گستاخیاں.... شکست کی علامت

اہل مغرب گزشتہ چند سالوں سے اسلام پر پے درپے حملے کر رہے ہیں۔ عراق، کویت، مشرق وسطیٰ، فلسطین اور افغانستان پر فوجی حملوں میں مسلسل ناکامی کے بعد انہیں اپنے شہروں اور مغرب کے اہم خاندانوں میں اسلام کی طرف رغبت ہضم نہیں ہورہی۔ امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو نے مسلمانوں کو مٹانے کے لیے مشترکہ عسکری محاذ قائم کر رکھا ہے۔ جس کو پورے عالم کفرکے انسانی اور مالی وسائل بھی میسر ہیں۔ بدقسمتی سے کچھ مسلمان ممالک بھی نیٹو کو پس پردہ مالی معاونت کر رہے ہیں۔ اس کے باوجودجنگی میدان میں وہ مسلمانوں کو شکست دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔عسکری میدان میں پوری دنیابھر کی قوت صرف کرنے کے ساتھ ساتھ ابلاغ کے محاذ پر بھی اہل کفر نے مسلمانوں کو پہلے رجعت پسند اور بعد میں دہشت گرد قرار دینے کے لیے جھوٹی کہانیاں گھڑی گئیں ۔ سی آئی اے اور اس کے اتحادی تنظیموں نے دنیا کے مختلف ممالک میں دہشت گردی کے واقعات کرکے اس کا الزام مسلمانوں پر عائد کیا ۔ عالمی میڈیا پر امریکہ اور یہودیوں کے تسلط کی وجہ سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے ہر طرح کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو مغلوب کرنے کی ساری سازشیں ناکام ہوتیں گئیں ۔ مغربی معاشرے میں اسلام کی طرف رغبت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور مغربی دنیا کے اہم ترین خاندانوں کے مرد و زن تیزی سے اسلام قبول کر رہے ہیں۔

مغربی پروپیگنڈے کے باوجود اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے یہودیوں اور عیسائیوں کی نیندیں حرام کررکھی ہیں۔دلیل کی زبان میں ان کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں۔ یہود و نصاریٰ نے الہامی کتب میں تحریف کرکے اپنی مرضی کے مذاہب تشکیل دے رکھے ہیں۔ جن میں انسانوں کے لیے کوئی رغبت نہیں پائی جاتی۔ مغرب کی اکثریت مذہب گریز ہے ، انہیں معمولی علم بھی نہیں کہ عیسائیت اور یہودیت کی تعلیمات کیا ہیں، محض نسلی طور پر وہ عیسائی یا یہودی ہیں۔ جبکہ ان کی مذہبی قیادت بزور قوت اپنے مذاہب کا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہیں۔جب بش نے افغانستان پر فوج کشی کے احکامات جاری کیے تھے تو اس نے برملا یہ کہا تھا کہ ہم ایک مقدس جنگ (صلیبی جنگ) کا آغاز کررہے ہیں۔وہ اسی مقصد کے لیے عراق پر حملہ آور ہوئے تھے، بہانہ کیمیکل ہتھیاروں کو بنایا گیا اور پورے عراق میں سے ایک پاؤ کیمیکل ہتھیار برآمد نہ کرنے کے باوجود وہ اپنے جھوٹ پر قائم ہیں۔

کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود وہ اسامہ بن لادن کو تلاش نہ کرپائے اور بلآخر ایبٹ آباد کی من گھڑت سٹور ی کے ذریعے دنیا کو بیوقوف بنایا جارہا کہ اسامہ بن لادن کو موت کے منہ میں دھکیل دیاگیا ہے۔ امریکی عوام کیا اتنے بے عقل ہیں کہ وہ اوبامہ سرکار کی من گھڑت سٹوری پر ٹیکسوں کی بھاری رقم بے مقصد جنگ میں جھونکنے پر مطمئن ہو جائیں گے۔ اگر اسامہ ان کے ہاتھ لگ جاتا تو اس کے مردہ لاشے کی ہزاروں تصاویر اور ویڈیو عالمی میڈیا میں سالوں دکھائی جاتیں لیکن وہ بیچارے خالی ہاتھ واپس لوٹ کر بھی اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

