آزاد ملک کے قیدی عوام

اورنگ زیب عالمگیر کی وفات 1707 ءکے ساتھ ہی ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت عملاََ ختم ہو گئی۔مسلمان معاشرتی و مذہبی لحاظ سے زوال آشنا تھے ۔ پھر 1803 ءمیں انگریز دہلی میں داخل ہوا تو اس نے ہندوﺅں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا۔ یوں 1816 ءسے 1831 ءتک عظیم رہنما سید احمد بر یلویؒ نے مسلمانوں کو سیاسی اور مذہبی اعتبار سے سنبھالادینے کی بھر پور کوشش کی ۔ 1826 ءمیں سکھوں کے خلاف جہاد کیا۔ بعد میں سید احمد بریلویؒ کچھ افغانوں کی غداری کی وجہ سے بالا کوٹ کے مقام پر شکست کھا کر شہید ہو گئے۔1857 ء جنگ آزادی میںناکامی میں مسلمان علمی ،دینی ،اقتصادی اور لسانی طور پر تباہ ہو گئے۔ سر سید نے مسلمانوں کی ترقی کے لیے بہت کوشش کی اور پنجاب کے مسلمانوں نے بھی سر سید کا دل کھول کر ساتھ دیا۔ لاہور میں انجمن حمایت ِ اسلام کا قیام بھی اسی دور میں ہوا۔ 1885 ءمیں انڈین نیشنل کانگریس بنی۔ مگر یہ صرف ہندوﺅں کے فائدے کے لیے تھی تو سر سید نے مسلمانوں کو اس میں شامل ہو نے سے روکا۔

1906 ءمیں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ مسلم لیگ نے جلدہی جداگانہ انتخاب کا حق حاصل کیا۔1920 ءمیں گاندھی کی جانب سے عدم تعاون کی تحریک کا آغاز ہو پھر شدھی تحریک شروع ہوئی بلا آخر 1935 ءمیں مرکز میں فیڈریشن اور صوبوں میں خود اختیار حکومت کا نفاذ طے ہوا۔ مگر کانگریس مسلمانوں کو ختم کرنے کی پالیسی پر گا مزن تھی۔ مسلم لیگ ایک کمزور جماعت تھی اب قا ئد اعظم نے مسلمانوں کی رہنمائی کا بیڑہ اُٹھا یا ۔ اِن کی قیادت کی بدولت 23 مارچ 1940 ءکو لاہور میں قرار دادِ پاکستان منظور ہوئی۔اور مسلمانوں کو اپنے خواب کی تعبیر نظر آنے لگی ۔ مسلم لیگ نے قائد اعظم کی رہنمائی میں آزادی حاصل کرنے کے لیے زبر دست تحریک چلائی۔ جس سے انگریز کو اندازہ ہو گیا کہ اب مسلمانوں کے جذبے کو دبانا ممکن نہیں ۔ ہندو ﺅں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا یوں فسادات کا بازار گر م ہوا اور لاکھوں مسلمانوں نے آزادی کی خاطر جان کی قر بانیاں دی لیکن قائد اعظم کی قیادت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندواور انگریز دونوں مسلمانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے۔

آخرکار 14 اگست 1947 ءکو پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معرض ِ وجود میں آیا۔ پاکستان کی آزادی کوئی ایک دو دن یا مہینوں کی کا وشوں کا نتیجہ نہیں بلکہ مسلسل سالوں کے جذبے کی وجہ سے آج ہم پاکستانی کہلانے کے قابل ہوئے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے سینکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں جانوں کی قر بانیاں دی اور اپنا سب کچھ وطن کے نام پر قر بان کیا ۔ تب جا کر پاکستان میں رہنے کا حق حاصل ہوا۔اسلئے
قا ئد اعظم نے بڑے فخر سے فرمایا:”کہ پاکستان ہم نے صرف زمین کا ایک خطہ حا صل کر نے کے لئے نہیں بلکہ یہاں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے حاصل کیا“

