مسئلہ کشمیر میں پاکستان اور بھارت کا کردار

پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی پیش رفت بڑی خوشی آئند بات ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ مذاکرات کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوں گے بلکہ کشمیر کے مسئلہ کا حل بھی نکل آئے گا۔ مذاکرات کی کامیابی کے امکانات اس لیے بھی زیادہ ہیں کہ بھارت کو پاکستانکے ساتھ مصالحت کی ضرورت ہے۔ پچھلے عرصہ میں بھارت نے بمبئی حملوں کے حوالہ سے پاکستان کے خلاف بھرپور مہم چلائی اور مکمل طور پر پوری قوت اور تسلسل کے ساتھ اپنی غاصبانہ مشینری اور ذرائع کا استعمال کےا تا کہ پوری دنیا کے سامنے پاکستان کا تشخص تباہ کر سکے اور پاکستانی قوم کو دہشت گردوں کے نام سے یاد رکھا جائے۔ فطری طور پر بھی کوئی دشمن اپنا قد اونچا کرنے اور گریبان صاف کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی منفی پروپیگنڈہ اور تصویر کا غلط رخ پیش کر کے اپنے عزائم میں کامیابی کی کوشش ضرور کرتا ہے لیکن سمجھوتہ ایکسپریس جس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی مارے گئے تھے اس کی تباہی کے ذمہ دار نے نمایاں طور پر بھارتی حکومت کی ترجمانی اور ان کے حساس اداروں کی بدگمانی کی بے مثال اور برہنہ تصویر پیش کر دی ہے۔ جس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ پاکستانیوں کا ازل سے یہ بدترین دشمن اپنی مکاری اور چالاکی کے بل بوتے پر اپنے عیبوں پر پردہ پوشی کی سعی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ بھارت کو آج عالمی قوتیںاس بات پر مجبور کر رہی ہیں کہ قتل و غارت کا جو بازار اس نے مقبوضہ کشمیر کے خطہ میں سرگرم کر رکھا ہے اسے بند کرے۔ اب اس کے لیے صرف مذاکرات کا راستہ ہے کہ جس کے ذریعے بھارت مسائل کا حل چاہتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ عراق اور افغانستان میں امریکی جنگ کے خلاف ناصرف پوری دنیا میں احتجاج کیا گیا بلکہ اس کے یورپی حلیف روس اور چائنہ سے بھی اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ نئے امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے اقتدار کے آغاز میں ہی اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ پورے جنوبی ایشیاءمیں قیام امن اور ترقی کے لیے اگر کوئی سب سے بڑی حائل رکاوٹ ہے تو وہ مسئلہ کشمیر ہے جس سے اس خطہ کا امن تباہ ہوسکتا ہے اور عالمی جنگ کا آغاز موجودہ عصر میں اگر کسی خطہ سے ممکن ہے تو وہ اس مسئلہ کشمےر کے مرہونِ منت دکھا ئی دیتا ہے۔ امریکہ اب یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے مفادات کو خلیج اور جنوبی ایشیاءمیںجلد سے جلد تحفظ مہیا کر دے تا کہ مستقبل قریب میں مخالف قوتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جنوبی ایشیاءسرد جنگ کے دوران روس اور امریکہ کے دائرہ اثر میں تھا لیکن اب امریکہ پورے براعظم پر اپنا اثرو رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے اور یہ عین اس وقت ممکن ہے جب مسئلہ کشمیر حل ہو جائےگا۔ 26 جولائی کو بھارت اپنا یوم جمہوریت بڑے جوش وجذبے سے مناتا ہے اور پوری دنیا میں جمہوری اقدار کو فروغ دینے کا یہ جھوٹا دعویدار مظلوم اور بے بس و لاچار کشمیری مردو خواتین پر جو مظالم کے پہاڑ گرا رہا ہے جسے ہم اپنی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا میں انسانی حقوق پہ آواز اٹھانے والے منصف اور امن کے سفیر اس ظلم و بربریت پر خاموش کیوں؟ کیا کشمیر میں بسنے والے یہ انسان کوئی تیسری مخلوق کی حیثیت رکھتے ہیں؟ کیا ان کی رگوںمیںدو رنے والا خون پانی پر مشتمل ہے؟ کیا ان کے احساسات جذبات تخیلات پر تاریکیوں کا پہرہ ہے۔ کیا یہ وہ بے بس لوگ ہیں جنہیںاپنی آزادی اور خودمختاری کا کوئی احساس نہیں۔ یہ لوگ ہر ظلم کے خلاف آج بھی میدان عمل میں برسر پیکار ہیں۔ قلم کے ذریعہ سے احتجاج اور جلوسوںکی شکل میں آج بھی مقبوضہ کشمیر کے بازار بھرے پڑے ہیں۔ وہاں حق کی آواز تو سنائی دیتی ہے لیکن حق وباطل میںفرق کو واضح کرنے والا کوئی منصف وہاں موجود ہی نہیں۔ کالے قانون نے سب کو اندھا کر دیا ہے۔ اپنے اپنے مفا دات اور عزائم کی تکمیل کی خاطر کسی کو کشمیریوں کا بے وجہ اور بے سبب بہنے والا خون دکھائی ہی نہیںدیتا بس یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج بھی اس سرسبز و شاداب علاقے میںجنگل کا قانون ماناجاتا ہے۔ وہاں کے ایک ایک گاﺅں اور قصبے میں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس میںرہنے والی حوا کی بیٹی کی عصمت تار تار نہ ہو اور مظلوم خواتین کی بے حرمتی نہ کی گئی ہو۔ وہاں پر ہر شخص بے بس و لاچار دکھائی دیتا ہے۔ ایک ارب آبادی پر مشتمل یہ ناپاک ملک بھارت درندگی اور وحشت کی ایسی ایسی گھناﺅنی داستانیں رقم کرتا دکھائی دیتا ہے کہ جس کی مثال پوری دنیا کی تاریخ میں بھی میسر نہےں آتی ہے۔1946ءسے لے کر 2002ءتک بہت سے مشکل مراحل سے گزرنے کے بعد پاکستان کو بھارت کے خلاف ایٹمی طاقت کا توازن حاصل ہوتا ہے۔ جو ناصرف مستحکم عمل ہے بلکہ پوری طرح مو ¿ثر بھی ہے۔ 1990ءمیں بھارت اور اسرائیل نے مل کر ایک سازش کے تحت اےٹمی انر جی کو نقصان پہنچا نے کی کو شش کی پاکستان کی بروقت تدبیری کاروائیوں کے سبب دشمنو ں کی سازشیں ناکام ہو گئی۔ 1998ءمیںبھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کیا پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت ہے بھی کہ نہیں ہے۔ تب پاکستان نے بروقت جوابی دھماکہ کر کے ساری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا اب اللہ کے فضل و کرم سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایٹمی توازن قائم ہوچکا ہے۔ وہ ہزار پروپیگنڈے اور منفی عزائم کے باوجود بھی پاکستان سے خوف کھاتا ہے اور کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے بڑے محتاط انداز میں سو چتا ہے۔اگرچہ بھارت کی افواج پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے لیکن پھر بھی ان میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف جنگ کرنا تو دور کی بات ہے محض سوچ بھی سکیں۔ چھوٹے سے چھوٹا سپاہی بھی ایمان و جذبہ سے سرشار اپنے وطن عزیز کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھ کر راہ عمل پر نکلتا ہی شہادت کا جام نوش کرنے کے لیے ہے۔ بھارتی فوج اس قدر کمزور اور بزدل ہے کہ زیادہ تعداد میں ہونے کے باوجود ہمارے چند مٹھی بھر فوجیوںسے گھبراتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور سہمے ہوئے انداز میں اپنی نقل و حرکت کرتے ہیں۔ بھارت کی زمینی فوج کی بڑی نفری کشمیر میں بے گناہ لوگوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے۔ اس لیے بھارت کے پاس وہ قوت نہیں رہی جو بھرپور حملہ کرکے اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کر سکے۔ دونوں ملکوں کے پاس موجود روایتی فوج اور ایٹمی طاقت میں توازن برقرار ہے جو کہ دو مختلف صلاحتیں ہیں اور ایک دوسرے کا متبادل نہیں ہو سکتیں۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ امریکہ و بھارت کے مذاکرات کی پیش رفت پاکستان کے لیے خوش آئند ہے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر اور دوسرے معاملات کو طے کرنے میں آسانی نظر آتی ہے۔ اس لیے یہ بات ازحد ضروری ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات میں نہ تو جلدی کرے اور نہ ہی کسی خوف و دباﺅ کے تحت آکر ایسی مصالحت پر تیار ہو جائے جوان کے حق میں بہتر نہ ہو۔ کشمیر سے متعلق چند حقائق ذہن نشین کرنا ضروری ہیں۔ کشمیری آزادی کے اصل محرک کشمیری ہیں یہ دو فریقوں کے درمیان جنگ نہیں بلکہ ان میں تیسرے نمبر پر اہم ترین فریق کشمیری ہیں۔ جن کی وجہ سے ہی یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے اور جنہوں نے اپنی آزادی کے لیے اتنی بھاری قربانی دی ہے۔ یہ جنگ 1846ءمیں آغاز پذیر ہوئی جب فرنگیوں نے چند سکوں کے عوض ایک ہندو راجہ کے ہاتھ کشمیر فروخت کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے تحریکیں چلتی رہی ہیں۔ 1932میں بھرپور تحریک چلی جسے انگریزوں کے ساتھ سازباز کر کے سختی سے کچل دیاگےا۔ 1947ءمیں دوبارہ تحریک کا آغاز ہوا اور بھارت کی مداخلت کے سبب پاکستان بھی کشمیر کی جنگ آزادی کی حمایت میں بھارت کے ساتھ اس تنازع کا حصہ بن چکا ہے۔ 