پاکستان بھارت مزاکرات سے کشمیریوں کی توقعات

بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا تین روزہ دورے پر جمعہ کو اسلام آباد پہنچے۔ایس ایم کرشنا اور پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھرکی ملاقات میںبھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے دورہ پاکستان کے امکانات کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔انٹر منسٹریل میٹنگ میں ویزہ کے حوالے سے آٹھ کیٹگریز کا تعین کیا گیااور اس معاہدے پر اتوار کو دونوں ملکوں کے درمیان دستخط ہوں گے۔وزیر عظم راجہ پرویز اشرف سے بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کی قیادت میں بھارتی وفد سے ملاقات میں بھارتی وزیر اعظم کودورہ پاکستان کی دعوت دی اور کہا کہ دہشت گردی دونوں ملکوں کی مشترکہ دشمن اور انسانیت کے لئے خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاچن،سرکریک،کشمیر اور دیگر مسائل حل کرنے کے لئے مثبت سوچ کی ضرورت ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان مزاکرات کا سلسلہ نومبر2008ءمیں ممبئی کے دہشت گرد حملے کے بعد منقطع ہو گیا تھا ۔اس کے بعداب دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان دوسری بار مزاکرات ہو رہے ہیں۔

ادھر سرینگر میں حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ ہم نے ہمیشہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بامعنی اور نتیجہ خیز بات چیت کی حمایت کی ہے۔انہوں نے حریت کا وفد پاکستان کے دورے پر بھیجنے کی بات کی۔میر واعظ نے کہا کہ بھارت کشمیر کے بارے میں سخت اور غیر حقیقی اپروچ چھوڑ دے،بھارتی فوج کو نکالا جائے،ظالمانہ قوانین کشمیر سے ختم کئے جائیں اور کشمیری رہنماﺅں اور کارکنوں کو رہا کیا جائے۔حریت کانفرنس کے دوسرے دھڑے کے سربراہ سید علی شاہ گیلانی نے پولیس کی حراست کے دوران یورپی میڈیا سے پاکستان بھارت مزاکرات کے بارے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان گزشتہ ساٹھ سال سے بھارت سے مزاکرات کر رہا ہے اور کشمیر کو اپنا اہم ترین مسئلہ قرار دیتا رہا ہے تاہم اب لگتا ہے کہ پاکستان ”کور اشو“ کی اس بات سے انحراف کر رہا ہے۔لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک نے کہا کہ کشمیروں کو شامل کئے بغیر کشمیر کے بارے میں بات چیت غیر اخلاقی ہے۔ان مزاکرات میں مسئلہ کشمیر کو نظر انداز،فراموش کرنے کی صورتحال کشمیری نوجوانوں کو دوبارہ مسلح جدوجہد پر ابھارتی ہے۔مقبوضہ کشمیر کی حکمران بھارت نواز نیشنل کانفرنس نے دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ سے اپیل کی ہے کہ وہ دشمنیوں کو فراموش کر دیں اور مسئلہ کشمیر حل کریں تو تاریخ رقم ہو سکتی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان امن عمل اور مزاکرات میں کشمیر کے حوالے سے صرف یہ پیش رفت ہوئی کہ کنٹرول لائین سے کشمیریوں کو کئی کئی ماہ کے فارم تصدیق ”پراسیس“ کے چیک کے بعدمحدود پیمانے پر آنے جانے کی اجازت دی گئی اور کنٹرول لائین سے ٹرک سروس کے ذریعے کشمیر کے دونوں منقسم حصوں کے درمیان ”تجارت“ شروع کی گئی۔پاکستان نے بھارتی شرائط کے مطابق کشمیروں کی مسلح جدوجہد کو ختم کرنے کے مکمل اقدامات کئے،کنٹرول لائین سے حریت پسند کشمیریوں کے آنے آنے کا سلسلہ ختم ہوالیکن اس کے مقابلے میں بھارت کی طرف سے اب تک کشمیر کے حوالے سے ایسا کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا گیا جو ”ریورس ایبل“ نہ ہو ۔مقبوضہ کشمیر بدستور بھارتی فوج کی بہت بڑی تعداد کے نرغے میں ہے اور اب بھی مقبوضہ کشمیر ایک کھلی جیل کی مانند ہے،کشمیروں پر جبر و ستم کا سلسلہ بدستور جاری ہے ،مختصر یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں نظر آنے والا مصنوعی امن بندوق کی نوک پر قائم نظر آتا ہے۔

