عامل کامل ابو شامِل قسط ١٠ (اسپیشل)

گُذشتہ سے پیوستہ۔

لیکن دوسرے مضمون ،، دانہ ثمانی ،، کے مُطالعے نے پھر اسکے شوق کو مہمیز دی۔ اس عمل کی جہاں مدت صرف چالیس دِن تھی۔ وہیں اسکی شرائط بھی پہلے عمل کے مُقابلے میں اُسے کچھ سہل نظر آئی۔ جبکہ اسکے فوائد بھی اُسے پہلے عمل کی نسبت کُچھ زیادہ مِحسوس ہُوئے۔ وہ رات بھر بڑے اشتیاق سے کتاب کے مُطالعہ میں گُم رہا۔ لیکن نیند کی وادیوں میں کھونے سے قبل کامل علی دانہ ثمانی کے موکل کو حاصِل کرنے کا پُختہ ارداہ کرچُکا تھا۔

اَب مزید پڑھیئے

کتاب میں درج ہدایات کے مُطابق کامِل علی نے چاند کی پانچ تاریخ کا بڑی شِدت سے انتظار کیا۔ اور جُونہی پانچ کی سحر نمودار ہُوئی۔ کامل علی نے روزے کی نیت کرلی۔کتاب میں درج ترک جمالی و جلالی کی ہدایات اگرچہ کافی سخت و دُشوار تھی۔ لیکن کامل نے تَہیہ کرلیا تھا کہ جب تک وہ دانہ ثمانی کے موکل کو حاصل نہیں کرلیتا وہ باز نہیں آئے گا۔ تمام دِن روزے کی حالت میں وہ جسم سے احرام نُما چادر لپیٹے ذکر و اَذکار میں مشغول رِہتا۔

مغرب کی اَذان ہُوتے ہی بُھنے ہُوئے چنُّوں اور دریا کے سادہ پانی کیساتھ وہ اِفطار کرلیتا۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہُونے کے بعد وہ دانہ ثمانی کی عزیمت میں مشغول ہُوجاتا۔ ابتدائی چند دِنوں میں اگرچہ کامل علی کو تنہائی اور پرہیز سے بُہت کوفت محسوس ہُوتی اور کبھی کبھی خُوف کی شِدت سے اُس کے جسم پر لرزہ کی کیفیت طاری ہوجایا کرتی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ وہ اسکا عادی ہُوتا چلا گیا۔ ایک مہینے کے بعد جُوں جُوں چلہ کے اختتام کی تاریخ نزد آتی جارہی تھی۔ کامل کی اُمیدیں بھی جوان ہُوتی چلی جارہی تھیں۔

بِلاآخر چَلّے کی آخری رات کی گھڑیاں بھی آپُہنچیں۔ کَامل علی کو اِس دِن کا بڑی بے چینی سے انتظار تھا۔ وہ آخری نشست سے قبل مختلف پِلان بنانے میں مصروف تھا۔ کہ جُونہی دانہ ثمانی کا موکل حاضر ہُوکر عہد وپیمان کرے گا۔ تب وہ دانہ ثمانی کے موکل کو سب سے پہلا حکم یہی دیگا کہ،، وہ فوراً جاکر چاچا ارشد کا گَلا گھونٹ ڈالے اور اُسکے بعد نرگِس جہاں کہیں بھی ہُو۔ اُسے لا کر میرے قدموں میں ڈال دے۔ اسکے بعد میں اُس نوجوان کو تلاش کرونگا۔ جِس نے جوانی میں اَمَّاں کا جینا حرام کیا ہُوا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ میں موکل کے ذریعہ سے اپنا عالیشان محل نُما گھر بنواؤں گا۔ جس میں ایک دُو نہیں بلکہ سینکڑوں حَسین کنیزوں کو دُنیا بھر سے منگوا کر اپنے اُس مِحل نُما گھر میں رکھوں گا۔

عزیمت کا وقت ختم ہُوگیا۔ لیکن موکِل حاضر نہ ہُوا ۔ کامل انتظار کرتا رَہا لیکن وہ نہیں آیا۔ یہاں تک کہ سورج کی کرنیں نمودار ہُوگئیں۔ کَامِل نے کئی مرتبہ دِنوں کا حِساب لگایا۔ ہر مرتبہ اور ہر طرح حساب لگانے پر ایک ہی جواب حاصِل ہُوا کہ چالیس دِن مُکمل ہُوچکے تھے۔ لیکن اِس خلوت نشینی اور ترک جمالی و جلالی کا کوئی فائدہ کامل علی کو حاصِل نہیں ہُوا۔

چند دِن دلبرداشتہ رہنے کے بعد کامل نے دُوبارہ کتاب کا مُطالعہ کیا۔ تو عَمل کے نیچے ایک سطر مزید نظر آئی جِس پر کامل علی کا پہلے دھیان نہیں گیا تھا۔ یہ ایک نُوٹ تھا۔ جو قوسین میں درج تھا جِس میں لکھا تھاکہ،، اگر تمام شرائط کو پُورا کرنے کے باوجود بھی موکِل حاضر نہ ہُو۔ تب بھی دِل چھوٹا نہ کریں بلکہ جب تک تین چلے پُورے نہ ہُوجائیں۔ اپنی کوشش جاری رکھیں۔ پہلی، دوسری کوشش بھی ناکام ہُوجائے تب انشاءَاللہ تیسری کوشش ناکام نہیں جائے گی۔

