محسنِ پاکستان ہم شرمندہ ہیں

ہم پاکستانی محسن کُشی میں بہت آگے ہیں۔ بحیثیت پاکستانی ہم نے اس سلسلہ میں کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی کو ئی کوشش نہیں کی۔ہم بہت چھوٹے دل کے ثابت ہوئے ہیں۔ گذشتہ کئی روز سے مختلف ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے بعض لیڈروں کی جانب سے ڈاکٹر عبد القدیر خان کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے۔ہمارے ہاں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کچھ سال پہلے ملک کے ایک موقر اخبار میں محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کے حوالے سے ناراضگی کے اظہار کا اشتہار آنکھوں سے گزرا تو میں لرز کرہ گیا تھا ۔سوچ چنگھاڑنے لگی تھی کہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف پر محسن کشی کی پھبتیاں کسنے والے خود کیا کر بیٹھے۔کیا ڈاکٹر خان سے محبت کے سارے فسانے ان کی طرف سے مذکورہ اخبار کے لئے ایک کالم کی آرزو کا پس منظر لئے ہوئے تھے۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان کی جانب ایک اخبار میں کالم نگاری کے آغاز کے بعد اُن سے عشق کی حد تک محبت کا اظہار کرنے والوں کا اچانک محسن کشی پر اتر آنا ڈاکٹر خان کے لئے تو شاید معمول کی بات ہو لیکن پوری پاکستانی قوم نے ایک انجانا سا دکھ محسوس کیا تھا۔ایسا محسوس ہوتاتھا کہ تمام تر ادراک و فہم کے باوجود حکمران اشرافیہ کی طرح ہمارے قلم قبیلہ کے بڑوں نے بھی اپنی دلیل ہی نہیں ہیرو اور محسن بھی بدل لیا ہے۔ اب پھر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی جانب سے ڈاکٹر عبد القدیر خان کے حوالے سے سامنے آنے والے بیانات کے کرب انگیز لمحات میں قومی تاریخ کا وہ بھیانک منظر ایک مرتبہ پھر میری آنکھوں کے سامنے اپنی نحوست بکھیرنے لگا ہے جب4 فروری 2004 ء کو محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کو سرکاری ٹیلی وژن پر ایک تحریری بیان پڑھنے پر مجبور کیاگیا۔ایک منظم استبداد اور استعاری جبر کے ذریعے ’’ڈاکٹر خان ‘‘ یہ کہہ رہے تھے کہ ’’ میں ایٹمی ٹیکنالوجی کی منتقلی کی تمام غلطیوں کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں، مجھ سے کوتاہی ہوئی قوم مجھے معاف کردے‘‘۔۔۔جیسے ہی قوم نے یہ جملے سنے تو فوری طور پر مسترد کر دئے۔ اس وقت کے صدر مشرف نے قومی ہیرو کی رسوائی اور جگ ہنسائی کا یہ سامان کرکے ایک خوفناک پسپائی اسلئے اختیار کی تھی کہ عسکری اشرافیہ کے اب تک کے ’’ گناہوں ‘‘ کا کفارہ ادا ہو جائے اور امریکی عزائم کے آگے پیشگی پشتہ بندی کر دی جائے۔ قوم کے سنجیدہ فکر طبقات نے اس سب کچھ کو ایک ایسی بیمار فکر سے تعبیر کیا تھا۔جو ریاست کو خطرے میں ڈال کر حکومت کو خطرے سے بچانے کی فکر سے مملو ہو۔

پاکستانی حکمرانوں اور قوم کی جانب سے ڈاکٹر قدیر خان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا جائزہ لیا جائے تو ذہن بار بار ماضی کی جانب لوٹ جاتا ہے کہ مسلمانوں کا اپنے محسنوں کے ساتھ یہ سلوک نیا نہیں ہے۔اس اعتبار سے ایک شرمناک تاریخ برصغیر کے مسلمانوں پر ایک دردناک سایہ بن کر باقی رہے گی۔حضرت مجدد الف ثانی مسلمان حکمرانوں کے دور میں ہی گوالیار کے قلعہ میں نظر بند کئے گئے۔شاہ ولی اللہ اور شاہ عبد لعزیز کے ساتھ بد سلوکی کرنے والے کوئی اور نہیں خود مسلمان ہی تھے۔بالاکوٹ کی سرزمین پر شہید ہونے والے سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید اور سلطان ٹیپو کے ساتھ مسلمانوں نے ہی غداری کی تھی۔مولانا محمد علی جوہر جب بیمار ہوئے تو پوری مسلم قوم بخل کی بیمار بن گئی تھی۔مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا کرنے والے علامہ اقبال سے ان کی زندگی میں سب سے زیادہ غفلت مسلمانوں نے ہی برتی۔

