کیامیں بھی اتناہی پاکستانی ہوں جتنے وہ ہیں

بات ہے اپنی اپنی سمجھ کی

ٓٓایک سوال جو بڑے دنوں سے میرے دماغ میں گھرکئے بیٹھاتھاکہ میں خود سے بھی یہ جاننے کی کوشش کروں کہ کیامیں بھی اتنا ہی پاکستانی ہوں جتنے وہ ہیں...؟میرامطلب یہ ہے جیسے حکمران، سیاستدان، بیورکریٹس اور وہ لوگ جو ملک سے محبت کا دم بھرتے ہوئے خود کو پاکستانی ہونے کے تو بہت سے دعوے کرتے ہیں مگر قانون شکنی بھی یہی کررہے ہوتے ہیں اورجب کبھی ملک کے لئے کسی قربانی دینے کا وقت آتاہے کہ یہ کنی کٹاکرنکل بھاگنے کا موقع بھی اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں یوں سب کچھ اُلٹ پھیراورکیادھرااِن لوگوں کا ہوتاہے مگرقربانی کا بکرابنتی ہے غریب اور معصوم عوام جیسے اِن دنوں سارے مزے تو حکمران ، سیاستدان اور بیوروکریٹس لوٹ رہے ہیں اور جب اِن کی پکڑ کا وقت آئے گا تو یہ ملک سے نکل بھاگیں گے مگردوسری طرف ملک کے 19کروڑ اپنے بنیادی حقوق سے محروم عوام ہوں گے جوپھربھی ملک سے حب الوطنی کا دم بھرتے پھررہیں گے اور مایوسیوں کا منہ دیکھنے کے باوجود بھی خود کو پاکستانی کہلانے میں فخرمحسوس کریں گے اور آنے والے ہرمشکل چیلنج سے نبردآزماہونے کا بھی عزم کئے ہوئے ہوں گے اگراِس مرتبہ بھی ایساہی ہواجس کا خدشہ اور مخمصہ دلوں میں جنم لے رہاہے تو یہ ہماری قوم کے لئے کوئی نیانہیں ہوگا کیوںکہ ایساکرنے کا راستہ ہمارے اِنہی موجودہ حکمرانوں نے آمر(ر)جنرل پرویزمشرف کو دے کر خود تلاش کیاہے اور قوم کے حصے میں ایک بار پھر مایوسیوں کے سواکچھ نہیں آئے گا۔

اَب ایسے میں جب بھی کبھی مجھے میری اوقات سے بڑھ کر کچھ ملتاہے تو وہیںمجھے شدت سے یہ احساس بھی ہوتاہے کہ آج مجھے ربِ کائنات اللہ العزب کی جانب سے جو کچھ بھی عطاہواہے اِس میں اِس کا کرم اور اِس کے پیارے حبیب حضرت محمدمصطفیﷺ کا صدقہ بھی شامل ہے ورنہ میری کیا اوقات ہے کے مجھے کوئی چیزمل جاتی... جوآج مجھے نصیب ہوئی ہے..؟ تب میں یہ سوچ کرجہاں اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہوں تو وہیں مجھے اکثریہ خیال بھی آتاہے کہ رب تعالی کی مجھ پر ہونے والی بے شمار کرم نوازیوں اور عطاکردہ نعمتوں میں میری پاک دھرتی کا بھی تو مجھ پر احسان ہے اگر میرایہ وطن نہ ہوتاتو کیا مجھے رب تعالی کی یہ ساری نعمتیں نصیب ہوتیں...؟یوں مجھے اپنی اِس پیاری سرزمینِ پاکستان کا بھی شکراداکرکے اپنے پاکستانی ہونے کا بھی حق اداکرناچاہئے... مگر پھر خداجانے کیوں ...؟میں اپنی دھرتی کا شکر اداکرنے سے کتراجاتاہوں میری اِس کیفیت میں گزشتہ سالوں سے شدت آتی ہی جارہی تھی اور میں اپنی اِس کیفیت سے خود بھی پریشان سا رہنے لگاتھا شائد یہی وجہ ہے کہ میری طبیعت میں بھی جھنجھلاہٹ پن پیداہوگیاتھااَب مجھے بھی جس کا احساس ہونے لگاتھااِس کی کیاوجہ تھی ...