حضرت علیؓ کی بیٹے کے نام وصیت

اے مرے فرزند…! زمانے کی گردش، دنیا کی بے وفائی اور آخرت کی نزدیکی نے مجھے ہر طرف سے غافل کر کے صرف آنے والی زندگی کے اندیشوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ اب مجھے اپنی فکر ہے۔ تمام نشیب و فراز پیشِ نظر ہیں۔ بے نقاب حقیقت آنکھوں کے سامنے ہے۔ سچا معاملہ روبراہ ہے۔ اسی لیے میں نے یہ وصیت تیرے لیے لکھی ہے، خواہ تیرے لیے زندہ رہوں یا فوت ہو جائوں کیونکہ مجھ میں تجھ میں کوئی فرق نہیں۔ تو میری جان ہے، میری روح ہے۔ تجھ پر آفت آئے گی تو مجھ پر پہلے آئے گی۔ تیری موت میری موت ہوگی۔

فرزند، دل کو موعظت سے زندہ کر، زہد سے مار، یقین سے قوت دے، حکمت سے روشن کر، موت کی یاد سے اس پر قابو پا، فانی ہونے کا اس سے اقرار لے، مصائب یاد دلا کر اسے ہوشیار بنا، زمانے کی نیرنگیوں سے اسے ڈرا، بچھڑ جانے والوں کی حکایتیں اسے سنا، گزرے ہوئوں کی تباہی سے عبرت دلا، ان کی اجڑی بستیوں میں گشت کر، ان کی عمارتوں کے کھنڈر دیکھ اور دل سے سوال کر:ان لوگوں نے کیا کیا؟ کہاں چلے گئے؟ کدھر رخصت ہوگئے؟ کہاں جا کر آباد ہوگئے؟ ایسا کرنے سے تجھے معلوم ہوجائے گا کہ وہ اپنے دوست و احباب سے جدا ہوگئے، ویرانوں میں جا بسے اور تو بھی بس دیکھتے ہی دیکھتے اُنہی جیسا ہو جائے گا۔

فرزند! (میں تجھے وصیت کرتا ہوں) خدا سے خوف کر، اس کے حکم پر کاربند ہو۔ اس کے ذکر سے قلب کو آباد کر۔ اسی کی رسی کو مضبوطی سے تھام کیونکہ اس رشتے سے زیادہ مستحکم کوئی رشتہ نہیں جو تجھ میں اور تیرے خدا میں موجود ہے، بشرطیکہ تو خیال کرے۔ لہٰذا اپنی جگہ درست کر لے۔ آخرت کو دنیا کے بدلے نہ بیچ، بے عملی کی حالت میں بولنا چھوڑ دے، بے ضرورت گفتگو سے پرہیز کر، جس راہ میں بھٹک جانے کا اندیشہ ہو اس سے باز رہ، کیونکہ قدم کا روک لینا ہولناکیوں میں پھنسنے سے بہتر ہے۔

تو نیکی کی تبلیغ کرے گا تو نیکوں میں سے ہو جائے گا۔ برائی کو اپنی زبان سے برا ثابت کر، بروں سے الگ رہ۔ خدا کی راہ میں جہاد کر، جیسا حق ہے جہاد کرنے کا۔ خدا کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہ ڈر۔ حق کے لیے مصائب کے طوفان میں کود جا۔ دین میں تفقہ حاصل کر۔ مصائب کی برداشت کا عادی بن، کیونکہ برداشت کی قوت بہترین قوت ہے۔ سب کاموں میں اپنے لیے خدا کی پناہ تلاش کر، اسی طرح تو مضبوط جائے پناہ اور غیر مسخر قلعے میں پہنچ جائے گا۔