1990ءکے بعد کشمیریوں نے سری نگر کی وادی سے جنگ آزدی میں نئی جان ڈالی جو پھیل کر پورے کشمیر کی جدوجہد آزادی کا حصہ بن چکی ہے اور بھارت کی 8لاکھ فوج اسی تحریک کو کچلنے میں ناکام رہی ہے اور اب وہ اپنی ناکامی کا الزام پاکستان پر لگا رہا ہے کہ سرحد پار سے مداخلت ہو رہی ہے جب کہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ بھارتی فوج کئی گنا بڑی ہونے کے باوجود پاکستان کے خلاف جنگ کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔گزشتہ دور میں تقریباً بارہ سے پندرہ ہزار جہادی کشمیر کی جنگ آزادی میں مصروف رہے تقریباً 50فیصد جہادی ان میںسے مقبوضہ کشمیر کے رہنے والے تھے۔ جن کی ہزاروں قبریں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ ان کا جذبہ شہادت اتنی جابرانہ ظالم قوت کے سامنے بھی قائم و دائم رہا ہے۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں

25فیصد جہادی بیرونِ ممالک سے آئے تھے اور 25فیصد وہ جہادی تھے جنہوں نے افغانستان میں روسیوں کے خلاف جنگ لڑی اور پھر ان میں سے زیادہ حصہ ان جہادیوں پر مشتمل تھا جو آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے تھے اور باقی چند پاکستان سے جاتے تھے۔ جن پر حکومت نے بہت بھاری پابندیاں لگا کر سختی سے روک دیا تھا۔ ابھی دونوں اطراف سے سیز فائر کے بعد ماحول خاصا خوشگوار اور پر امن دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح اس مسئلہ کے پیدا کرہ حالات و واقعات دیرینہ اور خاصے وقت پر مشتمل ہیں۔اسی طرح ان کے حل اور پیش رفت میں بھی خاصا وقت درکار ہے۔ پچھلے 20سالوں سے بھارت کی فوج کشمیری مجاہدوں کے ساتھ جنگ کرتے کرتے تھک چکی ہے۔ یہ تھکان ہر قابض فوج کے قلوب و اذہان پر آہستہ آہستہ مسلط ہو جاتی ہے۔ جس طرح نا ئجےر ےامیں فرانس کی فوج، ویتنام میں امریکہ کی فوج اور افغانستان میں روسیوں کی فوج کے اعصاب کمزور پڑ گئے تھے اور وہ پسپائی پر مجبور ہوئے۔ایک پختہ جنگی تجزیہ ہے کہ قابض فوج جب ۵لاکھ سے تجاوز کر جائے اور ایک مدت گزر جانے کے باوجود تحریک آزادی کو دبایا نہ جا سکے تو قابض فوج اور حکومت سخت نفسیاتی دباﺅ کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس نفسیاتی دباﺅ اور پسپائی کے بعد ہی تو بھارت اب مذاکرات کے لیے آمادہ ہوا ہے اور اس مسئلہ پر دن بدن خاصی لچک دکھانی شروع کی ہے۔ بیرونی طاقتوں میں جس ملک نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور بھارتی حکومت پر خاصا دباﺅ بھی ڈالا ہے اس پیچیدہ مسئلہ کے حل کے لیے وہ پاکستان کا دوست ملک چائنہ ہے۔ جس نے ہر لمحہ اپنی دوستی کا حق ادا کیا ہے اور اس تعلق پر جتنا بھی فخر کیا جائے وہ کم ہے۔ پاکستان کی ملکی سیاست حزب اقتدار و اختلاف کے درمیان سخت تناﺅ کا شکار ہے۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ مذاکرات اب بھی جاری و ساری ہےں پاکستان میں اندرونی محاذ پر استحکام اور پر امن فضا ہی اس مسئلہ پر مثبت انداز میں اثر انداز ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا قیام امن اور ترقی کی ز مانت مسئلہ کشمیر کے حل میںپنہاں ہے۔ فوجی قوتیں اور حساس ادارے بھی زیادہ اس بات پر زور دیتے ہو ئے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ سارے معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں کیونکہ ایک منتخب جمہوری حکومت ہی بھارت کے ساتھ صحیح طریقہ سے مذاکرات کرنے کی اہل ہے۔ کشمیر میں تمام تر تحریکوں اور اٹھنے والی حق کی صداﺅں کا مرکز و محور پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔ چاہے وہ خودمختار کشمیر کی آواز ہو یا الحاق پاکستان دونوں صورتوں میں جیت پاکستان ہی کی ہو گی اور آخری مسکن و محور کشمیریوں کا پاکستان ہی ٹھہرے گا۔ مسئلہ کشمیر کے پر امن اور دیرپا حل کے لیے ایک آخری تحریک اور روشنی کی کرن افغانستان کے پہاڑوں سے طلوع ہو گی اور وہ بھارت کی بربادی اور ظلم و بربریت کے خاتمے کی عظیم داستان رقم کر جائے گی۔ جس کے اثرات اور ہولناکیاں بھارت کے درو دیوار ہلا کر رکھ دیں گے۔ اور کشمیری باعزت اور آزاد عوامی طاقت کے ساتھ پاکستان کو مکمل کریں گے اور قائداعظم محمد علی جناح کا یہ قول کہ ”کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے“ شرمندہ تعبیر ہو کر رہے گا۔
ہوائے دور مئے خوشگوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 105938 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More