4 فروری 2004 ء کے بعد پاکستانی قوم نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کے حوالے سے جو کردار ادا کیاتھا۔اس اجتماعی رویے سے یہ ثابت ہوگیاتھا کہ 1947 ء میں آزاد ہونے والی یہ قوم آج بھی پوری طرح آزاد نہیں،اس قوم کی آدھی اور ادھوری آزادی بھی ناقہء وقت کے محمل سے اغواء ہو گئی ہے۔اور اس کی ذمہ داری استعمار پر نہیں استعمار کی ان اولادوں پر عائد ہوتی ہے۔جو بد قسمتی سے اسی قوم سے تعلق رکھتی ہیں۔بد بختی سے پاکستان کی عنانِ کار ہمیشہ امریکی استعمار کے کاسہ لیسوں کے ہاتھ میں رہی ہے اور پاکستانی عوام ان کے سیاسی اصطبل میں بندھے رہے ہیں۔ پاکستان کو قوموں کی برادری میں سب سے با عزت مقام دلانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اپنے ہی گھر میں نظر بندی کے عذاب میں مبتلا کرنے والے حکمران قوم کی آبرو کے نیلام گھر پر اپنی منڈی سجا کر بیٹھے رہے اسی منڈی کی حفاظت کے لئے پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں نے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کو مجبور کر دیا تھاکہ وہ اپنی ہی قوم کے سامنے ایک مجرم کی طرح کھڑے ہو کر معافی مانگیں۔ہمارے حکمرانوں کے سنگین جرائم نے پاکستان کے قومی ہیرو کو دنیا کے پاؤں کی ٹھوکر بنا دیا۔ امریکی اور صہیونی ذرائع ابلاغ اس قدرجری ہوگئے تھے کہ وہ آئے روز قومی ہیرو کے خلاف یکطرفہ ہرزہ سرائی کرتے رہے۔کبھی انہیں جوہری کھپیا قرار دیا جاتا تو کھبی انہیں دنیا کو غیر محفوظ جگہ بنانے کا سب سے بڑا ذمہ دار قرار دیا جاتا تھا۔صرف یہی نہیں خود پاکستانی حکومت اور قیادت کے ہاتھوں انہیں راندہ، پراگندہ اور شرمندہ کئے جانے کے واقعات بارہ مصالحوں کی چاٹ لگا کر بیان کئے جاتے رہے تھے۔ایسے حالات میں پاکستان کے قومی ہیرو کو خاموشی کی لحد میں اتارنے اور ان کی زبان پر سکوت کا تالہ لگانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ بعد میں جمہوری حکومت ہونے کے باوجود استعمار کے آلہ کاروں کے خنجر بکف ہاتھ ڈاکٹر عبد القدیر خان کی شہ رگ تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہے۔ہمارے قومی ہیرو کا وجود بیماریوں کی پوٹ بننے لگا تھا۔افسوس صد افسوس پاکستان کو ایک دائمی تحفظ کا احساس دینے والا یہ عظیم ہیرو اپنی زندگی کے حوالے سے شدید عدم تحفظ کا شکاررہا اور زندگی میں زندگی کے لئے ترستا رہا ۔اس کی داستانِ حیات اب آنسوؤں کی مالا اور آہوں کا ہالہ ہے۔پاکستانی قوم اپنے عظیم ہیرو کے ساتھ اس شرمناک سلوک کو دیکھتی رہی اور خاموش رہی۔ان کے ہاتھ کرکٹ کے میدان میں لگنے والے چوکے اور چھکوں پر تالیاں بجانے تک محدودرہے۔اپنے اُن حکمرانوں کے حساب اور احتساب کا اب انہیں کوئی خیال ہی نہیں جن کی سب سے بڑی قابلیت ابن الوقتی ہے اور جو نفع کی موہوم امیدوں پر ہی اپنی عزت گنوا بیٹھتے ہیں۔ہماری قوم جو کبھی دوسری قوموں سے عبرت پکڑتی تھی اب اپنے عروج و زوال کی داستانِ شرمناک سے دوسری قوموں کے لئے عبرت انگیز مثال بن گئی ہے۔