اپنے خدا سے دعا کرنے میں کسی کو شریک نہ کر، کیونکہ بخشش وعطا، منع و حرمان، سب خدا ہی کے ہاتھ میں ہے۔ استخارہ زیادہ کیا کر۔ میری یہ وصیت خوب سمجھ لے۔ اس سے روگردانی نہ کرنا، وہی بات ٹھیک ہوتی ہے جو مفید ہوتی ہے۔ بے فائدہ علم بے کار ہے اور اس کی طلب ناروا۔ فرزند! جب میں نے دیکھا کہ آخر عمر کو پہنچ گیا ہوں اور ضعف بڑھتا جاتا ہے تو یہ وصیت لکھنے میں مجھے جلدی کرنا پڑی۔ میں ڈرا، کہیں وصیت سے پہلے ہی مجھے موت آ جائے یا جسم کی طرح عقل بھی کمزور پڑجائے یا تجھ پر نفس کا غلبہ ہوجائے، یا دنیاوی فکریں تجھے گھیر لیں اور تو سرکش گھوڑے کی طرح قابو سے باہر ہوجائے۔ نوعمروں کا دل خالی زمین کی طرح ہوتا ہے جو ہر بیج قبول کرلیتی ہے۔

اسی خیال سے میں نے وصیت لکھنے میں جلدی کی تاکہ دل کے سخت ہونے اور ذہن کے دوسری طرف لگ جانے سے پہلے ہی تو اس معاملے کو سمجھ لے، جس کے تجربے اور تحقیق سے اگلوں نے تجھے بے نیاز کر دیا ہے۔ اس کی راہ کی تگ و دو اور تجربے کی تلخیوں سے تجھے بچا لیا ہے۔ وہ چیز تیرے پاس بلا کلفت پہنچ رہی ہے جس کی جستجو میں ہمیں خود نکلنا پڑا تھا، اب وہ سب تیرے سامنے آ رہا ہے جو شاید ہماری نگاہوں سے بھی اوجھل رہ گیا ہو۔

فرزند! میری عمر اتنی دراز نہیں جتنی اگلوں کی ہوا کرتی تھی، تاہم میں نے ان کی زندگی پر غور اور ان کے حالات میں تفکر کیا ہے، ان کے پیچھے بحث و جستجو میں نکلا ہوں۔ حتیٰ کہ اب میں انہی کا ایک فرد ہو چکا ہوں بلکہ ان کے حالات سے حددرجہ واقف ہونے کی وجہ سے گویا ان کا اور ان کے بزرگوں کا ہم سن بن گیا ہوں۔ اسی طرح یہاں کا شیریں و تلخ، سفید و سیاہ، سودوزیاں، سب مجھ پر کھل گیا ہے۔ اس سب میں سے میں نے تیرے لیے ہر اچھی بات چن لی ہے، ہر خوشنما چیز منتخب کرلی ہے۔ ہر بُری اور غیرضروری بات تجھ سے دور رکھی ہے اور چونکہ مجھے تیرا ویسا ہی خیال ہے جیسا شفیق باپ کو بیٹے کا ہوتا ہے، اس لیے میں نے چاہا کہ یہ وصیت ایسی حالت میں ہو کہ تو ابھی کم عمر ہے، دنیا میں نووارد ہے۔ تیرا دل سلیم ہے، نفس پاک ہے۔

پہلے میں نے ارادہ کیا تھا کہ تجھے صرف کتاب اللہ اور اس کی تفسیر اور شریعت اور اس کے احکام حلال و حرام کی تعلیم دوں گا، پھر خوف ہوا، مبادا تجھے بھی اسی طرح شکوک و شبہات گھیر لیں گے جس طرح لوگوں کو نفس پرستی کی وجہ سے گھیر چکے ہیں لہٰذا میں نے یہ وصیت ضروری سمجھی۔ یہ تجھ پر شاق ہو سکتی ہے مگر میں نے اسے پسند کرلیا اور گوارا نہ کیا کہ ایسی راہ میں تجھے تنہا چھوڑ دوں جس میں ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ امید ہے خدا میری وصیت کے ذریعے تجھے ہدایت دے گا اور سیدھی راہ کی طرف تیری راہنمائی کرے گا۔

