ناموس رسالت ﷺ کا دفاع ۔۔۔۔۔امت کی بقا

ناموس رسالت ﷺ کے بارے میں غیرت الہٰی اس قدر حساس ہے کہ قرآن نے گستاخان رسول کو ہمیشہ سخت لہجے میں جواب دیا ان پرلعنتیں بر سا ئیں اور ان کو عذاب الیم کی وعیدیں سنائیں مثلاً ابو لہب کے بارے میں سورة لہب نازل ہوئی امیہ بن خلف کے بارے میں سورة ہمز اور ابی بن خلف کے بارے میں سورة یٰسین 78تا83،عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں سورة فرقان آیات 23تا31ولید بن مغیرہ کے بارے میں سورة زخرف آیت 31تا32اور القلم آیات 8سے12،نفر بن الحارث کے بارے میں سورة لقمان آیت7,6اور عاص بن وائل سہمی کے بارے میں مکمل سورة کوثر نازل ہوئیں یہ تو رب ذالجلال کا توہین رسالت کرنے والوں کے بارے میں سخت رد عمل تھا ان سب دشمنوں کا خوفناک انجام کسے معلوم نہیں ابو لہب اس کے بیٹے عقبہ، ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل سہمی کی موتیں بڑی عبرتناک تھیں پھر خود رسول مقبول ﷺ کے حکم پر اس طرح کے پندرہ کے لگ بھگ گستاخوں کا قتل اور عبرتناک انجام سب کے سامنے ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کی اطاعت اور اتباع مسلمانوں پر واجب قرار دی تو اس کے لئے دلوں میں حب رسول ﷺ کا جذبہ پیدا کیا اور توہین رسالت ﷺ سے خود اللہ کریم نے حضرت محمد ﷺ کا دفاع کیا اور مسلمانوں پر بھی رسول اکرم ﷺ کی عزت و ناموس اور آبرو کا احترام کرنا اور اس کی حفاظت کرنا واجب قرار دیا جب تک آپ ﷺ کی سچی محبت دل میں موجود نہیں کوئی آپ ﷺ کی پیروی کیسے کر سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و محبت کیسے حاصل کرسکتا ہے۔ایک مسلمان کے نزدیک اللہ کے رسول ﷺ کی محبت عین ایمان ہے مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اللہ کے رسول ﷺ کی شان اقدس میں ادنیٰ سی گستاخی بھی برداشت نہیں کر سکتا ۔حضور خاتم النبین ﷺ اور امت مسلمہ کے مابین وہی ربط تعلق ہے جو جسم و جان کا ہے آپ ﷺ کی ناموس ملت اسلامیہ کا اہم ترین فریضہ ہے مسلمان آپ ﷺ کی توہین ،تنقیص ،بے ادبی برداشت نہیں کر سکتا وہ اپنے آقا و مولا حضرت محمد ﷺ کی عزت و ناموس پر مر مٹنے اور اس کی خاطر دنیا کی ہر چیز قربان کرنے کو زندگی کا مقصد سمجھتا ہے اس پر تاریخ کی کسی جرح سے نہ ٹوٹنے والی ایسی شہادت موجود ہے جو مسلمہ حقیقت بن چکی ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو خواہ وہ ایشیا ہو یا یورپ، افریقہ ہو یا کوئی خطہ ارض جہاں بھی اقتدار رہا وہاں کی عدالتوں نے اسلامی قانون کی رو سے شاتمان رسول ﷺ کے لئے سزائے موت کا فیصلہ سنایا اس کے بر عکس جب کبھی یا جہاں ان کے پاس حکومت نہیں رہی وہاں جانثاران رسول ﷺ نے غیر مسلم حکومتوں کے رائج الوقت قانون کی پرواہ کئے بغیر گستاخانِ رسول ﷺ کو کیفر ِ کردار تک پہنچایا اور خود ہنستے مسکراتے تختہ دارپر چڑھ گئے اور نسل نو کو یہ پیغام دے گئے۔
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