اَب یہ بھی مجھے معلوم ہونے لگی تھی اور میں جان چکاتھاکہ میری طبیعت میں وطن سے محبت کا عنصر کیوں کرکم ہونے لگاہے...؟ اور میں اپنی دھرتی کا شکراداکرنے سے کیوں کترانے لگاہوں ...؟مجھے یہ بھی محسوس ہونے لگاتھاکہ میں بھی اپنے اندراتناہی پاکستانی ہونے کا جذبہ رکھنے لگاہوںجتنا حکمران ، سیاستدان ، بیوروکریٹس (جن کے پاس اِس ملک کا دیاسب کچھ ہے) اوروہ ایک عام پاکستانی رکھتاہے جو توانائی بجلی وگیس، صاف پانی ، جدیدتعلیم ، اچھی خوارک ، پُرآسائش سفری سہولتوں، بہترین علان و معالج سے محروم اور دہشت گردی ، قتل وغارت گری ، لوٹ مار ، کرپشن اور اقرباءپروی اور بے لگام مہنگائی کی وجہ سے اپنی مفلوک الحالی سے تنگ ہے ایسے میں اَب آپ خود سمجھ جائیں کہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ایک عام پاکستانی شہری کے دل میں اپنی دھرتی کے لئے کتنی محبت ہوسکتی ہے یہ آ پ بھی خوب جانتے ہوں گے اگر آپ بھی میری طرح کسی ایسے پاکستانی سے ملے ہوں جو اِس سرزمین پر رہتے ہوئے اپنے ماضی اور حال کے حکمرانوں کی نااہلی اور اِن کی ناقص کارکردگی اور اِن کی فرسودہ منصوبہ بندیوں کی وجہ سے اپنے اُن بنیادی حقوق سے محروم ہے جنہیں اپنے عوام کو مہیاکرناہر زمانے میں حکمرانوں کی اولین ذمہ داریاں ہواکرتی ہیں تویقیناآپ بھی اُن کی اور میری طرح اتنے ہی پاکستانی ہوں گے جتنے بنیادی حقوق سے محروم عام پاکستانی اور اُمورمملکت چلانے والے ہوتے ہیں۔

مگر میرے اللہ کا یہ مجھ پراُس وقت بڑا کرم ہواجب میں اِس سال رمضان المبارک کے مہینے میں اپنی آزادی کا 65واں جش منارہاتھاتو میں نے سوچا کہ میں اِس عظیم موقع پرکیوں ناں اپنے آپ کو ٹٹولوں کہ میں کتناپاکستانی ہوں...؟اور اپنے دل میں اپنی دھرتی کے لئے کتنی محبت رکھتاہوں..؟سوالات کی شکل میں مجھے یہ خیالات اُس وقت آئے جب میں اپنے گھر پر اپنے ملک کا عظیم سبزہلالی پرچم لہرارہاتھااِس دوران میرے دماغ میں یہ سوالات یوں آمڈآئے کہ جیسے یہ مجھ سے آج حق و سچ جانے بغیر میراپیچھانہیں چھوڑیں گے اور پھر میں جب اپنایہ عظیم پرچم اپنے ملک کی آزاد فضاءمیں لہلہاتادیکھ رہاتھاتوتب میرے ذہن میں اپنے اُن تمام سوالات کے جوابات بھی آگئے جن کا اظہار میں کئی سالوں سے نہیں کرپارہاتھامگر مجھے خوشی ہے کہ مجھے اپنے 65ویں جشنِ آزادی کے موقع پر اِس کا پُرتبا ک اظہارکرنے کا موقعہ ملااور میںسُرخروہوا۔

