احتجاج ہمارا حق ہے

پروفیسرمظہر

کل یومِ عشقِ رسول منایا گیا لیکن کیا عشق کبھی دنوں ، مہینوں یا سالوں کا محتاج بھی ہوا کرتا ہے؟۔کیا عشق ناپ تول کے کیا جاتا ہے یا اسے پیمانہ روز و فردا سے ماپا جاتا ہے؟۔ عشق تو وہ جذبہ جاوِداں ہے جو ہو گیا تو بس ہو گیا ۔ ایک مسلمان کا عشق تو اُس لمحہ پاک سے ہی شروع ہو جاتا ہے جب نو مولود کے کان میں اللہ اکبر کی پہلی صدا گونجتی ہے ۔ہم بھلے زندگی کی پُر خار راہوں سے گزرتے ہوئے اِس جذبہ بر حق کو محسوس نہ کرسکیں لیکن جب ٹھوکر لگتی ہے تو بے اختیار زبان سے ”یا اللہ“ ہی نکلتا ہے جو علامت ہے اس امر کی کہ بھلے ہمارے اذہان کو طاغوت نے بھول بھلیوں میں ڈال رکھا ہے لیکن دلوں کو مسخر تو وہ کر چُکا جو خالق و مالکِ کائینات ہے ۔تحقیق کہ دلوں کی تسخیر کا دوسرا نام عشق ہی ہے جو زمان و مکاں کی قیدسے آزاد ہے ۔اِس لیے کسی ایک دن کو عشقِ الٰہی یا عشقِ رسول کے لیے مختص کر دینا سمجھ سے بالا تر ہے ۔

کل جو کچھ ہوا وہ ایک سانحہ تھا ۔ سوگوارفضائے وطن میں ہر طرف زہر سا گھُلا نظر آیا ۔آگ اور خون کی یہ بارش اکیس گھروں میں صفِ ماتم بچھا گئی ،ہسپتال زخمیوں کی آہ و بقا سے گونجتے رہے اورنبی کے متوالے شرمندہ شرمندہ ۔قصور مگر کس کا ہے؟لاریب اُن حاکمانَِ وقت کا جنہوں نے اپنی سیاسی مجبوریوں کی بنا پر یہ دن منانے کا اعلان تو کر دیا لیکن قیادت کی سعادت سے محروم رہے۔قصور ہے اِن گُرگانِ باتمیز کا جنہیں زعم تو اٹھارہ کروڑعوام کی نمائندگی کا ہے لیکن وقت آنے پروہ اُنہیں بے مہار چھوڑ کراپنے یخ بستہ محلوں میں استراحت فرماتے رہے اور اُن مذہبی رہنماؤں کا جو سرشاری عشقِ نبی کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن عمل دوسروں پہ چھوڑ دیتے ہیں۔اگر خُدا انہیں توفیق دیتا تو وہ الیکٹرانک میڈیا پر جلوہ گر ہونے کی بجائے اِن جلوسوں کی قیادت کرتے ۔لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ بزورِ نطق دلوں میں اترنے والے عالم نا پید اور اہلِ قلم مفقود ہیں۔ اگر یہ قحط الرجال نہ ہوتا تو کوئی تو ہوتا جس کی باتوں کی شبنمی ٹھنڈک سے دلوں میں دہکتے الاؤ کچھ ماند پڑ جاتے-

وزیرِ اعظم صاحب نے چند مخصوص لوگوں کے سامنے ایک جذباتی تقریر تو کر ڈالی لیکن ان کی زباں کہیں بھی دل کی رفیق نظر نہ آئی ۔اُن کے لہجے میں وہ حدّت سرے سے موجود ہی نہیں تھی جو کسی عاشقِ رسول کے لہجے میں ہو تی ہے ۔وہ کردار کے غازی تو کجا ، گفتار کے غازی بھی نہ بن سکے ۔لیکن ایک راجہ پرویز اشرف پر ہی کیا موقوف یہاں تو عالمِ اسلام کے سارے حکمران اسی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔وہ خوب جانتے ہیں کہ اُمتِ مسلمہ کے دل و دماغ شدتِ غم سے مفلوج اور زبانیں سلگ رہی ہیںلیکن پھر بھی وہ چوہوں کی طرح اپنے بلوں میں گھُسے بیٹھے ہیں۔وہ عاقبت نا اندیش اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اپنے زمینی خُداو ¿ں کی چوکھٹ پہ سجدہ ریزی میں ہی عافیت ہے ۔اگر اُن میںعزمِ صمیم ہو تو ہر قدم پر اک نئی راہگزرملتی ہے۔دُنیا کے پچپن فیصد صارف اسلامی ممالک میں بستے ہیں ۔دُنیا جہاں کی ہر نعمت ان کے پاس ہے ۔زمین نے اپنے سارے خزانے ان کے سامنے اُگل دیئے ہیں ۔ایٹمی طاقت یہ ہیں اور اہلِ مغرب کے سارے بنک ان کی دولت سے معمور ہیں ۔اگر یہ یورپ اور امریکہ کا معاشی بائیکاٹ کر دیں تو اُن کی معیشت یہ دھچکا سہہ نہ سکے ، اپنی دولت واپس لے آئیں تو بنک دیوالیہ ہو جائیں ، تیل کی ترسیل بند کر دیں توکہرام بپا ہو جائے اور اگر اقوامِ متحدہ کی رکنیت سے مستعفی ہو جائیں تو امریکی دُھن پہ ناچنے والی اِس ”نائیکہ “ کا کوٹھا ویران ہو جائے لیکن یہ کعبے کے متولی تو اُن ”ابابیلوں“ کے انتظار میں ہیں جو آسمانوں سے اتر کر کعبے کو بچانے آئیں ۔تحقیق کہ کعبے کا مالک تو اپنے کعبے کو بچا ہی لے گا لیکن انہیں نشانِ عبرت بنانے کے بعد ۔اُس نے انہیں اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا اور انہوں نے اپنے عشرت کدے سجا لیے ۔