در اصل ایمان نام ہے محبت رسول ﷺ کا، حب رسول ﷺکا، محبت رسول ﷺ اور حب رسول ﷺ کے بغیر ایمان کی تکمیل ناممکن ہے بلکہ مسلمان ہونے کی شرط اولین، عشقِ رسولﷺ ہے۔

امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ کا فتویٰ:اس طرح امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ کے سامنے ایک شخص نے کدو کے بارے میں کہا انا مااحبہ (میں اس کو پسند نہیں کرتا ) یہ سن کر امام موصوف نے تلوار کھینچ لی اور فرمایا”تجدید ایمان کرو ورنہ میں تمہیں ضرور قتل کردوں گا۔

ادھر امام مالک کا یہ قول اس موضوع پر حرف آخر ہے کہ ”امت کو زندہ رہنے کا کیا حق ہے ۔جب اس کے رسول ﷺ کو گالیاں دی جائیں“

سچ تو یہ ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال کے ایمان افزوز افق پر تواتر سے بکھری ہوئی داستان تحفظ ناموس رسالت کو تمام ترجزئیات کے ساتھ ترتیب دینا اور عشق و عقیدت کے ان ایمان افروز نظائر کو اپنی اپنی اولیت اورزمانی و مکانی فوقیت کے ساتھ پیش کرنا میرے خامہ عاجز اورمحدود مطالعہ کی بناءپر ممکن نہیں البتہ قارئین کے ذوق کو جِلادینے کے لئے بھی توشہ آخرت اور ذریعہ نجات ہو تاریخ کے اوراق پر بکھرے ہوئے واقعات کو دیکھنے اور پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صفحہ دہر پر تحفظ ناموس رسالت ﷺ کےلئے تو قدم قدم پر جان کی بازی کی فدا کاری کو شعار بنایا جاتا رہا ہے اس راہ میں لفظوں کی مناجات نہیں بلکہ عمل کی سوغات پیش کی جاتی رہی ہے سرکار دو عالم ﷺ کی ناموس پر اشعار کے گجرے نہیں بلکہ شہادت کے لہو رنگ گلدستے بازیاب ہوتے رہے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی شاتم ر نے سول مکرم، نبی معظم ،نور مجسم ،احمد مجتبیٰ، محمد مصطفی ﷺ کی شان اقدس میں سرمو گستاخی کا ارتکاب کیا ۔عشاق مصطفی ﷺ کے قلوب میں ایسی آتش غضب بھڑ کی جس نے توہین و تضحیک کے مرتکب لعنتی کو بھسم کر دیا اور اس فتنہ کی سرکوبی کےلئے جہاد بالقلم ، جہاد باللسان اور جہاد بالسیف کا عملی مظاہرہ کیا انہوں نے منبرو محراب ،جلسہ و جلوس، اور اسٹیجوں پر اشتعال انگیز تقاریر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بے عیب محبوب (ﷺ) کی تنقیص کرنے والوں کو واصل جہنم کرکے دم لیا انہوں نے سرور کونین ﷺ کے خلاف بھونکنے والے کتوں کے گلے کاٹ دیئے اور ہر بد بخت قلم کار ،زبان دراز کوفی النار کر کے دم لیا،شاتمت خیر الانام ﷺ کی تحریک صرف عالم عرب یا ہندوستان میں نہیں بلکہ اس فتنے نے اندلس میں بھی سر اٹھایا ۔ہاں بر صغیر پا ک وہند کا یہ تحضص ہے کہ یہاںشاتمت کے بھوتوں کا قلع قمع کرنے والوں نے خود بھی جام شہادت نوش کیا جب کہ بلاد اسلامیہ میں جب بھی کسی بد بخت نے آنحضرت ﷺ کی توہین و تضحیک کی یا ان کی حیات طیبہ کو غلط رنگ دے کر استہزاءکیا تمسخر اڑایا تو مسلم حکمرانوں نے ایسے اشخاص کو قتل کروا کر اپنے بندہ مومن ہونے کا ثبوت دیا ناموس رسالت کے تحفظ کےلئے مسلمان خلفاءفقہا سبھی کا یہ موقف رہا ہے کہ جب کسی نے حضور سرور کائنات ﷺ کی شان میں گستاخی کی تو فوراً اس کے قتل کا حکم صادر کیا گیا خود نبی کریمﷺ کے عہد سعید میں گستاخی رسول (ﷺ) کا ارتکاب کرنے والے افراد کو قتل کیا گیا اسی طرح تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے سرکار مدینہ ﷺ کی توہین و تضحیک کی یا آپ ﷺ پر سبّ و شتم کیا تو انہوں نے فوراً ایسے شخص کو قتل کردیا۔حضرت سیف اللہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مالک بن نویرہ کو اس لئے قتل کر دیا کہ اس نے گفتگو میں سرکار دو عالم ﷺ کےلئے صاحبکم (تمہارے ساتھی) کا لفظ استعمال کرکے توہین کی تھی۔

