تین سو سے زائد افراد کی شہادتیں ۔۔۔۔سانحہ یا دہشت گردی؟

بلدیہ ٹاﺅن کراچی میں علی انٹرپرائززگارمنٹ فیکٹری میں اچانک ہونے والی آتشزدگی کے نتیجے میں ہونے والی شہا د توں کی تعداد آخری اطلاع آنے تک تین سو سے تجاوز کر گئی ہے اور سینکڑوں خواتین اور مرد ملازمین نے آگ سے بچنے کے لئے دوسری اور تیسری منزل سے چھلانگ لگادی اور شدید زخمی بھی ہوئے اور بعض اطلاعات کے مطابق کئی تشویش ناک حالت میں ہیں اور کئی اپنی جانیں بھی گنوا بیٹھے اور کئی ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ بیسمنٹ میں فائر بریگیڈ کے پانی سے ڈوب کر بھی ہلاک ہونے کی اطلاعات ساری کی ساری انتہائی تشویشناک ہیں اور ایک ایسے موقع پر جب کراچی آگ اور خون میں پہلے ہی ڈوبا ہوا ہے مزید اتنی ہلاکتوں نے کراچی کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان کو بھی سوگوار کردیا ۔اور ہر آدمی غم و اندوہ کا شکار نظر آتا ہے خصوصاََ شہید ہونے والوں کے عزیز و اقارب کو جب مختلف ٹی وی چینلز پر بین کرتے ہوئے اور اپنے پیاروں کی تلاش میں بے سدھ ہونے کے رقت آمیز مناظر نے ہر ذی روح اور حساس فطرت انسان کو افسردہ اور غمگین کر دیا ایک ہی گھرانے کے چھ افراد کی شہادت کی خبر نے کراچی کے ساتھ ہی پورے ملک میں کہرام برپا کر دیا اور اس کے ساتھ ہی کئی سوالات کو بھی جنم دے دیا ہم ان سوالات سے پہلو تہی کرتے ہوئے صرف اور صرف شہید ہونے والوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت ہی کریں گے کیوں کہ ان سوالات کو مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز پہلے ہی اپنے اپنے انداز سے بھر پور طریقے سے کئی اہم نکات کے ساتھ حکومت کو متوجہ کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں ۔

ایک حیرت انگیز اتفاق یہ ہوا کہ لاہور میں بھی اسی دن ایک فیکٹری میں آگ سے شہید ہونے (19) افراد کی شہادت کی بریکنگ نیوز ابھی چل ہی رہی تھیں کہ کراچی میں بھی علی انٹرپرائزز میں معمولی آگ سے بے گناہ لوگوں کی ہلاکتوں کی خبریں یک دم بڑھتے بڑھتے تین سو سے تجاوز کر گئیں اور ایک بہت بڑی تعداد زخمیوں کی بھی منظر عام پر آگئی اور شہر کراچی کو حیرت و استعجاب میں مبتلا کر گئی ا کہ ایک میٹرو پولیٹن سٹی میں اچانک اتنا بڑا حادثہ جو کہ لوگوں کے وہم وگمان بھی نہیں تھا رونما ہوگیا اور لوگ ابھی اس سانحے سے سنبھلنے بھی نہیں پائے تھے کہ کراچی میں معمول کی ٹارگٹ کلنگ کی خبروں میں بھی چھ آدمیوں کی ہلاکت کی خبریں شامل ہوگئیں ۔کیسی بے حسی کی انتہا ہے کہ لوگ ابھی اس حادثے کو ہی رو رہے ہیں متاثرین اپنے پیاروں کے لئے بلک رہے ہیں اور باقی ماندہ پھنسے ہوئے لوگوں کی سلامتی کے لئے دعا گو ہیں ادھر دہشت گرد ان سب باتوں سے بے نیاز فرعونیت کے رقص میں مصروف ہیں اور کوئی ان کو روکنے ٹوکنے والا دور دور تک نظر نہیں آرہا آخر کیوں؟

سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کے متعلق دو اہم انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اپنی رپورٹس صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور سندھ حکومت کو دے دی ہیں جس کے مطابق فیکٹری کے مالکان 5کروڑ روپئے بھتے کی پرچی کے خوف سے 15دن پہلے ہی فیکٹری مینیجرز کے حوالے کر کے ملک سے باہر جاچکے ہیں اور اس فیکٹری میں پہلے بھی دو مرتبہ آگ لگ چکی ہے اور ابھی حال ہی میں ایک بڑی چوری بھی فیکٹری میں ہو چکی ہے اور اسی نکتہءنظر کے تحت فیکٹری کے دروازے ہر وقت بند رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی جس وقت یہ سانحہ ہوا ورکرز کو تنخواہیں ادا کی جارہی تھیںاور اس وقت چھ سو ملازمین فیکٹری کے اندر موجود تھے علی انٹرپرائزز بلدیہ ٹاون نمبر2 میں حب ریور روڈ پر واقع ہے اور 2 ایکٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے ۔ابتدائی طور پر تفتیشی ٹیموں نے زخمیوں سے پوچھ گچھ کی تو زخمیوں نے بیان دیا کہ فیکٹری کے جنریٹر کا آٹو میٹک سسٹم خراب تھابجلی آتے ہی جنریٹر دھماکے سے پھٹ گیا اور آگ بھڑک اٹھی ۔اب یہ تو تفتیشی ٹیموں کا کام ہے کہ حقائق معلوم کریں اور اس کو عوام تک بھی پہنچائیں ۔سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کے لواحقین کو حکومتِ سندھ نے تین لاکھ روپئے فی کس اور زخمیوں کے لئے پچھتر ہزار روپئے فی کس معاوضے کا اعلان کیا ہے ۔یہ معاوضہ لواحقین کے زخم تو نہیں بھر سکتا اور نہ ہی اپنے پیاروں کا نعم البدل ہو سکتا ہے مگر کچھ تو اشک سوئی ہو ہی جائے گی ۔گورنر سندھ عشرت العباد خان نے تین روزہ سوگ کا اعلان بھی کیا ہے ۔اللہ تبارک و تعالیٰ اس آگ میں جل کر شہید ہوجانے والوں کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے پوری قوم ان کے غم میں برابر کی شریک ہے اوع مصیبت کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑی ہے۔۔۔۔
Mukhtar Asim
About the Author: Mukhtar Asim Read More Articles by Mukhtar Asim: 12 Articles with 8399 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.