لیکن افسوس صد افسوس آج پاکستان حا صل کرنے کا مقصد ہم بھول چکے ہیں ہم نے یہ بھی بھلا دیا کہ پاکستان کو امن کا گہوارہ مانا جاتا تھاکیوں کہ پاکستان کا مطلب ہی پاک سر زمین ہے جہاں امن و سکون سے رہ سکتے ہیں ۔ مگر آج حالات اسکے بر عکس ہیں ۔ لوگ امن و سکون کے نام سے بھی نا آشنا ہیں ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ماضی کے حکمران صرف ملکی مفاد کے علمبر دار ہوتے تھے جو اپنے مُلک کو چلانے اور بر قرار رکھنے کے لیے اپنی جان دینا جانتے تھے اور اپنا تن من دھن سب کچھ وار کر صرف ملک میں سلامتی چاہتے تھے۔

قا ئد اعظم کی مثال ہمارے سامنے ہے آخری دنوں میں اُن کی طبعیت خراب تھی کہ اُنہیں ہسپتا ل میں داخل ہونا تھا مگر ملکی حالات کو نظر انداز نہیں بلکہ اپنی بیماری کو نظر انداز کیا ۔ بیماری کے با وجود دن رات ملکی ترقی کے لیے بھر پور محنت کی صرف ایک جنون و جذبہ تھا کہ وہ پاکستان کو سب سے آگے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔یوں وہ ملک کو قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مگر طبیعت ساتھ نہ دے سکی اور وہ اپنے خالق ِ حقیقی سے جاملے۔ مگر قائد اعظم آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور اُن کی عزت و احترام قابلِ ستائش ہے۔ وہ عظیم رہنما نہیں جانتے تھے کہ ان کے بعد اس پاک سر زمین کا کیا حال ہوگا یہ تو کسی کے گمان میں نہ تھا کہ پاکستان کے حالات ایسے ہو جائیں گے کہ غیروں کی آنکھیں بھی ان مناظر پر مشکبار ہوئے بغیر نہیں رہیں گی۔کیوں کہ ملک پر ایسے حکمرانوں کا قبضہ ہوگا جو صرف اپنا مفاد سو چتے ہونگے۔ ان کو ملک و قوم کے مفاد سے کوئی واسطہ نہیں ۔ جنہیں یہ احساس نہ ہوگا کہ اس ملک میں آدھی سے زیا دہ عوام کے پاس پیٹ بھرنے کے لیے روٹی نہیں تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا نہیں اور پینے کے لیے صاف پانی نہیں۔ روشنی کے لیے بجلی نہیں انہیں صرف اپنے آرام و آسائش کی فکر ہوتی ہے۔ وہ حکمران کیا جانے جو چند سیکنڈ اے سی کے بغیر نہیں گزار سکتے جن کے قدم زمین پر رکھنے سے پہلے سواری موجود ہو تی ہے۔ وہ کیا جانے مئی جون کی گرمی میں مزدور کیسے کام کرنے جاتا ہے اور آگے فیکٹریاں بجلی کی نا پیدگی کی وجہ سے بند ہو ں تو کیا گزرے گی غریب انسان پر جو صرف روز کی کمائی سے گزارہ کرتا ہے۔ نوبت فاقوں کی آجاتی ہے۔

