گریبان کسی کا نظریں ہماری

گریبان کسی کا نظریں ہماری ،کیایہ اچھا نہ ہوکہ ہم اپنے گریبان میں بھی جھانکنا سیکھ لیں .؟

آج جس طرح ہماری ملکی سیاست میں گریباں گیر سیاست کا مزاج بن گیاہے اگر پچھلی تیں دہائیوں میں دیکھاجائے تو ایسی سیاست کانہ تو کہیں تذکرہ ملتاہے اور نہ ہی کوئی عمل دِکھائی دیتاہے مگر معلوم نہیں اِن دِنوں ہماری ملکی سیاست میں ہمارے سیاستدانوں میں سیاسی میدان میں گودنے والے اپنے حریف سیاستدانوں کے گریبان پکڑنے اور اِن کے گریبانوں میںہاتھ ڈالنے کا رجحان خداجانے کہاں سے گُھس آیا ہے کہ اِنہوں نے ایساکرنا اپنے لئے ایک فیشن بنالیاہے اور اِس جنون میں ہمارے جو سیاستدان مبتلاہیں وہ بے محل ایساکرنااپنے لئے فخر سمجھنے لگے ہیں اور اکثر موقعوں پر تو یہ بھی دیکھنے اورسُننے میں آیاہے کہ ہمارے فلاں نامی گرامی سیاستدان نے بے خطر اور بے حیائی کا بُرقع اپنے منہ پرڈال کر اپنے سامنے والے مخالف سیاستدان کے گربیان میں ہاتھ ڈال کر اِسے نہ صرف زبانی کلامی بلکہ لتن مکن اتنا لتاڑاکے ایسالگاکہ جیسے یہ اِس موقع کی برسوں سے تلاش میں تھاجو موقع آج اِس کے ہاتھ آگیاہے اَب ایسے میں ایک طرف ہمارے ایوان ہیں کہ جو سیاستدانوں کے اِنہی رویوں کی وجہ سے مچھلی بازار بن گئے ہیں اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ہمارے منتخب نمائندے عوامی اور ملکی مسائل کو اہمیت دینے کے بجائے ہمارے یہی اراکین پارلیمنٹ اپنے ذاتی مسائل کے حل کے لئے آوازیں اُٹھانااپنی عافیت سمجھنے لگے ہیں اور اگر اِنہیں اِس سے ذرابھی فرصت ملتی ہے یا کوئی موقع ملتاہے تو یہ اپنے مخالف جماعتوں (اپوزیشن سمیت دیگرپارٹیوں )کے رہنماؤں کی کردارکشی کرنے کا بھی کوئی لمحہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں اِس پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ایوان عوامی اور ملکی مسائل سے چھٹکاراگاہ بننے کے بجائے مچھلی بازار بن گئے ہیں جہاں سے ذاتی اور فروعی سیاست کا تعفن اٹھتامحسوس کیا جاسکتاہے۔

الزامات لگانے اور اِنہیں دھونے دھولانے اورمٹانے کا سلسلہ کب اور کس تہذیب میں نہیں ہورہاہے یہ تو ازل سے ہی جاری ہے اور جب تک یہ دنیاقائم ہے اِنسان اپنی اِس روش سے نہیں نکل سکتے ہیں مگر اَب ایسابھی نہیں ہوناچاہئے کہ کسی پر الزامات بھی لگائے جائیں اور جب کوئی اِس پر اپنی صفائی میں کچھ بولناچاہئے تو اِس کی سُنی بھی نہ جائے اور نہ صرف خود سُنے پر آمادہ ہواجائے بلکہ اگر کوئی اور بھی سُنناچاہئے تو اُسے بھی روک دیاجائے آج ایساہی بہت کچھ ہمارے یہاں ہونے لگاہے اِس پر ہم یہ کہئے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں کہ شائد ابھی تک ہمیں دنیا میں جینے اور چلنے کا سلیقہ ہی نہیں آیاہے اور آج بھی ہم ذراذراسی بات کو برداشت کرنے کے بجائے اِسے رائی کا پہاڑ بناڈالنے کی جس قسم کی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں اگرآج ہم وقت کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے اتناہی وقت کسی مثبت کام یا سوچ کے لئے وقف کردیتے تو ممکن ہے کہ ہم اور ہماراملک بھی اُس اُوج ثریا پر پہنچ چکاہوتاجہاں پہنچ کر دنیا کے دیگر ممالک کے لوگ ہمیں وہاں سے منہ چِڑھاچِڑھا کر ہماری بے حسی اور بے بسی کا مزاق اڑارہے ہیں مگر ایک ہم ہیں کہ ہمیں اپنی اِس بے عزتی کا ذرابھی احساس نہیں ہورہا ہے اور ہم پھر بھی یہ نہیں سوچ رہے ہیں کہ ہم ایساکیوں نہ کچھ اچھاکریں جو ہماری ذات اور ہمارے ملک کے حق میں بہترہو مگرہم تو بس وہی کرنے پر بضدہیں جیساہمارے سامنے والاکررہاہے بھلے سے وہ بُراہی کیوں نہ کررہاہوہم اِس کی تمیزکئے بغیرویساہی کرنے پر تلے بیٹھے ہیں جیساہمارے سامنے والاکررہاہے۔

