میلاد شرعی تناظر میں

جہاں تک یہ کہنا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلیٰ اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ١٢ربیع الاول کو نہیں بلکہ ٩ربیع الاول کو اس دنیا میں تشریف لائے-اور اس حوالے سے ایک ریفرنس بھی دیا گیا ہے-تو میں یہ دلیل پیش کرو گا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم ہمیشہ بڑی جماعت کے ساتھ رہنا کیونکہ بڑی جماعت کبھی غلطی پر نہیں ہوگی-آج بھی مسلمانوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا ولادت با سعادت کا دن ١٢ربیع الاول ہے-اس لیے بڑی جماعت ہی کے ساتھ چلنا چاہیے نہ اقلیت کے ساتھ- اور حکم بھی یہی ہے کہ امت کا اجماع ہمیشہ حق بات پر ہوگا

یہ کہنا کہ مسلمانوں کی دو عیدیں ہیں-تو زرا غور کرنے کی بات ہے کہ وہ دن جس دن الله کا محبوب، دونوں جہاں کے سردار حضرت محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اس جہاں میں تشریف لائے-یہ دن عید سے کم نہیں بلکہ زیادہ خوشی کا دن ہے-اس دن جتنی خوشی منائی جائے وہ کم ہے

جہاں تک ریفرنس کی بات ہے تو یہ ریفرنس کیا کم ہے کہ جتنے بھی اولیاء کرام الله رحمتہ اس وقت موجود ہیں اور جو پہلے گزرے ہیں وہ سب میلاد مناتے تھے،مناتے ہیں اور تا قیامت میلاد منایا جاتا رہے گا- جو حوالہ حضرت مجدد الف ثانی الله رحمتہ کا پیش کیا گیا ہے تو انہوں نے میلاد کومنانے سے روکا نہیں-بلکہ میلاد کو شریعت کے مطابق نہ منانے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کیا ہے-جتنے بھی علماء حق میلاد کی محافل کا انعقاد کرتے ہیں اس محفل میں شریعی اصولوں کی پاسداری کی جاتی ہے، نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے یہ کہنا بدعت ہے کہ نماز کے وقت نعت خوانی جاری رکھی جاتی ہے-اور یہ بھی یاد رہے بدعت گمراہی ہے-نعت خواں کا پیسوں کے لیے نعت پڑھنے کا سوال ہے تو میں یہ کہوں گا کہ جو محفل کے منتظمین ہوتے ہیں- وہ اگر نعت خوانوں کے آنے جانے کے اخراجات اٹھاتے ہیں-اور ان کو پیسے دیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں-ہاں بجلی چوری کی صورت میں ثواب کی بجائے گناہ ہوگا- یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کوئی بجلی چوری کررہا ہے یا صرف گمان ہے کہ بجلی چوری ہوئی-میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جو لاکھوں روپے لگا کر محفل کا انعقاد کرے گا-وہ کبھی بھی تھوڑے سے پیسے بچانے کے لیے بجلی چوری نہیں کرے گا

جہاں تک صحابی رضی الله تعالیٰ عنہ کے میلاد منانے کا حوالہ مانگا جاتا ہے تو میں یہ پوچھتا ہوں کہ اس سے منع بھی تو نہیں کیا گیا-اور صحابہ کرام رضی الله تعالی ٰعنہم سے ہی ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اپنی ولادت و باسعادت کے دن یعنی ہر پیر کو روزہ رکھتے تھے- یہ میلاد منانے والوں کے لیے بڑی دلیل ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تو اپنی ولادت با سعادت کے دن روزہ رکھ کر خوشی مناتے تھے تو ہم سال میں ایک دن یعنی ١٢ربیع الاول کو خوشیاں مناتے ہیں-اگرچہ یہ سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے تاہم ربیع الاول کے مہینے میں یہ سلسلہ عروج پر پہنچ جاتا ہےاور ١٢ربیع الاول کو الحمدالله ہم شایان شان منانے کی کوشیش کرتے ہیں-پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں ذکر الله کے حبیب حضرت محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا ہو وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے- میلاد منانا سنت رسول اللہ صلیٰ اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ہر پیر کو روزہ رکھ کر میلاد منایا اور صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم نے رسول اللہ صلیٰ اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کی- اس لیے ہمیں بھی ١٢ربیع الاول کو روزہ رکھنا چاہیے یہ سنت رسول اللہ صلیٰ اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہے

الله ہمیں ربیع الاول کے مبارک مہینے میں نیک عمل کرنے اور شریعت عمل ہونے کی توفیق عنائت فرمائے-آمین
Waqas30
About the Author: Waqas30 Read More Articles by Waqas30: 11 Articles with 17237 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.