آج ہمارے حکمران یہ ضرور جانتے ہیں کہ فلاں چیز پر ٹیکس لگانے سے ان کو کتنا فائدہ ہو گا لیکن یہ نہیں جاننا چاہتے کے ایک ورکر کی آٹھ ہزار تنخواہ میں سے بجلی گیس اور پانی وغیرہ کا بل ادا کرنے کے بعد دو دن کا راشن خریدنے کے لیے بھی چند روپے نہیں بچتے۔موجودہ حالات کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی ہے یوں تو ہمارے حکمران دن رات کوشش جاری رکھتے ہیں کہ بجلی کی لوڈ شیڈ نگ ختم ہو جائے اور اسکے چار جز میں اضافہ ہو جائے فرق صرف اتنا ہے کہ لوڈ شیڈنگ تو روزبروز ترقی یافتہ ہورہی ہے جہاں تک چارجز کی بات ہے وہ آئے دن ڈبل ہو جاتے ہیں ۔ یہاں بھی چٹان کے نیچے آتا ہے غریب مزدور جس کی آٹھ ہزار تنخواہ میں چار پانچ ہزار بجلی کے بل کی نظر ہو جاتے ہیں ۔ اسطرح باقی کے مسائل اسکے لیے تو عذاب سے کم نہیں۔ یوں وہ توصرف اپنے مسائل حل کر نے میں لگا رہتا ہے اور اسکا دھیان ملکی حالات پر جا ہی نہیں سکتا اور یہ ہی اصل کامیابی ہے موجودہ حکمرانوں کی کیونکہ عوام اپنے ہی مسائل میں بُری طرح پھنس چکی ہے اسلئے ان کی رائے نہ ہی کوئی اہمیت رکھتی ہے اور نہ ہی ان کے پاس اتنا ٹائم ہے کہ وہ رائے دیں۔کیا یہ ذمہ داری ہے ہمارے حکمرانوں کی ! بات جب حکمرانوں کی آتی ہے ہے تو انکا جواب ہے کہ وہ پوری لگن سے کام کر رہے ہیں مگر مسئلے کا اصل حل کوشش نہیں بلکہ عملی اقدامات ہونے چاہیے اگر ہمارے قابل حکمرانوں میں ذرا سا بھی جذبہ ِ حب الوطنی پیدا ہو جائے تو میرا خیال نہیں کہ کسی بھی شعبے میں ناکامی ہوگی۔ اور بڑے سے بڑا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

اول تو ہمارے ملک میں پانی کی اتنی کمی نہیں کہ ہم ملکی ضروریات کے لیے بجلی پیدا نہ کر سکے۔ بس ضرورت توجہ کی اگر ہم ایسی جگہوں پر ڈیم بنائیں جہاں پانی ضائع ہوتا ہے اور سیلاب کا باعث بن کر تباہی مچاتا ہے تو یہ محفوظ پانی نہ صرف ہماری ضرورت کو پورا کر سکتا ہے بلکہ بجلی کے مسئلے کو بھی حل کر سکتا ہے اور سیلاب ک تباہ کاریوں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔کیوں نہیں بنائے گئے وہ ڈیم جو کالا ڈیم اور منگلہ ڈیم وغیرہ کی بنیادیں رکھی گئیں تھیں۔حکمت بدل گئی تو کیا ضرورتیں بھی بدل گئیں۔ چلو یہ بھی نہیں کر سکتے ہمارے حکمران کیوں کہ ان کے پاس بہت سی دلیل موجود ہوتی ہیں۔