28 مئی امتِ مسلمہ کے لئے تاریخ سازحیشیت رکھتا ہے۔ یہ تاریخ ساز دن ’’ یومِ تکبیر‘‘ کا نام لئے ہمارے ملی کیلنڈر کا ایک روشن، زندہ اور تابندہ حوالہ ہے۔یہ دن اور تاریخ ہمارے لئے جشنِ طرب کا پیغام تھی اب یہ حسرت و ماتم کا اعلان ہے۔کبھی اس تاریخ سے عظمت کے تمام تاج الٹے ہوئے نظر آتے تھے۔مگراب تاریخ کو ذلت کی زنجیریں پاؤں میں نظر آتی ہیں۔اس روز منایا جانے والا اب ہر جشن محض ایک اعلان حزن بن گیا ہے۔اگر قومی ہیرواس روز بھی نظر بند رہے تو پھر ہم پر ساری خوشیاں حرام ہیں۔ہمارے قہقہے ہم پر لعنتوں سے کم نہیں اور ابدی ملامتوں کا طوق ہماری گردنوں سے کبھی نہ اترے گا۔ اس روز ہمیں جو کامرانی نصیب ہوئی تھی وہ استعمار کی بندگی کی وجہ سے ذلت و خواری میں بدل گئی۔کیونکہ ہمارے ملک میں لگاتار پانچ یوم تکبیر ایسے گذرے ہیں جن پر پاکستان کے ایٹم بم کا خالق پابند سلاسل رہا۔

اس وقت ملک میں قومی مفاہمت کے نام پر مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی حکومت ہے۔میاں نواز شریف 28 مئی کے ایٹمی دھماکوں کے ’’سحر ‘‘ میں بجا طور پر مبتلا ہیں کہ یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب وہ وزیر اعظم تھے۔ ڈاکٹر خان کو موجودہ حکومت نے رہائی تو دے دی تھی مگر ابھی قومی ہیرو کی آزمائش کم نہیں ہوئی۔

رہائی کے وقت ڈاکٹر عبد القدیر خان سے یہ سوال کیا گیا تھاکہ آپ کی زندگی کے قیمتی اور کبھی واپس نہ آنے والے پانچ سال ضائع کرنے کے ذمہ دار وں کے خلاف آپ کوئی کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں تو ڈاکٹر خان نے افسردگی کے لہجے میں کہا تھا کہ نہیں چھوڑیں ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ڈاکٹر خان کا یہ جواب قوم پر انکی جانب سے ایک اور بہت بڑا احسان تھا۔کیونکہ اگر ڈاکٹر خان کی زندگی کے پانچ سالوں کے ضیاع کا حساب لیا جائے تو اس جرم میں پرویز مشرف تنہا نہیں ۔ اس استبداد اور ظلم میں وہ تمام سیاسی جماعتیں بھی شامل تھیں جو غرض کی مخلوق بن کر رہ گئی تھیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں لیلائے اقتدار کے عشق میں گرفتار ہیں۔اور یہاں اقتدار کا اصل سر چشمہ صرف اور صرف فوج ہے۔ ہمارے ہاں ہر دور کا سب سے بڑا مخصمہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ یہاں پر ’’ منتخب حکومت‘‘ نہ تو اصل حکومت ہوتی ہے اور نہ ہی حزبِ اختلاف واقعتاً حزبِ اختلاف ہوتی ہے۔