فرزند! تیری جس بات سے میں خوش ہوں گا، یہ ہے کہ تو خدا سے خوف کرے، اس کے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی نہ کرے، اپنے اسلاف اور خاندان کے پاک بزرگوں کی راہ پر گامزن ہو کیونکہ جس طرح آج تو اپنے آپ کو دیکھتا ہے، اسی طرح کل وہ بھی اپنے آپ کو دیکھتے تھے۔ آخر تجربوں نے انھیں مجبور کردیا کہ سیدھی راہ پر آ جائیں اور فضول بات سے پرہیز کریں۔ لیکن اگر تیری طبیعت یہ قبول نہ کرے اور انہی کی طرح بذات خود تجربے حاصل کرنے پر مصر ہو، تو بسم اللہ تجربہ شروع کر مگر عقل و دانائی کے ساتھ، شبہوں اور بحثوں میں بے عقلی سے الجھ کر نہیں، اور اس سے پہلے کہ یہ کام تو شروع کرے، اپنے خدا سے مدد کا خواستگار ہو، اس کی توفیق کا طالب ہو، اور ہر قسم کے شہبات تجھے حیرت و گمراہی میں ڈال دیں گے۔ جب تجھے یقین ہوجائے کہ قلب صاف ہو کر قبضے میں آگیا ہے، عقل پختہ ہو کر جم گئی ہے اور ذہن میں یکسوئی پیدا ہوچکی ہے، تو اس وقت اس وادی میں قدم رکھ ورنہ تیرے لیے یہ راہ تاریک ہوگی اور تو اس میں بھٹکتا پھرے گا۔ حالانکہ طالبِ دین کو نہ بھٹکنا چاہیے، نہ حیرت میں پڑنا چاہیے، ایسی حالت میں طالبِ دین کے لیے اس راہ سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔

فرزند! میری وصیت خوب سمجھ، اور جان لے کہ جس کے ہاتھ میں موت ہے اسی کے ہاتھ میں زندگی بھی ہے۔ جو پیدا کرنے والا ہے وہی مارنے والا ہے۔ جو فنا کرتا ہے وہی حیاتِ نو بھی بخشتا ہے اور جو مصیبت میں ڈال کر امتحان لیتا ہے وہی نجات بھی دیتا ہے۔ یقین کر… دنیا کا قیام اللہ کے اس ٹھہرائے ہوئے قانون پر ہے کہ انسان کو نعمتیں بھی ملتی ہیں اور ابتلا و آزمایش بھی پیش آتی ہے اور پھر آخرت میں آخری جزا دی جاتی ہے، جس کا ہمیں علم نہیں۔ اگر کوئی بات تیری سمجھ میں نہ آئے تو انکار نہ کر بلکہ اسے اپنی کم سمجھی پر محمول کرکے غور کر۔ کیونکہ اول اول تو جاہل ہی پیدا ہوا تھا، پھر بتدریج علم حاصل ہوا اور ابھی نہیں معلوم کتنی باتیں ہیں جن سے تو لاعلم ہے، جن میں تیری عقل حیران رہ جاتی ہے اور بصیرت کام نہیں دیتی لیکن بعد چندے ان کا علم تجھے ہو جاتا ہے۔ پس تیری وابستگی اسی ذات سے ہو جس نے تجھے پیداکیا ، رزق دیا اور تیری خلقت پوری کی ہے۔ اسی کے لیے تیری عبادت ہو، اسی کی طرف تیرا سر جھکے، اسی سے تیری خشیت ہو۔

فرزند! اگر تیرے پروردگار کا کوئی شریک ہوتا تو اس کے بھی رسول آتے، اس کی سلطنت و حکومت کے آثار دکھائی دیتے، اس کے افعال و اعمال بھی ظاہر ہوتے مگر نہیں، وہ اللہ تو ایک ہی ہے۔ جیسا کہ خود اس نے اپنے بارے میں فرمایا ہے۔ اس کی حکومت میں کوئی شریک نہیں۔ ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا۔ سب سے اول ہے مگر خود کی ابتداء نہیں۔ سب سے آخر ہے، مگر خود کی انتہا نہیں۔ اس کی شان اس سے کہیں بلند ہے کہ قلب کے تصور اور بصر کے ادراک پر اس کی ربوبیت موقوف ہو۔

پس تیرا عمل ویسا ہو جیسا اس شخص کا ہوتا ہے جس کی حیثیت چھوٹی ہے، مقدرت کم ہے اور اپنے پروردگار کی طرف اس کی طاعت کی جستجو میں، اس کی عقوبت کی دہشت میں اور اس کے غضب کے خوف میں، جس کی محتاجی بہت بڑی ہے۔ یاد رکھ تیرے پروردگار نے تجھے اچھی باتوں ہی کا حکم دیا اور صرف برائیوں سے منع کیا ہے۔