دوسرے نمبر چین دوستی جو سالوں سے قائم ہے کیوں اِن کی آفر ٹھکرا دی گئی اگر چین ہمیں بجلی دے کر ہماری ضرورت کو پوراکرنا چاہتا تو کیوں نہیں کیا یہ معاہدہ جب امریکہ سے امداد کی جا سکتی ہے۔ تو پھر دوست سے تجارت بھی کرسکتے یہ کیسی عقلمندی ہے۔ کیا ایسا تھا پاکستان اسی دن کے لیے ہمارے بزرگوں نے قر بانیاں دی تھیں۔مگر کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہاں نہ ہی نظر آتا ہے اور نہ ہی دیکھنا چاہتے ہیں ۔ بجلی کا مسئلہ اپنی جگہ قائم ہے اسکے علاوہ بہت سے مسائل گھیرے ہوئے ہیں عوام کی بے روزگاری تمام جرائم کی جڑ ہے۔ ہمارے ملک میں لاکھوں نوجوان حضرات جو کہ ہاتھوں میں ڈگریاںاُ ٹھائے سڑکوں پر پھرتے ہیں نوکری کی تلاش میں مگر وہ مسلسل ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں کیوں کہ رشوت شفارش جو کہ اُن کے پاس نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ان کو انٹرویو کے لیے تو بلا یا جاتا ہے مگر ہزاروں دلیلیں دے کر ذلیل کر دیا جاتا ہے۔ ان حالات سے دل برداشتہ ہو کر وہ غیر قانونی کام شروع کر دیتے ہیں یوں دہشت گردی جنم لیتی ہے جو کہ خود ایک مسئلہ ہے اسکی وجہ سے ملک میں امن و سکون بر باد ہو جاتا ہے ۔ موجو دہ دور میں اسکی مثالیں سامنے ہیں ۔ بم دھماکے، چور بازاری ، جوا ، شراب نوشی اور دیگر برائیاں جنم لیتی ہیں۔
یہاں الزام صرف قوم کو دیا جاتا ہے۔ مگر کیا ہم نے سوچا کہ ایسا کرنے کے لیے مجبور کس نے کیا ہے اس برائی کی وجہ کیا ہے۔ان حالات میں عام آدمی صرف آنسو بہا سکتا ہے اگر وہ آواز بلند کرتا بھی ہے تو اسکو دبایا جاتا ہے کیو نکہ وہ بدقسمتی سے جنگل کے قانون کو سمجھ نہیں پایا کیونکہ ملکی حالات کے مطابق صرف طاقتور ہی بول سکتا ہے اور کمزور ظلم و ستم کا نشانہ بنتا ہے۔

کیا یہ آزاد ملک ہے جہاں کسی شہری کو رائے دینے کا حق نہیں اسکو آزادی کہتے ہیں ملک آزاد ہوئے ماشاءاللہ 65 برس گزر چکے ہیں مگر قوم کی آزادی کی اُمید ابھی تک باقی نہیں۔یوں تو ہر سال حکومت یہ دن یوم ِ آزادی بڑے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتی ہے باقاعدہ اہتما م کیا جاتا ہے۔ پر چم کشائی کی جاتی ہے۔ قائد اعظم کے مزار پر خراجِ تحسین پیش کیا جا تا ہے۔

کیا سوچا کر اس مقدس پرچم کی قدر کی ہے اسکو وہ مقام وہ جگہ دی جو دینی چاہیے ؟ کیا قائد اعظم کے قول کو ہم نے نبھا یا ہے؟ اس ملک کی ترقی و کامرانی کے لیے کچھ کیا ہے؟ قائد اعظم نے ہمیں ایک گلشن دیا تھا۔

ہم نے اس کی کس قدر حفاظت کی موسم بہار تھا پاکستان مگر آج یہاں صرف خزاں ہی خزاں ہے لیکن اسکے مالی نہ جانے کیوں اتنے لا پرواہ اور سست و کاہل ہو گئے ہیں کہ ان کو باغ کی بر بادی نظر نہیں آتی اسکے سارے پرندے قید ہیں کوئی فریاد سننے والا نہیں ۔ پاکستان قائم ہوا تھا اسلام کے نام پر جو عدل و انصاف اور اخوت و مساوات پر مشتمل تھا مگر آج نہ یہاں انصاف ہے نہ عدل اخوت تو بہت پہلے کی ختم ہوگئی۔

اب صرف خداسے ہی دعا ہے کہ اے میرے پرور دگار اس ملک کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ہدایت دے ۔ ہمارے حکمرانوں اور قو م کی مدد ۔فرما رحم کردے اے میر ے مالک! اس پاک سر زمین پر (آمین ثم آمین)
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 147 Articles with 111206 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.