ڈاکٹر خان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک میں بھی یہی معاملہ رہا۔ان کے حق میں سرکاری اور غیر سرکاری سیاسی جماعتوں کی جانب سے اٹھنے والی آوازیں صدا بصحرا ثابت ہوئیں اور خاص طور پر حزبِ اختلاف بھی محض بیان بازی سے آگے بڑھ کر کچھ کرنے کو تیار نہیں تھی۔ ملک کے سولہ کروڑ عوام اس دو طرفہ فریب میں پتھر ہو کر رہ گئے تھے۔اور پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اس تماشے کو مدت سے دیکھ رہے تھے۔ہماری سیاسی قیادت محض بیانات سے آرزوؤں کا گلشن سجائے بیٹھی رہی۔ہماری قوم کا ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر سیاسی قائدین لفظوں کے خراچ اور عمل کے قلاش ہیں۔ان کے لفظوں پر کبھی بھی کردار نے گواہی نہیں دی۔اور ان کے اپنے ہی افکار ان کے اعمال سے شرمندہ رہتے ہیں۔جنرل پرویز مشرف کے دورمیں کونسا ستم ہے جو محسنِ پاکستان پر نہیں ڈھایا گیا؟ کونسا ظلم ہے جو یہاں کے عوام کے ساتھ روا نہیں رکھا گیا؟اوراس ملک کی وہ کونسی بنیاد ہے جو ہلا کر نہیں رکھ دی گئی تھی؟ اس سب کے جواب میں حزبِ اختلاف محض اقتدار کے خواب دیکھتی رہی۔دنیا میں کوئی بھی انسان یا گروہ جتنا بھی بڑا دعویٰ کرسکتے ہیں وہ ان جماعتوں نے کیا مگر اس کے جواب میں کسی نے ایک معمولی عمل بھی پیش نہیں کیا۔حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں کے ڈاکٹر عبد القدیر خان کے لئے عمل سے خالی اخباری بیانات اس قابل ہیں کہ وہ ان جماعتوں کے منہ پر مار دئے جائیں۔پاکستانی قوم اور اس کی قیادت کو ہمیشہ اس سوال سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا کہ پاکستان کو محفوظ کرنے والے ہیرو کی حفاظت اور توقیر کے لئے سیاسی جماعتوں اور قوم نے عملاً کوئی اقدام کیوں نہیں اُٹھایا۔محسنِ پاکستان کے لئے ہزاروں قدم مضطربانہ دوڑنے کے لئے کیوں تیار نہیں ہوئے۔ہزاروں ہاتھ ان کی جانب والہانہ کیوں نہیں بڑھائے گئے۔پوری قوم بخل کی بیمار کیوں بن گئی تھی۔اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر مورخ کے نزدیک پرویز مشرف کا مقام تاریخ کا کوڑے دان ہے تو پوری پاکستانی قوم کا ڈاکٹر عبد القدیر کے حوالے سے عمل ایک شرمناک تاریخ بن کر پاکستانی عوام پر سایہ بنا رہے گا۔ لہذا ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا مستقبل ہمارے حال سے تعبیر ہوگا۔

پاکستانی قوم’’جرم وفا‘‘ اور ’’ستم ظریفی‘‘ میں اپنے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ برابر کی مجرم ہے۔ہماری زندہ دلی کرکٹ ٹیم کی آمد پر بے خود ہونا رہ گیا ہے۔ہم بسنت کے موقع پر بد مستی،سر مستی،اور خر مستی میں مدہوش ہوکر ’’ رقص میں ہے سارا جہاں ‘‘ کا پیغام کرنے کو زندہ دلی قراردیتے ہیں۔ہم نے بے حسی اور بے حمیتی کی تمام حدیں توڑ کر چڑھتے سورج کی دہلیز پر نہ صرف اپنی دستار بلکہ اپنا ضمیر بھی رکھ دیا ہے۔یہ تمام دکھ کیا کم تھے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ڈاکٹر خان کے خیالات کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے چوہدری نثار علی خان کے اس بیان کے بعد کہ ’’ ڈاکٹر عبد القدیر خان قوم کی طرف سے دی گئی عزت کا خیال رکھیں ‘‘ہم میں یہ کہنے کا حوصلہ بھی نہیں رہا کہ
’’محسنِ پاکستان ہم شرمندہ ہیں‘‘۔
انوار حسین حقی
About the Author: انوار حسین حقی Read More Articles by انوار حسین حقی: 18 Articles with 18967 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.