اب دونوں ملکوں کے درمیان ویزہ میں کچھ نرمی پر اتفاق ہوا ہے لیکن کشمیروں کے لئے پاکستان اور بھارت کیا لائے ہیں،ابھی بھی غیر واضح اور غیر یقینی ہے۔ہاں البتہ کشمیریوں کے لئے دونوں ملکوں کے پاس ایسے وعدے ہیں جنہیں دونوں ملکوں کے مفاد کی چاہ میں گزشتہ ساٹھ سال سے لالی پاپ کی طرح چوسا جا رہا ہے۔کشمیریوں کو درپیش مصائب،مشکلات کا کوئی احساس نہیں کیا جا رہا جس نے کشمیریوں کے جسموں کو ہی نہیں بلکہ ان کی روحوں کو بھی گھائل کر رکھا ہے۔کشمیریوں کو بستور دوسرے تیسرے درجے کے ادنی انسانوں کی طرح ڈیل کیا جا رہا ہے۔بنیادی حقیقت یہی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ایک ناسور ہے جس کے ہوتے ہوئے جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ یہ دونوں ملکوں کی ناکامی ہے کہ وہ اب تک مسئلہ کشمیر حل کرنے ،کشمیریوں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس معاملے میں زیادہ اور بنیادی ذمہ داری بھارت پر عائید ہوتی ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنما اور آزاد کشمیر کے نمائندے پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق مزاکرات میں کشمیریوں کی نمائندگی کا مطالبہ رکھتے ہیں۔پاکستانی وزارت خارجہ انہیں ایسے مزاکرات میں شمولیت کی یقین دہانی بھی کراتی ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر ہونے والی بات چیت تو” امن عمل“ کے ہی بارے میں ہے،مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق ان مزاکرات سے کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا جس سے کنٹرول لائین کی موجودہ تقسیم کی بنیاد سے ہٹ کر کسی حل کی کوئی امید پیدا ہو سکے۔2004ءمیں نئی دہلی میں بھارتی دانشوروں سے ایک تفصیلی گفتگو یاد آ گئی،وہ کہتے تھے کہ پاکستان اور بھارت مختلف شعبوں میں اتنے مضبوط تعلقات قائم کر لیں کہ اس سے مسئلہ کشمیر خود بخودغیر متعلق ہو جائے گا۔یہ پاکستان اور بھارت کے شہریوں کے لئے تو کوئی خبر،امید ہو سکتی ہے لیکن ان کشمیریوں کے لئے ہر گز نہیں جنہیںاپنے بنیادی حق آزادی کے لئے ہر پندرہ بیس سال کے بعد اپنی پوری طاقت سے اٹھتے ہوئے جدوجہد اور گراں قربانیوں کے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے۔

کشمیری لیڈروں کی پاکستان بھارت مزاکرات میں شمولیت اور پاکستان کی یقین دہانی بھی درست کہ جب مسئلہ کشمیر کے حل کا مرحلہ آئے گا تب ہی کشمیری اس میں شامل ہو جائیں گے۔ یعنی ’نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی“ ۔ مطلب یہ کہ کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان” امن عمل“ کے اقدامات تو ہو سکتے ہیں لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے اس حل کی بات کبھی نہ ہوتی نظر آتی ہے جس کا ”جھانسہ“ کشمیریوں کو دیا جاتا ہے۔دونوں ملک باہمی اچھے تعلقات کی راہ پہ بانہوں میں بانہیں ڈالیں گامزن ہونے میں پرامید ہیں لیکن متنازعہ ریاست کشمیر کے عوام کی امنگوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں مجبور و بے بس و بے کس سمجھنے کا سلسلہ جاری ہے۔پاکستان بھارت کے یہ مزاکرات اس شعر کی تشریح لگتے ہیں کہ
بس اتنی سی مری تقدیر بدلی کبھی زنداں کبھی زنجیر بدلی
نہ ان آنکھوں نے اپنے خواب بدلے نہ ان خوابوں کی تعبیر بدلی
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614061 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More