مغرب کومسلسل اور عبرت ناک شکست نے اندر اور باہر سے توڑ پھوڑ دیا ہے۔ زخمی سانپ کی طرح وہ ہر ایک کو کاٹ کھانے پر اتر آئے ہیں۔ ان کے پاس اپنے ٹیکس گزار وں کو مطمئن کرنے کے لیے نہ کوئی فتح ہے اور نہ شکست کھانے کی کوئی معقول دلیل موجود ہے۔ ایسے میں وہ مسلمانوں کو ہر لحاظ سے نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں کوئی پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے اسے وہ اپنے ہاں پناہ دینے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے۔ شیطان سلمان رشدی سمیت سینکڑوں گستاخ رسول ان کے سرکاری مہمان ہیں، جن پر وہ کروڑوں ڈالر سالانہ برداشت کر رہے ہیں۔اسی طرح دنیا کے کسی ملک میں اگر کوئی قرآن کی توہین کا مرتکب ہو یا قرآن کریم کے نسخے جلانے کا جرم کرے اسے بھی وہ اپنے دامن میں لے لیتے ہیں۔گزشتہ ہفتے رمشا نامی لڑکی کے توہین قرآن کیس کو کس خوبصورتی سے خراب کیا گیا اور اسے صدر پاکستان لیول کا پروٹوکول دے کر اڈیالہ جیل سے فرار کیا گیا ہے۔ان سارے کیسوں کو خراب کرنے میں مغرب کی فنڈڈ این جی اوز اور مغرب کے ڈالروں پر چلنے والا پاکستانی میڈیا بھی برابر کا شریک ہے۔

اب ایک امریکی شہری سیم بیسل نے ”مسلمانوں کی معصومیت “ نامی فلم میں حضور نبی اکرم ﷺ اور اسلام کو نشانہ بنایا ہے۔ اس فلم کی تیاری پر یہودی سرمایہ کاروں نے کروڑوں ڈالر فراہم کیے ہیں۔ امریکہ میں قائم انٹرنیٹ کمپنیاں گوگل اور یو ٹیوب اس فلم کو دنیابھر میں پھیلانے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ گستاخی اور مذاق پر کوئی فرد، قوم اور ملک اسی وقت اترتا ہے جب اس کے پاس دلیل سے کچھ کہنے کو نہیں ہوتا یا وہ قوت سے کسی کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ الحمدللہ مسلمانوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی مشترکہ عسکری یلغار مسلمانوں کو نیچا نہیں دکھا سکی اور نہ ہی مغربی میڈیا کا بے سرو پا پروپیگنڈا اسلام کو بدنام کرنے کامیاب ہو سکا ہے۔ یہ بھی مقام شکر ہے کہ مغربی یلغار جس رفتار سے جاری ہے، اسلام اس سے زیادہ تیزی سے مغربی معاشرے میں قوت پکڑ رہا ہے۔ اسلامی دنیا میں مغربی حملوں کے نتیجے میں بیداری کی لہر پیدا ہوچکی ہے۔ مذہبی جماعتیں مسلمانوں کو متحد کرنے کا جو کام صدیوں میں نہیں کرپائیں تھیں وہ اللہ تعالیٰ نے اہل کفر کی بدحواسیوں سے ہفتوں میں کروا دیا ہے۔

مغربی تجزیہ نگار اور تجزیہ کرنے والے ادارے چیخ ، چیخ کر اسلامی دنیا میں بیداری کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔ ترکی، مصر، لیبیائ، شام، تیونس سمیت تمام اسلامی ممالک میں مغربی آلہ کار حکمرانوں سے عوام نے ہمیشہ کے لیے جان چھڑا لی ہے اور باقی ماندہ ممالک میں بھی امریکی آلہ کاروں اور عوام میں کشمکش جاری ہے۔ اگر مغرب نے موجودہ پالیسی جاری رکھی تو امت مسلمہ کا کام دن بدن آسان تر ہوتا جائے گا۔ اسلام کی قوت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اہل کفر دنیا بھر کی دولت کا لالچ دے کر اور اپنی عسکری قوت کے جوہر دکھا کر بھی مسلمانوں کو نہ تو گمراہ کرسکا ہے اور نہ خائف ۔ اب چند ایک گنے ،چنے منافق حکمران اور ان کے حواری مسلمانوں کی صفوں میں باقی رہ گئے ہیں۔جن کا وجود بھی چند ماہ بعد کہیں نظر نہیں آئے گا۔

مسلمان حکمرانوں نے شان رسالت ﷺ میں گستاخی کے خلاف سرکاری سطح پر خاموشی اختیارکرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ اس کام میں اہل کفر کے ہمنوا ہیں۔ عوام نے اپنے جذبات کا اظہار کرکے اپنے محبوب پیغمبر محمد ﷺ سے اپنی محبت کا ثبوت بھی دے دیا ہے اور امریکہ، یورپ اور ان کے حواری مسلمان حکمرانوں سے برات کا اعلان بھی کردیا ہے۔ اب مسلمانوں کے لیے قابل توجہ امر یہ ہے کہ وہ اپنے ردعمل کے اظہار میں اسلامی اخلاقیات کو کس قدر ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ اگر ہم بھی دشمنی میں مغرب کی طرح اخلاقیات کو پامال کرنے لگے تو پھر انسانوں اور مغربی درندوں کے مابین کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔ اسلامی تحریکوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اس موقعے کو درست طور پر استعمال کرنے کے لیے اسی حکمت عملی وضع کریں ، جس کے نیتجے میں عوام بیدار بھی ہوں اور عوامی قوت کسی حقیقی تبدیلی کا ذریعہ بھی بن سکے، کہیں یہ ہجوم شتربے مہار کی طرح بنیادی اسلامی اقدار کو بھی پامال نہ کر جائے۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105468 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More