اگرچہ دُوبارہ احرام کی چادریں لپیٹ کر گھر میں بند ہُونے کا پھر سے اِحساس ہی بڑا رُوح سوز تھا۔ لیکن کامل کو ضد سوار تھی کہ چاہے مجھے کوئی بھی قیمت دینی پڑ جائے۔ لیکن میں چاچا ارشد سے انتقام لے کر ہی رَہوں گا۔ کامل نے دوبارہ اپنی تمام توانائیاں جمع کیں اور پھر سے چلے میں بیٹھ گیا۔ لیکن دوسرا چِلہ بھی پہلے چِلّے کی طرح ناکام رہا۔

دوسرے چِلے کی ناکامی کے بعد کامل علی کا یقین متزلزل ہُوچُکا تھا۔ لیکن کِتاب کی ہِدایات کے مُطابق تیسرا چِلّہ ناکام نہیں ہُوسکتا تھا۔ اسلئے کامل علی نے کمر باندھی اور تیسرے چلے میں مشغول ہُوگیا۔ حالانکہ متواتر روزوں اور نامناسب غُذا کی وجہ سے کامل علی کا جِسم سوکھ کر رِہ گیا تھا۔ تیسرے چِلے کا انجام بھی پہلے دونوں چِلوں سے مختلف نہ تھا۔ لیکن کامل علی کو یقین تھا۔ کہ اِس مرتبہ موکِل ضرور حاضر ہُوگا۔ اسلئے وہ دانہ ثمانی کے موکِل کا آخری رات میں انتظار کررہا تھا۔

دانہ ثمانی کا موکل تُو نہیں آیا۔ البتہ کوئی دروازے پر بڑی شِدت سے دستک دیئے چلا جارہا تھا۔ کامل علی کا غُصے کی وجہ سے بُرا حال تھا۔ بلاآخر جب کافی وقت گُزر گیا۔ تب کامل نے جھنجلا کر بخورات کو ہاتھ سے اُٹھا کر دیوار پر دے مارا۔ دروازے پر مسلسل دستک جاری تھی۔ کامل علی نے سُوچا پہلے سائل سے نمٹ لیا جائے اُسکے بعد دیکھوں گا کہ آخر ایسی کونسی خامی میرے عمل میں موجود ہے۔ جسکی وجہ سے میں ابتک محروم کا محروم ہی رَہا ہُوں۔

کامِل علی نے جھنجلا کر جُونہی دروازہ کھولا۔ سامنے ایک بُہت ہی لاغر سا نوجوان ہاتھ میں دستی پنکھے لئے بَدرِ قمر کی چاندنی میں کامِل کو نظر آیا جُو اُسکی آمد کا ہی منتظر تھا۔ کیا بات ہے کیوں دروازہ پیٹ رہے تھے۔ کامل علی نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں دریافت کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟

جناب آپ نے پنکھوں کا آرڈر دِیا تھا۔ وہی لیکر حاضر ہُوا ہُوں۔۔۔ لاغر نوجوان نے ترکی با ترکی جواب دِیا۔

بے وقوف آدمی میں نے کِسی کو پنکھوں کا آرڈر نہیں دیا۔ کامِل علی نے چِلَّاتے ہُوئے کہا۔

کیا آپ کا نام کَامِل علی نہیں۔۔۔۔۔؟ لاغر نوجوان نے استفسار کیا۔۔۔۔؟

اُو میرے بھائی میرا ہی نام کامل علی ہے۔ اور اِس پُورے مُحلہ میں کوئی دوسرا کامل علی نام کا بندہ بھی نہیں ہے۔ لیکن میں نے پنکھوں کا آرڈر نہیں دِیا۔۔۔! کامل علی نے ہاتھ جُوڑتے ہُوئے اُکتائے ہُوئے لہجے میں کہا۔

تب میں کیا کروں۔۔۔؟ لاغر نوجوان نے سہمے ہُوئے لہجے میں دریافت کیا۔

تُم یہاں سے دفع ہُوجاؤ۔۔۔۔ کامل علی نے ہاتھ نچاتے ہُوئے جواب دیا۔

کیا آپکو واقعی پنکھوں کی ضرروت نہیں ہے۔ لاغر نوجوان نے گھبراتے ہُوئے دُوبارہ پُوچھا

بھائی کہہ دیا نا کہ مجھے نہیں چاہیئے۔ اب تُم چلتے پھرتے نظر آؤ شاباش۔

ٹھیک ہے بھائی میں چلا جاتا ہُوں یہاں سے۔ مگر بعد میں میرے مالک سے یہ مت کہنا کہ میں تُمہارے پاس نہیں آیا تھا۔

تُم جاتے ہُو یہاں سے یا میرے ہاتھوں اپنی جان گنواؤ گے۔ اب اگر تُم ایک لمحہ بھی یہاں ٹہرے تُو میں تُمہارا سر پھاڑ دُونگا۔ کامل علی نے دہاڑتے ہُوئے دروازے میں اَٹکی لوہے کی راڈ باہر نِکال لی۔

وہ لاغر نوجوان کامل علی کے ارادے کو بھانپ کر فوراً وہاں سے چل دِیا لیکن چند قدم دُور جانے کے بعد اُس نے پلٹ کر کامل علی کی طرف دیکھ کر مُسکراتے ہُوئے کہا ،، بھائی جب تُمہیں نہ ہی پنکھ کی ضرورت تھی۔ اور نہ ہی میری طلب تھی۔ پھر کِس لئے ایک سو بیس دِن سے اپنی جان ہلکان کئے جارہے تھے۔

اِس سے پہلے کہ کامل علی کُچھ سمجھ پاتا۔ دانہ ثمانی کا موکِل اپنی اصل ہیت اختیار کر کے فضاؤں میں پرواز کرگیا

(جاری ہے)

اے عشق تیرے صدقے جلنے سے چُھٹے سستے
،، جو آگ بُجھائے گی وہ آگ لگائی ہے ،،

پَلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1059793 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More