آمریت سے بدتر جمہوریت سے چھٹکارہ کا وقت آگیا؟

ایک بار پھر ایسے حالات پیدا ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں ملک آمریت سے بد تر جمہوریت سے چھٹکارہ پاسکتا ہے، اگر موجودہ حکومت کا تختہ ہوا تو خطرناک ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے لیکن عام افراد کی اکثریت جو غربت ،مہنگائی ، بیروزگاری ،امن و امان کی خراب صورتحال اور بجلی کی لوڈشیدنگ جیسے مسائل کوگذشتہ تقریباََ ساڑے چار سال سے برداشت کررہی ہے خوش ہوجائے گی اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسا ہونے پر کروڑوں لوگوں کے چہرے خوشی سے کھِل اٹھیں گے ممکن ہے کہ لوگ حکمرانوں کے جانے پر جگہ جگہ رقص کرتے ہوئے اور جشن مناتے ہوئے نظر آئیں۔

آمریت کے لبادے میںموجود حکومت کے خاتمے پر غم و غصہ کا اظہار اور شدید ردعمل حکومتی ٹولے میں موجود سیاسی پارٹیوں کے جذباتی کارکنوں کی طرف سے کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب کچھ جمہوریت کی محبت میں نہیں بلکہ لوٹ مار، غنڈہ گردی اور کرپشن کے مواقعے چھِن جانے کے صدمے کے باعث اپنے رہنماﺅں کے اشارے پر ہی ہوسکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ میرا خیال یا خوش فہمی ہے یا اس کے امکانات واقعی پیدا ہوچکے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ مجھے یہ خوش فہمی آج ہونے والے کور کمانڈرز کے اجلاس سے ہوئی ہے،آئی ایس پی آر کے مطابق اجلاس میں فوجی کمانڈرز پیشہ ورانہ امور اور داخلی صورتحال پر غور کریں گے۔کورکمانڈرز کا یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ملک کے دو اہم ادارے ایک دوسرے کے مدِمقابل آگئے ہیںجس کے نتیجے میں ملک افراتفریح کا شکار ہوسکتا ہے ۔

ملک کے داخلی حالت پر کور کمانڈرز کا اجلاس اس بات کا ثبوت ہے کہ عسکری قیادت کو ملک کی موجودہ صورتحال پر تشویش ہے اور وہ اس صورتحال سے خاموش نہیں بیٹھ سکتی۔یہ حقیقت ہے کہ جب ملک کے سب بڑے صوبے کے لوگ اور وہاں کا وزیراعلیٰ بھی بجلی کی لوڈشیدنگ کے باعث سڑک پر احتجاج کرنے پر مجبور ہے اور پنجاب کی سڑکوں پر بارشوں کے باوجود بجلی نہ ہونے کے باعث لوگ سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ،جبکہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں عام شہری اور تاجر ٹارگیٹ کلنگ اور بھتہ مافیا سے تنگ ہیںیہاں کے تاجر اپنا کاروبار کراچی سے منتقل کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، جبکہ بلوچستان اور پختونخواہ کے لوگ امن وامان ، پاور کرائسس اور دیگر ایشوز کی وجہ سے پریشان ہیں ، ایسی صورت میں کسی بھی ادارے کی تشویش بے جا نہیں ہے۔لیکن حکمران صرف اپنے مفادات اور حکومت کو طول دینے میں مصروف ہیں حکومت اور ان کے اتحادی عوام کو درپیش مشکلات سے لاتعلق نظرا ٓتے ہیں،جبکہ ایک حکومت کی اہم اتحادی متحدہ قومی موومنٹ ان دنوں آنے والے انتخابات کی تیاریوں میںمصروف ہوچکی ہے اوراپنے مستقبل کے اتحادیوں کی تلاش میں سرگرم ہے۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کے لیڈرزحکومت اور صدر مملکت کے دفاع کے لیئے سپریم کورٹ میں چلنے والے مقدمات پر عدالت کے باہر زیادہ سرگرم نظر آرہے ہیں۔

سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی توہین عدالت کے مرتکب ہوکر اپنے تمام عہدوں سے فارغ ہونے کے بعد چند روز قبل یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر دوسرے وزیراعظم یعنی راجہ پرویز اشرف کو نکالنا ملک توڑنے کے مترادف ہوگا اور ذمہ دار عدلیہ ہوگی ۔۔۔۔سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر اگر وزیر اعظم نااہل قرار پائے تو ملک کو کیسے نقصان پہنچے گا ؟

کیا پیپلز پارٹی اپنے آپ کو ملک کی بڑی قوت سمجھنے لگی ہے؟

کیا کسی ایک شخصیت کے لئے عدالتی حکم کو نہ ماننا اوراسے بچانے کے لئے آئینی ترامیم کروادینا پارلیمنٹ اور حکومت کا کام ہوتا ہے؟

کیا یوسف رضا گیلانی کے ایک ٹی وی چینل کو دیئے گئے اس انٹرویو پر کسی نے ان سے وضاحت طلب نہیں کی؟

کیا یہ دنیا میں کہیں بھی ممکن ہے کہ عدالتی کارروائی کے نتیجے میں ”ملک ٹوٹنے“کے مترادف بات ہوجائے؟

6اگست کو ایک نجی ٹی وی پر سابق وزیراعظم کے انٹرویو کے یہ الفاظ سنکر میں حیران ہوگیا اور سوچنے لگا کہ یہ ہی ہمارے ملک کے سیاست دان ہیںجو اپنے مفادات پر ضرب لگنے پر کچھ بھی کہہ سکتے اور کرسکتے ہیں؟

پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے گذشتہ سالوں کے دوران ملک اور قوم کے ساتھ جو بھی کیا اور کررہے ہیں ان کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔

پیپلز پارٹی کے جیالے فیصل رضا عابدی اور شرجیل میمن پارٹی نظم کی خلاف ورزیاں کرنے کے ساتھ عدالت کے بارے میں مسلسل قابل اعتراض بیانات دے رہے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے تقریباََ تمام ہی لیڈر اور منسٹر واضع طور پر یہ دعوی ٰ بھی کررہے ہیں کہ وہ عدالت کا احترام کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ لوگ عدالت سے محاذ ارائی کے بھی مرتکب ہورہے ہیں۔

یہ عمل ملک اور قوم کے ساتھ سیاست کے نام پر مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟

عام لوگوں اور غیر جانب دار تجزیہ کاروں کا موقف یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی اس جمہوری حکومت نے ملک اور قوم کو آگے کی طرف لے جانے کے بجائے بہت پیچھے کردیا ہے ،یہ حکومت اور اس کے اتحادی اسی طرح حکمرانی کرتے رہے تو ملک کو نہ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جمہوری حکومت کو ماضی کے آمرانہ تجربات کو سامنے رکھ کر کسی بھی طرح فارغ کردیا جائے ۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152746 views I'm Journalist. .. View More