میں نے اپنے پرچم کے سائے تلے کھڑے ہوکراپنے ماضی کے اور موجودہ حکمرانوں کی کارکردگی کا جائزہ لیاتو مجھے گزشتہ 65سالوں کے ابتدائی جن ایک سال نکال کرباقی کے سالوں میں مایوسیوں کے سواکچھ سمجھ نہیں آیااِس لحاظ سے آج بھی ہمارے موجودہ حکمرانوں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے اِنہوں نے بھی نااہلی اور ناقص کارکردگی کے تمام ریکارڈ توڑکرایسے نئے اور نہ ٹوٹنے والے (اَنٹوٹ ایبل)ریکارڈ بنانے کی ٹھان رکھی ہے کہ جن کی مثال صدیوں تک اِس خطے کے کسی بھی ملک میں نظرنہیں آئے گی مجھے اِس بات کا بھی پورایقین ہے کہ آج جب ہم پاکستانی اپنا65واں جشنِ آزادی مناچکنے کے بعداپنے 66ویںسال میں قدم رکھ رہے ہوں گے تو تب بھی ہماری قوم اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہے گی مگراِس کے باوجود بھی یہ اپنے جگرپر پتھررکھ کرآئندہ سال اپنا66واں جشنِ آزادی ضروری منائے گی کیوں کہ مجھے اِس بات کا بھی پّکایقین ہے کہ میری قوم ہر حال میںاپناجشنِ آزادی اُس وقت تک مناتی رہے گی جب تک اِس کے دل میں اپنے ملک کی سرزمین اور اپنے اُن اکابرین سے محبت ہے جن کی محنت اور دن رات کی جدوجہد سے اِسے یہ وطنِ عزیز پاکستان ملاہے اَب یہ اور بات ہے کہ ہماری ساری پاکستانی قوم (صدر، وزیراعظم، اراکین پارلیمنٹ، سیاستدانوں،بیوروکریٹس، وکلا، اساتذہ اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سے لے کرایک عام پاکستانی شہری تک )میں قانون شکنی کا عنصر کچھ اِس طرح سرایت کرگیاہے کہ اِسے اِس کا اندازہ ہی نہیں ہوتاہے کہ کیا صحیح ہے ...؟اور کیاغلط ہے..؟کس عمل کو کرنے کا ہماراقانون اجازت دیتاہے اور کسے نہ کرنے کا حکم دیتاہے ..؟مگر اِن تمام باتوں کی پروا ہ کئے بغیر ایک طرف ہماری پاکستانی قوم ہے کہ اِس کی جو مرضی میں آتاہے یہ کرتی ہی چلی جاتی ہے...؟اور جب کوئی باشعور یا ذراسی قانونی سمجھ رکھنے والااِسے اچھے بُرے کی تمیز سیکھانابھی چاہتاہے تویہ اِس کی بھی سُننے کو تیار نہیں ہوتی ہے یہی اِس کی لاپرواہی ہے کہ آج ہماری قوم اُس نہج کو پہنچ چکی ہے کہ یہ خطے کی اور دوسری قوموںکے مقابلے میں قانون شکنی میں یکتا ہوچکی ہے لگتاہے کہ ہمارے حکمرانوں سے لے کر ایک عام پاکستانی شہری بھی اپنے یہاں قانون کی بالادستی کا حقیقی معنوں میںقائل نظر نہیں آتاہے اِس معاملے میں سب کے زبانی کلامی دعوے توبہت سے مل جاتے ہیںمگر حقیقی معنوں میں کوئی بھی شخص کسی بھی شعبے میں ایسانظرنہیں آتاہے کہ جوسوائے کسی پرسنٹیج کے اپنے ملک میں حقیقی معنوں میںقانون کی پاسداری کرتاہوادکھائی دے آج میری قوم کا ہر فرداپنے ہی بنائے ہوئے قانون کی دھجیاں بکھیرنے میںایک دوسرے سے سبقت لے جارہاہے خواہ اِس میں حکمران ہوں یا ایک عام پاکستانی شہری سب ہی اپنے اپنے حصے اور طاقت کے مطابق قانون کے کان اینٹھنے میںلگے ہوئے ہیںایسے میں مجھے پھر یہ احساس ہوتاہے کہ جی ہاں میں بھی اتناہی پاکستانی ہوں جتناکہ آپ خود کو اپنے قول وفعل سے