پاکستان میں صوفی ازم کے فروخت کی ضرورت

پاکستان کا معاشرہ خوبصورت اسلامی تعلیمات سے بھرپور معاشرہ ہے۔ یہ معاشرہ کسی صورت انتہاءپسندی، عدم برداشت کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق پاکستانی معاشرے میں تمام اقلیتوں کو برابر کی سطح کے حقوق حاصل ہیں کہ وہ اپنی زندگیاں آزادی کے ساتھ بسر کریں۔ صوفی ازم کی تعلیمات ہیں کہ ”مجھے قینچی مت دو مجھے سوئی دو“ میں سی کر اکٹھا کرنا چاہتا ہوں کاٹنا نہیں چاہتا۔ لہٰذا ہمیں ایک دوسرے کو کاٹنے کے بجائے ایک دوسرے کو جوڑنا چاہئے اور متحد کرنا چاہئے۔پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے جو اسلامی اصولوں اور روحانی اقدار کی بنیاد پر قائم ہوا تاکہ پاکستان میں بسنے والے لوگ اپنے مذہب، عقیدے، ثقافتی اصولوں اور سماجی و سیاسی اقدار کے مطابق آزادی سے اپنی زندگیاں گزار سکیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے انسانی مساوات، اصول پرستی اور اسلام کے منصفانہ سلوک کی اہمیت کی واضح الفاظ میں وکالت کی۔ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ہندوﺅں، عیسائیوں اور پارسیوں سمیت تمام غیر مسلم پاکستانی ہیں اور انہیں بھی وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گی جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں اور پاکستان کے معاملات میں ان کا بھی ویسا ہی کردار ہوگا۔ پاکستان کے آئین میں بھی پاکستان کے تمام شہریوں کو ان کی ذات، نسل، مذہب اور عقیدے سے قطع نظر مکمل آزادی، تحفظ اور شہری حقوق حاصل ہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت پاکستان ایک بالکل مختلف صورتحال پیش کرتا ہے جس میں انتہاءپسندی، دہشت گردی، فرقہ وارایت، بدعنوانی، استحصال، ٹارگٹ کلنگ اور جبر کا عفریت ہے جبکہ پاکستان کا سماجی اور معاشرتی اقدار کہیں گُم ہو چکا ہے اور اس کی خصوصیات بہت معدم ہو چکی ہیں۔ پاکستان کو فوری طور پر ایک ایسے مسیحا کی ضرورت ہے جو پاکستانی معاشرے کو دوبارہ سے امن، برداشت، محبت اور باہمی ہم آہنگی کے اصولوں پر لے آئے۔

پاکستان کے لئے سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس کی ثقافتی بنیادیں اور سماجی و معاشرتی رشتے صوفی ازم کے محبت انگیز جذبے سے بھرے ہوئے ہیں اور ان میں صوفی ازم کے خوبصورت رنگوں کی آمیزش ہے۔ صوفی ازم میں اختلافی افکار اور اعتقاد کو خوبصورت اور مہارت کے ساتھ جذب کرنے کی لچک اور صلاحیت ہے۔ درحقیقت پاکستان میں بسنے والوں کی اکثریت نے صوفی بزرگوںکی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلامی تعلیمات کو اپنایا۔ ان صوفی بزرگان دین کی تعلیمات پیار و محبت اور اسلامی فلاسفی سے مزین تھیں۔ یہ تعلیمات صبر و برداشت اور دیگر لوگوں کے مذہبی عقائد کا احترام سکھاتی ہیں۔ صوفی ازم کا بنیادی فلسفہ انسان کے باطن کی صفائی اور قرآن کے مخفی معنوں کی تلاش ہے اور اس کے ساتھ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے نمونہ حیات پر کامل عمل صوفی ازم کی تعلیمات کا حصہ ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی واحدانیت پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا یقین ہے کہ تمام علوم کا جاننے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو تخلیق کیا ہے اور وہی پوشیدہ رازوں کا جاننے والا ہے اور وہی انسانوں کے ایمان اور یقین کے بارے میں جانے والا ہے۔ صوفی ازم کی بنیادی تعلیمات میں مذاکرات کو اولین ترجیح حاصل ہے اور دوسروں کی غیر مشروط عزت و احترام کرنا ہے۔ وہ مخالف عقائد کے لوگوں کو بلا خوف و خطر دلائل اور غور و فکر کی دعوت دے کر اسلام کی طرف مائل کرتے ہیں تاکہ وہ لوگ بغیر کسی ڈر کے اسلام کو سمجھ کر اس کی تعلیمات کو اپنائیں۔ وہ یہ بھی ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مکہ، قرآن یا کسی ایک جگہ موجود نہیں ہے بلکہ اللہ انسان کے دل میں رہتا ہے۔ اس لئے مذہب، ذات اور نسل سے قطع نظر انسانوں تک پہنچا جائے۔ صوفی ازم میں باطن کی تلاش بہت اہم ہے۔ صوفی بزرگ دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بہت عاجزی، انکساری اور کھلے دل و دماغ کے ساتھ پیش آتے ہیں اور ان کے ساتھ پیارومحبت کا سلوک کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے جنونیت، فرقہ واریت، پُرتشدد قتل و غارت گری اور دیگر مذاہب کے بارے میں عدم برداشت سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ صوفی بزرگا دین کی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ ان بزرگوں نے انسانوں کے ساتھ محبت کا درس دیا ہے اور کسی بھی صورت تشدد کی اجازت نہیں دی ہے کیونکہ اسلامی کبھی بھی تشدد اور جبر سے نہیں پھیلا۔ اسلام اپنی خوبصورت تعلیمات کے ذریعے سے پھیلا اور غیر مسلموں نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔ اسلام میں دہشت گردی، انتہاءپسندی، عدم برداشت کی ہر گز اجازت نہیں ہے۔ دیگر مذہب کے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک ہی ان کو اسلام کی تعلیمات کی طرف راغب کرسکتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم صوفی بزرگان دین کے فلسفہ پر عمل کریں اور اپنی زندگیاں حضرت محمدﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق بسر کریں جن کی وجہ سے غیر مسلم جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ پاکستان کے لوگوں کی اکثریت صوفی بزرگان دین کی تعلیمات پر کاربند ہے لیکن چند مٹھی بھر لوگ انتہاءپسندی کی طرف راغب ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے ہیں جو کسی صورت پاکستانی معاشرے کو قابل قبول نہیں۔ صوفی بزرگان دین کی تعلیمات کے مطابق انسانوں کے دل و دماغ جیتے جائیں۔ اسی صورت میں ہی ہم اسلام کی خوبصورت تعلیمات کو پھیلا سکتے ہیں۔ پہلے ہمیں خود اسلام کی ان خوبصورت تعلیمات پر من و عن عمل کرنا ہوگا۔ ہمیں خود سے اپنا اسلام تخلیق نہیں کرنا ہوگا کیونکہ ہم سے ہر ایک نے اسلام کی خود ساختہ تشریح کی ہوتی ہے حالانکہ پیغمبر اسلام اور قرآن نے ہمیں اسلام کی تمام تعلیمات واضح کرکے تیاری ہیں۔ پھر ہم خود سے کیوں خدا بن جاتے ہیں اور انسانوں کا گلا کاٹنا شروع کردیتے ہیں۔ صوفی بزرگان دین کی شاعری سے بھی ہمیں پیغام ملتا ہے کہ معاشرے کے تمام طبقوں کے ساتھ پیارومحبت سے رہا جائے۔ صوفی بزرگان نے مقامی زبانوں کے ذریعے سے اسلام کی آفاقی تعلیمات کو انسانوں تک پہنچایا تاکہ یہ لوگ آسانی کے ساتھ سمجھ سکیں۔ لوگوں کے درمیان میں رہ کر ان کی مشکلات ختم کی جائیں اور لوگوں کی تکالیف، دکھ اور مشکلات میں اضافہ نہ کیا جائے۔ اسلام دوسرے انسانوں کو دیکھ اور تکالیف پہنچانے سے روکتا ہے۔
Hashir Abdullah
About the Author: Hashir Abdullah Read More Articles by Hashir Abdullah: 9 Articles with 6125 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.