فرزند! میں نے تجھے دنیا کا نقشہ دکھایا ہے، اس کی حالت بتا دی ہے، اس کے ناپائیدار اور ہرجائی ہونے کی خبر سنا دی ہے، آخرت کی حالت بھی تیرے پیش نظر کر دی اور اس کی لذت و نعیم کی بھی خبر دے دی ہے۔ میں نے مثالیں دے کر سمجھایا ہے تاکہ تو عبرت حاصل کرے اور ان پر عمل پیرا ہو۔

جن لوگوں نے دنیا کو پرکھ لیا اور اس کی جدائی سے گھبراتے نہیں، ان کی مثال ایسے مسافروں کی ہے جو ناموافق اور قحط زدہ علاقہ چھوڑ کر سرسبزوزرخیز علاقے کی طرف روانہ ہوئے ہیں۔ یہ مسافر راہ کی تکلیفیں برداشت کرتے، احباب کی جدائی گوارا کرتے، سفر کی مشقتیں اٹھاتے اور خوراک کی خرابی سہتے ہیں تاکہ کشادہ اور آرام دہ مقام پر پہنچ جائیں۔ کسی تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتے، کسی خرچ سے جی نہیں چراتے۔ ان کے لیے ہر وہ قدم جو منزل مقصود کی طرف بڑھتا ہے، سب سے زیادہ پسندیدہ ہوتا ہے لیکن جو لوگ دنیا سے چمٹے ہوئے ہیں اور اس کی جدائی برداشت نہیں کر سکتے، ان کی مثال اس مسافر جیسی ہے جو سرسبزوشاداب زمین چھوڑ کر قحط زدہ زمین کی طرف چلا ہے، اس کے لیے یہ سفر بدترین اور خوف ناک ہوگا۔ اصلی مقام کی جدائی اور نئے مقام میں آمد کو وہ بھیانک مصیبت سمجھے گا۔

فرزند! اپنے اور دوسروں کے درمیان خود اپنی ذات کو میزان بنا۔ جو بات تجھے اپنے لیے پسند ہے، وہی ان کے لیے بھی پسند کر اور جو بات تو اپنے لیے ناپسند کرتا ہے ان کے حق میں بھی ناپسند کر۔ کسی پر ظلم نہ کر، کیونکہ دوسرے کا ظلم تو اپنے اوپر نہیں چاہتا۔ سب کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آ، جس طرح تیری خواہش ہے کہ وہ تجھ سے پیش آئیں۔ لوگوں کی جو باتیں ناپسند ہوں اپنی بھی وہ باتیں ناپسند کر۔ اگر لوگ تجھ سے وہی برتائو کریں جو تو ان سے کرتا ہے تو اسے ٹھیک سمجھ۔ بغیر علم کے کچھ نہ کہہ، اگرچہ تیرا علم کتنا ہی کم ہو اور ایسی بات کسی کے حق میں نہ کہہ جو خود تو ان سے اپنے لیے سننا نہیں چاہتا۔ خودپسندی حماقت ہے اور نفس کے لیے ہلاکت، لہٰذا سلامت روی سے اپنی راہ طے کر، دوسروں کے لیے خزانچی نہ بن۔ جب تجھے خدا سے روشنی مل جائے تو تیرا تمام تر خوف صرف اپنے پروردگار سے ہو۔

فرزند! تجھے ایک دوردراز، دشوارگزار سفر درپیش ہے۔ اس سفر میں حسنِ طلب کی بڑی ضرورت ہے۔ اس سفر میں تیرا بوجھ ضرورت سے زیادہ نہ ہونے پائے کیونکہ اگر تو طاقت سے زیادہ بوجھ اپنی پیٹھ پر اٹھا کر چلے گا تو تیرے لیے وبالِ جان بن جائے گا، لہٰذا اگر ’’بھوکے مزدور‘‘ تیرا زادِراہ قیامت تک کے لیے اٹھانے کو مل رہے ہوں تو انھیں غنیمت جان اور انھیں کھانا کھلا کر اپنا بوجھ ان پر رکھ دے تاکہ کل ضرورت پر یہ توشہ تجھے کام دے۔ مقدرت کی حالت میں تیرا یہ توشہ بار ہوجانا چاہیے کہ مبادا ضرورت آ گھیرے اور تو کچھ نہ پائے۔ دولت مندی کے زمانہ میں اگر کوئی قرض مانگے تو فوراً دے دے تاکہ قیامت کے دن ناداری کے زمانہ میں وہ تجھے واپس مل جائے۔