شہیدان ناموس رسالت ﷺ کی عظمت یہ ہے کہ وہ نہ صرف شاتمان رسول(ﷺ) کو فی النار کرتے رہے ہیں بلکہ وارثان منبر و محراب اور خداوندان مکتب سے کوئی توقع وابستہ کئے بغیر ہی شاتمان کو عبرتناک سزا دیکر مسکراتے دار ورسن سے گزر تے رہیں ہیں اس داستان دل گداز اور ایمان افروز کی ایک جھلک ہمیں بر صغیر پاک و ہند میں بھی نظر آتی ہے مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد لحم خنزیر کھانے اور ام الخبائث پینے والے فرنگی ،مکار ہندو بنیا اور انگریز کی ناجائز اولاد قادیانی سمجھ بیٹھے تھے کہ پیہم غلامی اور فرنگی تہذیب کے مسلسل کاری حملوں سے ہندوستان کے مسلمان پر موت کا سکوت طاری ہے اس کی ایمانی نبضیں ڈوب چکی ہیں اور اس کے قلب کی دھڑکنیں خاموش ہو چکی ہیں اس کے ماتھے کی حد ت ،ٹھنڈک میں بدل گئی ہے لہٰذا انہوں نے چاہا کہ اب انہیں سپرد خاک کر دیا جائے انہوں نے باقاعدہ پلاننگ کر کے یہاں تحریک شتم رسول چلادی مختلف شہروں میں عیسائی ، ہندو ،سکھ اور قادیانی گستاخی کے مرتکب ہونے لگے اور ان کے بدبودار منہ سے نکلنے والی زہریلی آواز سے ہندوستان کی فضائیں زہر آلود ہوگئی تو ایسے لمحات میں ایک بار پھر خاک ہند سے مسلمانوں کی راکھ کے ڈھیر سے ایمان کی چنگاری سلگی اور اس نے ان گستاخوں کے وجود کو ادھیڑ کر رکھ دیا سویا ہوا شیر انگڑائی لے اٹھا،سنبھلا اور شیروں کی طرح ان گستاخوں پر پل پڑا پھر ان کے وجود کا ایسا حشر کیا کہ ہر ایک شاتم کو عبرت کی مثال بنا کر رکھ دیا اور ہر طرح کی قانونی رکاﺅٹوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انہیں جوتے کی نوک تلے مسل دیا اور دنیا وی قانون کی دفعات کے پرخچے اڑا کر اعلان کیا
پڑا فلک کو دل جلوں سے کام نہیں
جلا کر راکھ نہ کروں تو داغ نام نہیں

