحدہ میں گستاخانہ فلم کے خلاف سخت ردِعمل اور امریکہ کو آئندہ اس طرح کی فلموں کو روکنے کے لیئے اقدامات کرنے کے مطالبہ کے ردعمل کے طور پر ہم مسلمانوں اور پاکستانیوںپر شدید تنقید کرائی جارہی ہے تاکہ اسلام اور ملک دشمن قوتوں کو خوش کیا جاسکے۔

پاکستان ایک مضبوط ملک ہے اس کی حفاطت کرنے والے پاک فوج کے وہ محب وطن جرنیل ہیں جنہیںمتحدہ کے قائد الطاف حسین نے چند ماہ قبل ملک میں مارشل لاءطرز کے اقدامات کرنے پر ان کا ساتھ دینے کا یقین دلایا تھا اوروہ فوجی جوان ہیں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ پر یقین کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں اس لیئے سب کو یقین ہے کہ پاکستان کو کمزور کرنے یا توڑنے کی سازش کرنے والوں کو ان کی سازش سمیت ہی دفن کردیا جائے گا-
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152745 views I'm Journalist. .. View More