فرزند! خدا کی بابت کسی نے ویسی تعلیم نہیں دی جیسی محمدﷺ نے دی ہے۔ پس محمدﷺ ہی کو اپنا راہ نما بنا اور نجات کے لیے انہی کو قطب نما تصور کر۔ میں نے تجھے نصیحت کرنے میں کوتاہی نہیں کی اور یقین کر کہ اپنی بھلائی کے لیے تو کتنا ہی غور کرے، میرے برابر غور نہ کر سکے گا فرزند! تیرے سامنے ایک کٹھن گھاٹی ہے۔ اس گھاٹی میں ایک ہلکا پھلکا آدمی ایک بوجھل آدمی سے بہتر اور سست رفتار تیز رفتار سے بدتر ہے۔ تیرا اس گھاٹی سے گزرنا لازمی ہے۔ اس کے بعد جنت ہے یا دوزخ، لہٰذا آخری منزل پر پہنچنے سے پہلے اپنا پیش خیمہ بھیج دے اور قیامت سے پہلے ہی جگہ ٹھیک کر لے کیونکہ مر جانے کے بعد نہ معذرت ممکن ہوگی نہ دنیا کی طرف واپسی۔

کبھی اجابت دعا میں اس لیے دیر ہوتی ہے کہ سائل کو زیادہ ثواب ملے، امیدوار کو زیادہ بخشش دی جائے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی مانگتا ہے اور بظاہر محروم رہتا ہے مگر جلد یا بدیر طلب سے زیادہ اسے دیا جاتا ہے یا پھر محرومی ہی اس کے حق میں بہتر ہوتی ہے۔ نہیں معلوم کتنی مرادیں ایسی ہیں کہ پوری ہو جائیں تو انسان کی عاقبت برباد ہوجائے۔ پس تیری دعا انہی باتوں کے لیے ہو جو تیرے لیے سودمند ہیں اور جو نقصان دہ ہیں وہ دور رہیں۔ سن لے…! مال و دولت بڑی چیز نہیں۔ مال تیرے لیے باقی رہے گا نہ تُو مال کے لیے۔

فرزند! تو آخرت کے لیے پیدا ہوا ہے نہ کہ دنیا کے لیے۔ فنا کے لیے بنا ہے نہ کہ بقا کے لیے۔ تو ایک ایسے مقام میں ہے جو ڈانواں ڈول ہے اور تیاری کرنے کی جگہ یہ محض آخرت کا راستہ ہے۔ موت تیرے تعاقب میں لگی ہے، تو لاکھ بھاگے، بچ نہیں سکتا۔ ایک نہ ایک دن تجھے شکار ہو جانا ہے، لہٰذا ہوشیار رہ کہ موت ایسی حالت میں نہ آجائے کہ تو ابھی توبہ اور انابت کی فکر میں ہی ہو اور وہ درمیان میں حائل ہوجائے۔ ایسا ہوا تو بس تو نے اپنے آپ کو ہلاک کرڈالا۔ فرزند! موت اپنے عمل پر اور موت کے بعد کی حالت پر، ہمیشہ تیرا دھیان رہے، تاکہ جب اس کا پیام پہنچے تو تیرا سب کچھ پہلے سے ٹھیک ٹھاک ہو، اور تجھے اچانک اس پیام کو نہ سننا پڑے۔