اَب اِسے ہی دیکھ لیجئے کہ پچھلے دنوں مسلم لیگ (ن) کے سینئررہنمااور پارلیمنٹ میں قائد حزبِ اختلاف کی اہم ذمہ داری نبھانے والے لیڈر چوہدری نثارعلی خان شوکت خانم میموریل ہسپتال کے بانی اور تحریک انصاف پاکستان کے سربراہ عمران خان سے متعلق کس طرح لب کشائی کررہے تھے اِس پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اِنہیں کسی بھی طور زیب نہیں دیتاہے کہ یہ اتنے بڑے اور پرانے ترین سیاستدان ہوکرسیاست میں نیانیاقدم رکھنے والے ایک جذباتی عمران خان جیسے نوجوان کی ایک پریس کانفرنس سے یوں آگ بگولہ ہوجائیںاور اِن کی سنگ باری کے جواب میں اُسی طرح کی دھول باری کریںجس سے خود اِن کی ذات بھی محفوظ نہ رہ سکے یہ ٹھیک ہے کہ عمران خان ذراجذباتی واقع ہوئے ہیں جو ذرابھر میں اضطراب میں آجاتے ہیں اِن کا یہ رویہ ہماری قوم کے لئے کوئی نیانہیں ہوناچاہئے ایساہی کچھ یہ کھیل کے میدان میں بھی کیاکرتے تھے اور اَب ملکی سیاست میں قدم رکھنے کے بعد بھی اِن کی یہ عادت نہ گئی اور نہ ہی بدلی ہے جبکہ یہاں ہمارااِنہیں یہ مشورہ ہے کہ عمران خان کو یہ ضرورمعلوم ہوناچاہئے کہ یہ سیاست کا میدان ہے یہاں ہر سیاستدان اِس میدان کا کپٹن ہے یہاں سب کو بڑے سنبھال کراوراپنا ایک ایک قدم پھونک پھونک کررکھناہوتاہے کہیںقدم یا زبان وبیان کی ذراسی لغزش سے ساراسیاسی وقار کنارے بھی لگ جاتاہے اور ذراسی حکمتِ اور دانش سے سیاسی امیج میں چار چاند کا بھی اضافہ ہوجاتاہے بس یہ بات ہے ہمارے ملک کے اِس سیاسی میدان میںقدم رکھنے والوںکی اپنی سوچ اور اپنے رویوں کی جواِنہیں کس طرح استعمال کرتے ہیں۔

اور اَب آخر میں یہاں ہم ایک بار پھر اُسی گریبان کا تذکرہ کریںگے جس کا ذکرہم مندرجہ بالاسطور میں کرچکے ہیںیعنی یہ کہ ہمارے سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے ضرور پر تولیںمگر اپنے سیاسی و اخلاقی اور تہذیبی رکھ رکھاؤ کے بدولت وہ انتخابی معرکہ آرائی میں کچھ کردکھانے کا جذبہ لے کر میدانِ سیاست میں کودیں کسی کے گریبان میں کم ازکم اِس طرح تو اپنی نظریں نہ گڑائیں اور نہ ہاتھ بڑھائیں کہ کسی کی عزت تار تار ہوجائے اور یہ اِسے اپنااپنا عظیم سیاسی معرکہ تصورکرتے ہوئے اِس خوش گمانی میں مبتلارہیںکہ اِن کے اِس فعلِ شنیع سے عوام اِن کے ساتھ ہولیں گے اور آئندہ اقتدار اِنہی کا ہوگاحالانکہ ایساکچھ ہرگز نہیں ہے کہ عوام اِن سیاستدانوں کے کسی ایسے عمل سے خوش ہیں یاہوں گے جس میںیہ سیاستدان محض اپنی بات منوانے کے خاطر اپنے مخالف کے گربیان کی دھجیاں بکھیریںاور کیایہ اچھانہ ہوکہ ہمارے سیاستدان اور ہم کسی کے گربیان میں نظریں گڑانے اور ہاتھ بڑھانے کے بجائے اپنے اپنے گربیانوں میں جھانکنے کی عادت بنالیں اور اپنی اپنی اصلاح خودکرنے کی کوشش کریں۔(ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 894022 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.