آج پھرگستاخ پادری ٹیری جونز نے اسلام دشمن یہودیوں سے مل کر ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی گستاخانہ فلم بنا کر توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے ۔ جس کے ذریعے غلامان محمد ﷺ کی غیرت ایمانی کا امتحان لیا ہے ۔مگر تمام مغربی دنیا کو میڈیا کے ذریعے یہ تمام دلائل دینے کا مقصد یہ ہے کہ جانثاران تحفظ ناموس رسالت سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے۔گستاخوں کا انجام دنیا کے لئے عبرت کا نشان بن گیا ۔آج مسلم دنیا و عوام مغربی مصنو عات کا بائیکاٹ کر کے اپنے نبی کریمﷺ کی گستاخی کا بدلہ لے سکتے ہیں اور ایک بار پھر غازی علم دین شہید رحمة اللہ علیہ اور غازی عامر چیمہ شہید رحمة اللہ علیہ کے روحانی پیروکار اپنے قومی و مذہبی ہیروز کی یادیں تازہ کر سکتے ہیں ۔مسلم حکمران سابقہ مسلم ہیروز کی زندگیوں کو مشعل راہ بناتے ہوئے ایمانی جذبات سے او،آئی، سی کے متحدہ پلیٹ فارم سے تحفظ ناموس رسالت کے لئے بھر پور دباﺅ ڈالیں اور سرکاری سطح پرگستاخ ممالک کا سوشل بائیکاٹ کرتے ہوئے ان ممالک کے سفیروں کو ملک بدر کردیں ۔نبی رحمت حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی توہین پر مبنی امریکہ میں بنائی جانے والی گستاخانہ فلم کی نمائش پر عالم اسلام میں سخت غم و غصہ پایا جانا ایک فطری عمل ہے ۔توہین رسالت کے حوالے سے بنائی جانے والی فلم کا مرکز و محور بھی وہی لوگ ہیں جو شیطان کے چیلے ہیں ۔ ایسے شیطانی افراد کے قبیح اعمال کا توڑ بھی بڑی سمجھ بوجھ اور دانش مندی سے دینا ضروری ہے ۔آزادی اظہار کے نام پر کسی کے جذبہ ایمانی کو مجروح کرنے اور مقدس ترین ہستیوں کے بارے میں گستاخی کی اجازت کسی طرح بھی نہیں دی جا سکتی ۔لہٰذا ایسے بد بخت اور بد طینت افراد کو نشان عبرت بنانا ضروری ہے ۔امریکہ نے گیارہ سال سے عالم اسلام پر اپنے تمام تر ظلم و جبر اور قہر کو آزما لیا ہے ۔ ڈالر پانی کی طرح بہائے ، گندے دل و دماغ خریدے ،ضمیر فروش حکمرانوں کو ڈالروں کا لالچ دیکر اپنا ہم نوا بنایا ، نصاب تعلیم میں تبدیلیاں اور فحاشی کو عام کر کے تہذیبی بد تمیزیاں روا رکھیںاور ساتھ ہی ساتھ ان گنت مرتبہ چھوٹے بڑے واقعات میں توہین قرآن و توہین رسالت کا تسلسل جاری رکھا ،ہر بار ان واقعات پر رد عمل ظاہر ہوا ۔تاہم بے وقوف گورے اپنی انتھک کوششوں کے نتیجے میں یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ اس امت کو بے حس کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں۔لہٰذا اس مرتبہ جس درجے کی گستاخی کا ارتکاب کیا انہوں نے یہ ٹیسٹ کیا ہے کہ امت شاید اسے ہضم کر لے گی لیکن غیر ت مند قومِ مسلم کے شدید رد عمل سے ان بد بخت گستاخانِ رسول کو ہلاکت خیز مایوسی کا دن دیکھنا پڑا ہے ۔دنیا کے ہر خطہ میں جہاں بھی غلامانِ رسول آباد ہیں اپنے آقا و مولا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ سے اظہار محبت کرتے ہوئے اس ناپاک فلم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔اب مغرب کو سمجھ جانا چاہئے کہ اس نے کتنی آنکھوں کو خون کے آنسو رلایا، کتنی داڑھیوں کو آنسوﺅں سے بھگویا مگر پھر بھی قوم رسول ہاشمی کی زبانیں ہمہ وقت الصلوٰة و السلام علیک یا رسول اللہ ﷺ کی صدائیں بلند کئے ہوئے ہے ۔
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 619068 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.