فرزند! دنیا میں دنیا داروں کی محویت اور اس کی طلب میں ان کی مسابقت تجھے فریب نہ دے۔ کیونکہ خدا نے دنیا کی حقیقت کھول دی ہے۔ خدا ہی نے نہیں خود دنیا نے بھی اپنے فانی ہونے کا اعلان کر دیا ہے، اپنی برائیوں پر سے نقاب اٹھا دیا ہے۔ دنیادار تو بھونکنے والے کتے اور پھاڑ کھانے والے درندے ہیں جو ایک دوسرے پر غراتے ہیں، طاقتور کمزور کو کھاتے ہیں، بڑے چھوٹوں کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ان میں کچھ تو بندھے ہوئے اونٹ ہیں جو نقصان کرنے سے عاجز ہیں اور کچھ چھٹے ہوئے اونٹ ہیں جو ہر طرح کا نقصان کرتے پھرتے ہیں۔ ان کی عقل کم ہے۔ انجان رستوں پر پڑے ہوئے ہیں، مصائب کی ناہموار وادیوں میں بلائیں اور آفتیں چرنے کے لیے چھوڑ دیے گئے ہیں نہ کوئی ان کا گلہ بان ہے نہ رکھوالا۔

دنیا انھیں تاریک گزرگاہوں میں لے گئی ہے۔ ان کی آنکھیں روشنی کے منار نہیں دیکھ سکتیں۔ وہ دنیا کی بھول بھلیوں میں پھنس گئے اور اِس کی لذتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اِسی کو اپنا رب بنا لیا ہے۔ دُنیا اِن کے ساتھ کھیل رہی ہے اور وہ اُس سے کھیل رہے ہیں۔ افسوس، انھوں نے آنے والی زندگی بالکل فراموش کر دی ہے۔ عنقریب تاریکی چھٹ جائے گی اور قافلہ منزل پر پہنچ جائے گا۔ لیل و نہار کے مرکب پر جو سوار ہے وہ تو برابر رواں دواں ہی ہے، چاہے کسی جگہ کھڑا ہی کیوں نہ ہو، مسافر ہے اگرچہ کہیں مقیم ہی کیوں نہ ہو۔

فرزند! تو اپنی سب امیدوں میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ زندگی سے زیادہ جی نہیں سکتا۔ تو بھی اسی راہ پر چلا جا رہا ہے، جس پر تجھ سے پہلے لوگ جا چکے ہیں۔ لہٰذا اپنی طلب میں اعتدال مدنظر رکھ۔ کمائی میں سلامت روی سے تجاوز نہ کر۔ یاد رکھ کوئی طلب ایسی بھی ہوتی ہے جو حرماںنصیبی کی طرف لے جاتی ہے۔ نہ ہر مانگنے والے کو ملتا ہے نہ ہر خوددار محروم رہتا ہے۔ ہر قسم کی ذلت سے اپنے آپ کو بچا، چاہے وہ کیسی ہی مرغوبات کی طرف لے جانے والی ہو۔ کیونکہ عزت کا معاوضہ تجھے کبھی مل ہی نہیں سکتا۔ دوسروں کا غلام نہ بن، کیونکہ خدا نے تجھے آزاد پیدا کیا ہے۔ وہ بھلائی بھلائی نہیں جو برائی سے آئے، وہ دولت دولت نہیں جو ذلت کی راہ سے حاصل ہو۔

خبردار، خبردار! تجھے حرص و ہوس ہلاکت کے گھاٹ پر نہ لے جائے، جہاں تک ممکن ہو اپنے اور خدا کے درمیان کسی کے احسان کو نہ آنے دے کیونکہ تجھے تیرا حصہ بہرحال مل کر رہے گا۔ خدا کا دیا ہوا تھوڑا مخلوق کے دیے ہوئے بہت سے زیادہ ہے اور شریفانہ بھی۔ اگرچہ مخلوق کے پاس بھی جو کچھ ہے خدا ہی کا دیا ہوا ہے۔ خاموشی کی وجہ سے جو خرابی پیدا ہوتی ہے اس کا تدارک آسان ہے۔ مگر گفتگو سے جو خرابی پیدا ہوتی ہے اس کا تدارک مشکل ہے۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ مشک کا منہ باندھ کر ہی پانی روکا جاتا ہے؟ اپنا مال نہ خرچ کرنا دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے کہیں اچھا ہے۔ مایوسی کی تلخی سوال کرنے سے بہتر ہے اور آبرو کے ساتھ محنت و مزدوری بدکاری کی دولت سے بہتر ہے۔ آدمی اپنا راز خود ہی خوب چھپا سکتا ہے۔ کبھی آدمی اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مارتا ہے۔ جو زیادہ بولتا ہے زیادہ غلطی کرتاہے۔

