رات کی نیند نہ دن کا چین

حکومت نے افطاری‘ نماز تراویح اور سحری کے اوقات میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا اعلان کیا تھا، اس پر ایک روز بھی عمل نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اپنے اعلان پر عملدرآمد کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی تو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں روزہ داروں کو جو پہلے ہی مہنگائی کے ستائے ہوئے ہیں یہ جھوٹی آس کیوں دلائی؟ بجلی نہ ہونے سے اکثر گھروں میں پینے اور مساجد میں وضو کے لئے بھی پانی دستیاب نہیں ہوتا۔ بجلی کی کمی پوری کرنے کے لئے ساڑھے چار سال میں تو کچھ نہیں کیا جاسکا، اب تسلی دی جارہی ہے کہ لوڈشیڈنگ بس ختم ہونے ہی والی ہے۔ کیسے ختم ہوگی اس کا کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ ایک رپورٹ یہ ہے کہ صدر کسی چینی کمپنی سے بجلی کے لئے معاہدہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں پھر سوال یہ ہے کہ چینی کمپنی اگر بجلی کی کمی دور کرسکتی ہے تو یہ کام بہت پہلے کیوں نہ کیا گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ درپیش حالات میں اس کا امکان بھی کم ہی نظرآتا ہے۔ حکومت پنجاب کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ18ویں ترمیم کے بعد بجلی پیدا کرنا اس کا کام ہے جو اس نے نہیں کیا۔ اس صورت میں کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ 18 ویں ترمیم کی منظوری کے وقت ہی صوبوں سے کہہ دیا جاتا کہ اب بجلی تمہیں ہی پیدا کرنی ہے۔ اس طرح کافی وقت بچایا جا سکتا تھا۔ اگر بجلی کی پیداوار صوبوں کا کام ہے تو وفاقی حکومت اب تک اس حوالے سے جن منصوبوں کی باتیں کررہی ہے وہ کس اختیار کے تحت آتے ہیں۔ پہلے یہ تو طے کرلیا جائے کہ بجلی وفاق کی ذمہ داری ہے یا صوبوں کی۔ اسی حوالے سے تھرکول کا منصوبہ التواءکا شکار ہے۔ اس منصوبے کے تحت 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جو پاکستان اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد برآمد بھی کرسکتا ہے اور یہ انتہائی سستی بجلی ہوگی جو چار روپے فی یونٹ کے حساب سے صارفین کو مہیا کی جاسکے گی لیکن بعض تحفظات اور رکاوٹوں کے باعث اس معاملے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ چین سے تقریباً ڈھائی ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی کا معاہدہ ہوا تھا اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ یہ صورتحال بہت تشویشناک ہے۔ لگتا ہے کہ بجلی کے معاملے میں بنگلہ دیش سے تو ہم پیچھے رہ ہی گئے ہیں شاید بھوٹان اور صومالیہ سے بھی پیچھے رہ جائیں گے۔ حکومت اگر عوام کو یہ سہولت فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے تو صاف اقرار کرے، جھوٹی تسلیاں نہ دے۔ اس کی غلط بیانیوں کے نتیجے میں عوام نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں انہیں حکومت کی کسی بات پر یقین نہیں آتا۔ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ دراصل بیوروکریسی کام نہیں ہونے دیتی۔ اگر ایسا ہے تو کام میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کو فارغ کیوں نہیں کیا جاتا؟ جمہوری نظام کے مفاد میں یہی ہے کہ حکومت عوام کو مزید مایوس نہ کرے۔ مسئلے دعوﺅں سے نہیں کام کرنے سے ہی حل ہوں گے-

موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو پہلے دن سے ہی اسے بجلی کے بحران کا مسئلہ درپیش تھا۔ موجودہ وزیراعظم نے جو اس وقت پانی اور بجلی کے وزیر تھے‘ بڑے وثوق سے اعلان کیا تھا کہ ملک میں31 دسمبر 2009ءکے بعد بجلی کی لوڈشیڈنگ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گی۔ آج اس حکومت کے اقتدار کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے میں چند ماہ باقی رہ گئے ہیں اور لوڈشیڈنگ تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ نہ صرف اپنی جگہ موجود ہے بلکہ اس میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ حکومت نے پچھلے ساڑھے چار سال میں زبانی جمع خرچ کے سوااس شعبے میں عملی طور پر کوئی کام کیا ہی نہیں۔ لیپاپوتی کے لئے اس نے بعض کمپنیوں کے ساتھ کرائے کی مہنگی بجلی حاصل کرنے کے جو معاہدے کئے ان میں بعض ایسے معاملات سامنے آئے جن میں سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔واجبات کی ادائیگی کے معاملات بھی تھے جن کے باعث صارفین کے بجلی کے بل تو بڑھ گئے مگر اصل مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ متبادل ذرائع ہوا‘ پانی، سورج وغیرہ سے بجلی پیدا کرنے میں بھی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی‘ ایران اور بھارت نے پیشکش کی کہ وہ بجلی دینے کے لئے تیار ہیں، ان سے بارہ تیرہ سو میگاواٹ بجلی مل سکتی تھی مگر جس طرح ایران سے گیس کے حصول کے لئے پائپ لائن بچھانے کے معاملے پر حکومت کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھاسکی اسی طرح بجلی کے لئے بھی ان دونوں ملکوں سے بات چیت کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچی اورملک میں بجلی کا بحران بڑھتا چلا گیا‘سابق وزیر اعظم گیلانی نے کئی بار لوڈ شیڈنگ جلد ختم کرنے کے اعلانات کئے مگر یہ دعوے نقش برآب ثابت ہوئے کیونکہ مسئلے نوٹس لینے سے نہیں کام کرنے سے حل ہوتے ہیں اور کام کسی نے نہیں کیا۔ گیلانی صاحب نے کہا تھا کہ لوڈشیڈنگ چاروں صوبوں میں یکساں ہوگی،اس پر بھی عمل نہیں ہوا۔
Hashir Abdullah
About the Author: Hashir Abdullah Read More Articles by Hashir Abdullah: 9 Articles with 6060 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.