مُکّا چوک

کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر نائن زیرو سے ملحقہ چوک کا نام ”مُکّا چوک“ ہے ۔چوک میں ایک بہت بڑا مُکّا بنا ہوا ہے جسے لوگ قائدِ تحریک محترم الطاف حسین کا مُکّا قرار دیتے ہیں ۔ویسے یہ مُکّا ہے بڑی خطرناک شئے ۔اگر نشانہ درست بیٹھے تو بتیسی بھی باہر نکل سکتی ہے شایداسی لیے میڈیا والے مُکّا چوک سے کترا کر اور ایم کیو ایم سے نظریں بچا کر گزر جاتے ہیں۔اکثر لوگ مُکّے سے صرف ”یرکانے“ کا کام لیتے ہیں ۔اگر سامنے والا ”یرک“ جائے تو ٹھیک وگرنہ خود ”یرک جانا“ تو اپنے ہاتھ میں ہوتا ہی ہے ۔ اِس ”یرکنے اور یرکانے“ کے فَن میں جنابِ آصف زرداری بے مثل ہیں۔ اُنہوں نے کئی سرکاری، غیر سرکاری اور صحافتی مُکّے پال رکھے ہیں۔یہ مُکّے دشمنوں پر تابڑ توڑ برستے رہتے ہیں لیکن جونہی کوئی مُکّابے اثر ہونے لگتا ہے ،جنابِ زرداری اُس کی جگہ نئے مُکّے میدان میں لے آتے ہیں ۔فردوس عاشق ، ذو الفقار مرزا اور بابر اعوان نامی مُکّے آجکل بے اثر ہو کر استراحت فرما رہے ہیں۔فہمیدہ مرزا نامی مُکا اپنی نازکی کے ہاتھوں مار کھا گیا اور جوابی حملے میں پیپلز پارٹی کی بتیسی ہاتھ میں آ گئی جس کی تلخی آج بھی فضاؤں میں گھُلی نظر آتی ہے۔ زرداری صاحب کے پاس ایک زنانہ مُکا ایسابھی تھا جو کئی مردانہ مُکوں پربھاری تھالیکن اُسے اللہ میاں لے گئے ۔سُنا ہے کہ مرحومہ فوزیہ وہاب جنت میں بھی مُکّے لہرا لہرا کر نواز لیگ کو کوسنے دیتی رہتی ہیں۔

جب دیسی مُکّے کمزور پڑنے لگیں تو زرداری صاحب ”ولائتی“ مُکوں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرتے ۔اِن میں سب سے خطر ناک امریکی مُکا ہے جسے وہ قوم کو یرکانے کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اِس کام کے لیے مارکیٹ میں کرائے کے لکھاری عام دستیاب ہیں جو غیرت کی بات کرنے والوں کو ”غیرت بریگیڈ“ کہہ کر چھیڑتے رہتے ہیں۔ قوم تو کچھ کچھ یرک ہی جاتی ہے لیکن یہ ”مولوی“ ہر گز نہیں یرکتے ۔ زرداری صاحب تو ”مولوی صاحبان“ کو سمجھانے کی خاطراکثر یہ گُنگناتے رہتے ہیں کہ
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دِل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

اب پتہ نہیں یہ پختگی ِایماں ہے یا ”شرابِ طہورہ“کا لالچ کہ مولوی صاحبان مدبّر آصف زرداری کی باتوں پر ہر گز کان نہیں دھرتے اور ہمیشہ سُنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ زرداری صاحب بھی خیرکچھ زیادہ پرواہ نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ خالی خولی بڑھکوں سے ”نیٹو کنٹینر“ نہیں رُکا کرتے لیکن امریکہ کو ”جھاکا“ دینے کے لئے مولویوں کا ڈراوا بھی ضروری ہے۔ اگر یہ تھوڑا بہت ڈر بھی نہ ہو تو پھر بھول جائیں امریکی امداد کو۔

یوں تو ہمارے خادمِ اعلیٰ بذاتِ خود نامی گرامی” مُکّے“ ہیں لیکن اُنہوں نے کچھ اضافی مُکّے بھی پال رکھے ہیںجن کی سر براہی رانا ثنا اللہ کے سپرد ہے ۔کچھ سقّہ لکھاریوں اور دانشوروں کوحیرت ہوتی ہے کہ میاں برادران تو ساری ”ریوڑیاں“ آپس میں ہی بانٹ کھانے کے عادی ہیںپھررانا ثنا اللہ پر اتنا اعتماد کیوں؟۔قصّہ در اصل یہ ہے کہ وہ تو پہلے بھی کسی پر کم کم ہی اعتماد کیا کرتے تھے لیکن جب سے وہ جلا وطنی کا دُکھ جھیل کر آئے ہیں تب سے تو اُنہوں نے اعتماد کرنا بالکل چھوڑ دیا ہے اور کریں بھی تو کیسے؟۔ اُنہوں نے جَلا وطنی کے زمانے میں ڈھونڈ ڈھانڈ کے سب سے کمزور شخص کو ”پارٹی سربراہ“ بنایا اور دروغ بر گردنِ راوی اُسے ہر ماہ پانچ لاکھ روپئے بھی بھیجتے رہے لیکن اُس کی گردن میں ایسا سریا آیا کہ وہ نہ صرف پارٹی چھوڑ گیا بلکہ ان پر آجکل سب سے زیادہ گرج ، برس بھی وہی رہا ہے۔میاں شہباز شریف نے تو بڑے بھائی کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی تھی کہ وہ اکیلے ہی کافی ہیں لیکن بڑے بھائی صاحب نے سر پر تحریکِ انصاف کی لٹکتی تلوار کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے اُنہیں آخر کار وزارتِ اعلیٰ کے علاوہ دیگر بیس وزارتیں اپنے پاس رکھنے کے لیے قائل کر ہی لیا ۔