نیکوں کی صحبت اختیار کرو، نیک ہو جائو گے، بدوں کی صحبت سے پرہیز کرو گے، بدی سے دور رہو گے۔ حرام کھانا، بدترین کھانا ہے۔ کمزور پر ظلم کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔ جب نرمی سختی بن جائے تو سختی نرمی بن جاتی ہے۔ کبھی دوا بیماری ہو جاتی ہے اور بیماری دوا۔ کبھی بدخواہ خیرخواہی کر جاتا ہے اور خیرخواہ بدخواہی۔ موہوم امیدوں پر تکیہ نہ کرو، کیونکہ یہ بے عقلوں کا سرمایہ ہے۔ تجربے یاد رکھنے کا نام عقل ہے۔ بہترین تجربہ وہ ہے جو نصیحت آموز ہو۔ موقع سے فائدہ اٹھائو اس سے پہلے کہ وہ تمھارے خلاف ہو جائے۔ ہر کوشش کرنے والا کامیاب نہیں ہوتا۔ ہر جانے والا واپس نہیں آتا۔ مال کا ضائع کرنا اور عاقبت کا بگاڑنا فساد عظیم ہے۔ ہر چیز کا ایک انجام ہے، جو کچھ تیرے نوشتہ تقدیر میں ہے جلد یا بدیر سامنے آجائے گا۔ تاجر ایک لحاظ سے قمارباز ہوتا ہے۔ کبھی قلت میں کثرت سے زیادہ برکت ہوتی ہے۔ توہین کرنے والے مددگار اور سوء ظن رکھنے والے دوست میں ذرا بھلائی نہیں ، جب تک زمانہ ساتھ دے زمانے کا ساتھ دو۔ حرص تجھے اندھا نہ کر دے اور عداوت تجھے بے عقل نہ بنانے پائے۔

دوست دوستی توڑے تو تم اسے جوڑ دو۔ وہ دوری اختیار کرے تو تم نزدیک ہوجائو۔ وہ سختی کرے تو تم نرمی کرو۔ وہ غلطی کرے تو تم اس کے لیے عذر تلاش کرو۔ دوست کے ساتھ ایسا برتائو کرو گویا تم غلام ہو اور وہ آقا لیکن خبردار، وہ برتائو بے محل نہ ہو۔ نااہل کے ساتھ نااہل نہ بنو۔ دوست کے دشمن کو دوست نہ بنائو ورنہ دوست بھی دشمن ہوجائے گا۔ دوست کو بے لاگ نصیحت کرو، بھلی لگے یا بُری ۔ غصہ پی جایا کرو، میں نے غصہ کے جام سے زیادہ میٹھا کوئی جام نہیں دیکھا۔ جو تم سے سختی کرے، تم اس سے نرمی کرو، خود بخود نرم پڑ جائے گا۔ دوستی کاٹنا ضروری ہی ہو تو بھی کچھ نہ کچھ لگائو باقی رکھو تاکہ جب چاہو دوستی کو جوڑ سکو۔

جو تم سے حسن ظن رکھے، اُس کے حسن ظن کو جھوٹا نہ ہونے دو۔ دوست کے حقوق اس گھمنڈ میں تلف نہ کرو کہ دوست ہے کیونکہ جس کے حقوق تلف کر دیے جاتے ہیں وہ دوست نہیں رہتا۔ ایسے نہ ہو جائو کہ تمھارا خاندان ہی تمھارے ہاتھوں سب سے زیادہ بدبخت (اور تیری نیکی سے محروم) بن جائے۔ جو کوئی بے پروائی ظاہر کرے اس کی طرف نہ جھکو۔ دوست دوستی توڑنے میں اور تم دوستی جوڑنے میں برابر نہ ہو، تمھارا پلہ ہمیشہ بھاری رہے گا۔ نیکی سے زیادہ بدی میں تیز نہ ہو۔ ظالم کے ظلم سے تنگ دل نہ ہو، کیونکہ وہ خود اپنا نقصان اور تمھارا نفع کر رہا ہے۔ جو تمھیں خوش کرے اس کا صلہ یہ نہیں ہے کہ تم اسے رنج پہنچائو۔