سامنے والے پر یہ جتانے اور ثابت کرنے کی جدوجہدکرتے ہیں کہ آپ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتناآپ کے سامنے والااور ہمارے حکمران ہیں یعنی ایسے پاکستانی جو اپنے مفادات کو ہر حال میں مقدم جتنے ہیں اور اُن عام پاکستانی شہریوں کی طرح جو اپناگھرتو صاف کرلیتے ہیں مگراپنی چوکھٹ اور اپنی گلی صاف رکھنااپنی توہین سمجھتے ہیں اور گھر کا ساراکوڑاکرکٹ گلی میں اِس لئے پھینک دیتے ہیں کہ آپ کے سامنے والابھی ایساہی کرتاہے کیوں کہ اپنے اِس عمل سے وہ یہ ثابت کرتاہے کہ وہ پاکستانی ہے اور آپ بھی ایساکرکے اُسے یہ بتارہے ہوتے ہیں کہ آپ بھی پاکستانی ہیںاور اِس لحاظ سے اِس کی دیکھادیکھی آپ بھی اتنی ہی اپنے ملک سے محبت رکھتے ہیں جتنی کہ آپ کے گھرکا سامنے والااور دائیں بائیں کے پڑوسی اپنے ملکِ پاکستان سے محبت رکھتے ہیں کیوں کہ ہم سب اپنے ملک سے صرف اتنی ہی محبت رکھتے ہیں جتنی ہم اپنے گھرکو صاف سُتھرارکھنے کی حد تک رکھتے ہیں بھلے سے ہماری چوکھٹ سے لے کر گلی تک اور گلی سے لے کرمحلے تک اور محلے سے لے کرشہرتک اور شہرسے لے کرسارے ہی ملک میں کچڑے اور کوڑاکرکٹ کے انبارہی کیوںنہ لگ جائے اور اِس سے تعفن اُٹھے تو ہماری بلاسے ہمیں اِس سے کوئی سروکار نہیں...ہمیںاگر کوئی غرض اور مطلب ہے تو صرف یہ ہے کہ ہماراگھر تو صاف ہے بھلے سے ہماری چوکھٹ، گلی ، محلہ، شہراور پوراملک گندگی اور غلاظت کے انبار میں دھنساہے تواِس سے ہماراکیامطلب...؟ ہمیںتو صرف اپناگھرصاف رکھنامقصود ہے اور بس... کیوں کہ ہمیں آج اپنے ملک سے صرف اتنی ہی محبت رہ گئی ہے جتنی ہمیں اپنی ذات اور اپنے مفادات سے ہے...کیوں کہ ہم کیاکریں اُوپر سے نیچے تک سب کی سوچ ہی اتنی محدود ہوکررہ گئی ہے آج کوئی اپنی ذات اور اپنے مفادات کے علاوہ اپنی قوم اور ملک کے کئے کچھ سوچ ہی نہیںرہاہے تو پھر میں کیوں کسی کے لئے سوچوں تب ہی تو میں اپنے اردگرد کا جائزہ لینے کے بعد میںاِس نتیجے پر پہنچنے کے بعدیہ سوچنے پہ مجبورہوگیاہوں کہ کیامیں بھی اتناہی پاکستانی ہوں جتنے وہ پاکستانی ہیں...؟تو مجھے مبہم ساہی جواب ملا...جس پر بھی میں خوش ہواکہ چلو کچھ تو سامنے آیااوراَب یہاں میں یہ کہناچاہوں گاکہ یہ بات ہے اپنی اپنی سمجھ کی اور اِس سوچ کو ختم کرنے کی جس میں پڑکر ہم اپنی ذات ، اپنے مفادات اور اپنے گھر تک محدود ہوگئے ہیں آج اگرہم سب نے اپنی اِس سوچ اور فکرکو نہ ختم کیاگیاتو ہم سب اپنے اپنے چکر میں پڑکر اپنے اُس اتحاد اور ملی یکجہتی سے بھی محروم ہوجائیں گے جس کا حقیقی خواب ہمارے بزرگوں نے ہمارے لئے دیکھاتھا۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 889053 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.