عمران خاں صاحب کی جماعت چونکہ ابھی نو زائیدہ ہے اِ س لیے ُمکّوں کے معاملے میں ذرا کمزور ہے لیکن یہ کمی وہ ”گالیوں“ سے بخوبی پوری کر لیتی ہے جو اُس کا حق ہے ۔بھئی ! کمزور اگر گالیاں بھی نہ دے تو کیا خاموشی سے ”کُٹ“ کھاتا رہے؟۔ ہمارے کچھ دانشوروں کو تحریکِ انصاف کے چیخنے چلانے پر بھی اعتراض ہے ۔بندہ اِن بھلے مانسوں سے پوچھے کہ نو زائیدہ بچے کو جب بھوک لگتی ہے توکیا بنا چیخے چلائے اُسے دودھ مِل جاتاہے؟۔ اور اقتدارکی جتنی بھوک نوزائیدہ تحریکِ انصاف کو ہے کسی اور کو نہیں۔ہو سکتا ہے یہ بھوک کپتان صاحب کو نہ ہو لیکن ”بھان متی کا کُنبہ “ تو آیا ہی اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے ہے۔ اِس لیے ”ہنگامہ“توہو گا۔

قاف لیگ کے پاس ایک ہی”مشرفی ُمکّا“ تھا جسے وہ بہت سینت سنبھال کر رکھتی تھی۔جب سے وہ ”وچھوڑے “ کا دُکھ دے گیا ،وہ بیچاری ٹائیں ٹائیں فِش ہو کر آجکل اتحادی ُمکّوں پر گزارا کر رہی ہے۔یہی حال عوامی نیشنل پارٹی کا ہے۔ ’متھا“ تو اُس نے ایم کیو ایم سے لگا لیالیکن مقابلے میں لے آئے صرف شاہی سیّد مُکّا۔بھلا ایک مُکّے سے ایم کیو ایم کا کیا بگڑنے والا تھا؟۔یہی وجہ ہے کہ زرداری صاحب بھی اے این پی کو کم کم ہی گھاس ڈالتے ہیں ۔دینی ُمکّوں پر کچھ بد بختوں نے دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر دیا ہے۔دینی جماعتیں لاکھ ”رولا“ ڈالیں کہ دین میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں لیکن سیکولر قوتیں اُن کی ایک نہیں چلنے دیتیں۔اُدھر طالبان بھی اُن پر کم کم ہی اعتبارکرتے ہیں اور امریکہ تو ہے ہی اُن کا ازلی دشمن اِس لیے وہ بیچارے ہر وقت ”وخت“ میں پڑے رہتے ہیں۔

ُمکّے کبھی کبھار قائدین کے لیے بھی انتہائی خطر ناک ثابت ہوتے ہیں۔ قائدِ ملّت نے ُمکّا لہرایا تو اللہ میاں نے بلا لیا اور قائدِ تحریک نے لہرایا تو انگلینڈ نے۔اب نہ قائدِ مِلّت واپس آ سکتے ہیں اور نہ قائدِ تحریک۔ اِ س لیے ایم کیو ایم کو اپنی اوّلین فرصت میں ” مکّا چوک “کا نام بدل دینا چاہیے۔ برنارڈ شا کہتا ہے کہ ”ماضی کی غلطیوں پر رونا اور پچھتانا مضحکہ خیز ہے کیونکہ مستقبل ابھی باقی ہے“۔اِس لیے ماضی کا ماتم کرنے کی بجائے تحریکی بھائیوں کو اپنے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے اس چوک کا نام بدلنا ہی ہو گا۔اگر وہ مجھ سے مفت مشورہ طلب کریں تو میرے نزدیک اِس کا بہترین نام ” مُک مُکا“ چوک ہونا چاہیے کیونکہ ایم کیو ایم کی تاریخ بتاتی ہے کہ مُک مُکا کرنے میںاُن کا کوئی ثانی نہیں۔اِس لحاظ سے یہ چوک ”اسم با مسمیٰ “ بھی ہو جائے گا اور تحریکی بھائیوں کو پھر کبھی (خُدا نخواستہ) رات کے اندھیرے میں فرار ہونے کی زحمت بھی نہیں اٹھانی پڑے گی۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 865 Articles with 559718 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More