فرزند! رزق ۲ قسم کا ہوتا ہے ایک وہ جس کی تو جستجو کرتا ہے، دوسرا وہ جو تیری جستجو کرتا ہے۔ پس اگر تو جستجو چھوڑ دے تو رزق خود ہی تیرے پاس آجائے گا۔ دنیا میں تیرا حصہ بس اتنا ہے جتنے سے تو اپنی عاقبت درست کر سکے۔ اگر تو اس چیز پر رنج کرتا ہے جو تیرے ہاتھ سے نکل گئی ہے تو ہر اس چیز پر رنج کر جو تیرے ہاتھ میں نہیں آئی ہے۔ آیندہ کو گزشتہ سے غیر سمجھو۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جن پر نصیحت نہیں، ملامت اثر کرتی ہے۔ داناآدمی، معمولی تادیب سے مان جاتا ہے مگر چوپایہ مار سے باز آتا ہے۔

خواہشوں اور دل کے وسوسوں کو صبر و یقین کی عزیمتوں سے زائل کر دو۔ جو کوئی راہ اعتدال سے تجاوز کرتا ہے، بد راہ ہو جاتا ہے۔ دوست، رشتے دار کی طرح ہے۔ سچا دوست وہی ہے جو پیٹھ پیچھے حق دوستی ادا کرے۔ نفس کی خواہشوں اور بدبختیوں میں ساجھا ہے۔ کتنے اپنے ہیں جو غیروں سے زیادہ غیر ہیں اور کتنے غیر ہیں جو اپنوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ پردیسی وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں۔ جس نے راہِ حق چھوڑ دی اس کا راستہ تنگ ہے۔ جو اپنی حیثیت پر رہتا ہے اس کی عزت باقی رہتی ہے۔ سب سے زیادہ مضبوط تعلق وہ ہے جو آدمی اور خدا کے مابین ہے۔ جو کوئی تیرا پردہ نہیں کرتا وہ تیرا دشمن ہے۔ جب امید میں موت ہو تو ناامیدی زندگی بن جاتی ہے۔ ہر عیب ظاہر ہو جاتا ہے نہ ہر موقع سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ کبھی آنکھوں والا ٹھوکر کھا جاتا اور اندھا سیدھی راہ چلا جاتا ہے۔ بدی کو دور رکھو کیونکہ جب چاہو گے، لوٹ آئے گی۔ احمق سے دوستی کاٹنا عقلمند سے دوستی جوڑنے کے برابر ہے۔

جو دنیا پر بھروسا کرتا ہے، دنیا اس سے بے وفائی کر جاتی ہے اور جو دُنیا کو بڑھاتا ہے، دُنیا اسے گرا دیتی ہے۔ ہر تیر نشانے پر نہیں بیٹھتا۔ جب حاکم بدلتا ہے تو زمانہ بھی بدل جاتا ہے۔ سفر سے پہلے سفر کے ساتھیوں کو دیکھ لو۔ مقیم ہونے سے پہلے پڑوسیوں کی جانچ کر لو۔ خبردار، تمھاری گفتگو میں ہنسانے والی کوئی بات نہ ہو، اگرچہ کسی دوسرے کا مقولہ ہی کیوں نہ ہو۔ اپنے کنبے کی عزت کرو، کیونکہ وہ تمھارا بازو ہے جس سے اڑتے ہو، بنیاد ہے جس پر ٹھہرتے ہو، ہاتھ ہے جس سے لڑتے ہو۔ فرزند! میں تیری دنیا و عقبیٰ خدا کے سپرد کرتا ہوں اور دونوں جہاں میں اس ذات برتر سے تیرے لیے فلاح و بہبود کی دعا کرتا ہوں۔
Muhammad Tauseef Paracha
About the Author: Muhammad Tauseef Paracha Read More Articles by Muhammad Tauseef Paracha: 16 Articles with 17377 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.