روس کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے بعد امریکی پالیسی سازوں نے کہا کہ عالمِ اسلام ابھی باقی ہے ۔ٹیکساس کے تیل کے تاجر اور چرچ کے نمائندے بُش نے نائن الیون کے فوراََ بعد ”صلیبی جنگوں“ کا اعلان کر دیا ۔لیکن ہماری حرماں نصیبی کا یہ عالم ہے کہ انہی صلیبی جنگوں میں ہم اُس کے اتحادی ہیں ۔لاکھوں مسلمان شہید کر دیئے گئے اور کروڑوں کو شہید کرنے کی منصوبہ بندیاں ہیں ۔ لیکن ہر اسلامی ملک اپنے تئیں یہی سمجھتا ہے کہ اُس کی باری نہیں آئے گی ۔باری تو آئے گی البتہ عریاں حقیقتوں سے نظریں چُرانے اور ظلمتوں سے خوف کھانے والے کبھی سپیدہ ¿ سحر نمودار ہوتے نہیں دیکھ پائیں گے۔اُن کی ہوسِ زر و زیست نے اُمتِ مسلمہ کو ذلتوں کے غارِ عمیق میں دھکیل دیا ہے اور اب تو یہ عالم ہے کہ ہر مرحلہ زیست پہلے سے کڑا ، آغوشِ اُمید خالی ، خوشبوئیں گریزاں ، موجِ صبا خفا اور دامانِ رحمت دور بہت دور نظر آتا ہے۔حالی نے کہا تھا
زندہ رہنے کی ہے ہوس حالی
انتہا ہے یہ بے حیائی کی

یہ بے حیائی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے کہ آج دینِ مبیں طاغوت کی زد میں ہے اور ہمارا احتجاج بھی گراں گزرتا ہے ۔معاملہ اُس نبی مکرم کا ہے کہ جس کا ذکر ہی اتنا عطر بیز ہے کہ فضائیں آگہی کی خوشبو سے معطر ہو جاتی ہیں ۔لیکن الیکٹرانک میڈیا پر برا جمان سیکولر دانشور مُنہ ٹیڑھے کرکے طنز و تعریض کا طوفان اُٹھائے ہوئے ہیں۔انسانی جانوں اور املاک کے زیاں کا دُکھ تو سبھی کو ہے لیکن پاکستان میں ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا۔بینظیر کی شہادت پر پھوٹ پڑنے والے ہنگاموں میں اس سے کئی گنا زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا ، کراچی میں ہر روز اس سے زیادہ لوگ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتے ہیں ، پشاور میں خود کُش حملوں اور بم دھماکوں میں ہر روز شہادتیں ہوتی ہیں ، کوئٹہ میں روزانہ ایسے سانحے رونما ہوتے ہیں اور وزیرستان میں ہر روز معصوم ڈرون حملوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں لیکن سیکولر دانشوروں کی غیرت نے کبھی جوش مارا نہ نیوز چینلز پر ایسی ہا ہا کار مچی جیسی اب دیکھنے میں آ رہی ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ کہیں یہ سب کچھ ایک منظم سازش کے تحت کیا جا رہا ہو ؟۔تحقیق کہ آقا کی ذات سے منسوب اِس دن کے موقعے پر ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ، ہر گز نہیں ہونا چاہیے تھا ۔سوال مگر یہ بھی ہے کہ اِس کے پیچھے کون سے ہاتھ کار فرما تھے ؟۔ سارے یورپ اور امریکہ میں لوگ سفارت خانوں کے سامنے جا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جو ان ہنگاموں کا بنیادی سبب بنا ۔جب اسلام آباد کا امریکی سفارت خانہ اور لاہور اور کراچی کے قونصلیٹ پہلے ہی خالی کروا کر عملے کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا تھا تو پھر احتجاج کرنے والوں کو وہاں تک جانے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 865 Articles with 559643 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More