کڑوا سچ

اس میں شک و شبہ کی مطلق کو ئی گنجائش نہیں کہ افتحار محمد چوہدری نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا یا تھا اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاءکو جائز قرار دینے والے ججز میں وہ بھی شامل تھے۔ جنرل پرو یز مشرف کو تین سال تک اقتدار میں رہنے اورآئین کو بدل دینے کا فیصلہ انہی کے قلم سے لکھا گیا تھا لیکن اسکے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے سامنے سر نگوں ہونے سے انکار بھی انھوں نے ہی کیا تھا۔ باعث حیر ت تو یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی جمہوری حکومت کی برخاستگی پر ان کا ضمیر نہیں جاگا تھا لیکن جب انکی اپنی ذات کو نقصان پہنچنے کا مرحلہ آیا اور وہ خود جنرل پرویز مشرف کی آمریت کا نشا نہ بنے تو انھوںنے ڈٹ جانے کاعزم کرلیا جسے عوام نے بڑی پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور ان سے اظہارِ یک جہتی کیا۔ یہ اظہارِ یک جہتی ہی در اصل وکلاتحریک کی قوت تھی جس نے آخرِ کار جنرل پرویز مشرف کو جھکنے میں اہم کردار ادا کیا اور ایک آمر کی وقتی شکست اسکی ازلی شکست کا پیش خیمہ ثابت ہو ئی اور آجکل وہ بیرونِ ملک چھپتے پھر رہے ہیں اور کہیں ان کو جائے پناہ نہیں مل رہی۔ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان واپسی کی بڑی کوششیں کی لیکن کچھ مقتدر حلقوں نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا لہذا انکی واپسی اب سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے ۔ قوم نو مارچ ۷۰۰۲ کو اس بات کا اندازہ لگانے سے قاصر تھی کہ جنرل پرویز مشرف کی سیاسی موت کا نقطہ آغاز وکلا تحریک بن جائےگی ۔ جرات ہمیشہ سے انسانوں کےلئے وجہ تحسین رہی ہے اور ہمیشہ سے عوامی پذیرائی حاصل کرتی رہی ہے اور افتحار محمد چوہدری کا انکار چونکہ جراتِ رندانہ کا بڑا واضح اظہار تھا لہذا لوگوں کے دلوں کو چھو گیا اور افتحار محمد چوہدری امید کی کرن بن کر ایک نئے ہیرو کے روپ میں نمو دار ہوئے۔ کوئی بھی انسان جب زندگی کے دو راہے پر آزمائش کے لمحوں میں جرا ت و ہمت کے نئے چراغ روشن کرتا ہے تو پھر اسکا ماضی کہیں دور دفن ہو جاتا ہے اور لوگ اسکی نئی تخلیق شدہ شخصیت کے داغ داغ ماضی کو بھول کر اسے نئے انسان کے روپ میں قبول کر لیتے ہیں جس نے نعرہِ مستانہ بلند کر کے ظلم و جبر کی بلند بالا دیواروں کو زمین بوس کرنے میں کلیدی کردار ادا کیاتھا ۔تاریخ کے اوراق اسی طرح کے سر پھرے انسانوں کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں جنھوں نے اپنی تاریخی جدو جہد سے پورے معاشر ے کی سوچ کو بدل کر رکھ دیاتھا ۔ افتحار محمد چوہدری پر لگائے گئے سارے الزامات ان کے ایک نعرہِ مستانہ کی موجوںمیں ڈوب گئے اور ان کی شخصیت کا نیا انداز لوگوں کے دلوں کو تسخیر کر گیا۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ شخصیت بلا امتیاز انصاف کی اس راہ سے بھٹک کر ایک مخصوص پارٹی سے تصادم کی راہ پر کیسے نکل گئی جس کےلئے پوری قوم نے قربانیاں دی تھیں اور اپنا لہو دیا تھا۔حیر ان کن بات تو یہ ہے کہ جنکے لہو سے چمن میں پھول کھلے تھے انھیں ہی سرِ دار کھینچنے کی تیاریاں زو رو شور سے جاری ہو گئیں اور انکی ساری جدو جہد کو پسِ پشت ڈال کر انھیں مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی روش کو اختیار کر لیا گیاجسکی وجہ سے مختلف اداروں میں ٹکراﺅ کی صورتِ حال پیدا ہو گئی ۔جنرل پرویز مشرف نے گیارہ نومبر 2008 کی ایمرجنسی کے اعلان کے بعد بہت سے ججز کو نظر بند کر دیا تھااور جب تک وہ بر سرِ اقتدار رہا یہ سار سارے ججز گھروں میں نظر بند رہے ۔ افتحار محمد چوہدری کی سبکدوشی کے بعد عبد الحمید ڈ وگر نے نئے چیف جسٹس کا حلف اٹھا یا اور وکلا کے احتجاج کے با وجود بھی ججز نہ تو بحال ہو سکے اور نہ ہی نظر بندی سے رہا ہو سکے۔ سارے و کلا عبد الحمید ڈوگر کی عدالتوں میں پیش ہو تے رہے اور اپنے مقدمات کے فیصلے لیتے رہے لیکن وکلا کا عزم تھا کہ وہ افتحار محمد چوہدری کو بحال کرا کے دم لیں گئے۔ فروری 2008 کے انتخابات میں پی پی پی کی واضح جیت کے بعد اسکے نامزد وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے حلف اٹھانے سے قبل اعلان کیا کہ تمام ججز کو رہا کیا جائے اور یوں کئی ماہ کی نظر بندی کے بعد ججز آزاد ہوئے جسکا سارا کرید ٹ پی پی پی کی حکومت کو جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اب بھی صدرِ پاکستان کی مسند پر جلوہ افروز تھے اور مسلم لیگ کے وزرا نے کالی پٹیاں باندھ کر جنرل پرویز مشرف سے حلف اٹھا یا تھا جسکی ان سے توقع نہیں تھی لیکن اقتدار کی خاطر اصولوں کا بلیدان دینا ہماری سیاست کا ہمیشہ سے طرہِ امتیار رہا ہے لہذا مسلم لیگ (ن) کے اس رویے سے لوگوں کو کوئی حیر انگی نہیں ہو ئی لیکن اس سے مسلم لیگ (ن) کے چہر ے سے ملمع سازی کا نقاب ضرور اتر گیاتھا۔ عبد الحمید ڈوگر اب بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے او ر ججز کی رہائی کے باوجود نئے ججز اپنے اپنے فرائض ادا کرنے سے قاصر تھے۔ اپوزیشن جماعتو ں نے جون 2008 میں ججز کی بحالی کےلئے ایک لانگ مارچ کیا اور ایوانِ صدر کے سامنے ڈیرے ڈال گئے لیکن وہ ججز بحالی کا پروانہ اپنے ساتھ لانے میں ناکام رہے ۔ہزاروں لوگوں کا اجتماع اسلام آباد میں دیکھنے کو ملا لیکن جس مقصد کےلئے یہ لانگ مارچ روبہ عمل لایا گیا تھا وہ مقاصد حاصل نہ ہو سکے۔یہ وہی لانگ مارچ ہے جس میں پی پی پی کی حکومت نے مظاہرین کی خاطر مدارت ٹھنڈے مشروبات سے کی تھی ۔ مجھے ان لوگو ں سے اختلاف ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ججز لانگ مارچ سے بحال ہو ئے تھے۔ اگر ججز لانگ مارچ سے ہی بحال ہونے ہوتے تو پھر جنرل پرویز مشرف کے خلاف لانگ مارچ سے ہی بحال ہو جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر ایک آمر کو لانگ مارچ سے ڈرا یا دھمکایا نہیں جا سکتا تو پھر ایک عوامی جماعت جو خود بہت سے لانگ مارچ کر چکی ہو اسے لانگ مارچ کے خوف سے ججز بحال کرنے پر مجبور کیسے کیا جا سکتا تھا ؟

پاکستان کی تاریخ کے اوراق اگر الٹ کر دیکھیں توسب کو اندازہ ہو جائےگا کہ پاکستان کی تاریخ میں بے شمار لانگ مارچ ہوئے لیکن کوئی بھی لانگ مارچ اپنے مقا صد حا صل نہیں کر سکا۔ پی پی پی نے 1992میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے خلا ف ایک لانگ مارچ کیا لیکن لاٹھیاں وا ٹھیاں کھا کر گھروں میں بیٹھ گئے۔ دوسرا لانگ مارچ جنرل مشرف کے خلاف 2008 میں کیا تھا لیکن اس میں بھی کوئی خا طر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی تھی ۔ مسلم لیگ (ن) نے پی پی پی کی حکومت کے خلاف ایک لانگ مارچ کیا تھا لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔جما عت اسلامی تو ہر ماہ ملین مارچ کا اعلان کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے ان لانگ مارچوں میں چند ہزار لوگ ہی شریک ہو تے ہیں لہذا مطا لبے کی منظوری کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔چین کے عظیم انقلابی راہنما ما ﺅ زے تنگ نے 1938 میں لاکھوں کامریڈوں کے ساتھ جو لانگ مارچ کیا تھا وہ تاریخ میں آج بھی زندہ ہے اور انقلاب کی علامت بنا ہوا ہے لیکن اس لانگ مارچ کے نتیجے میں نہ تو حکومت گرائی جا سکی تھی اور نہ ہی حکمرانوں کو ان کی مسندوں سے نیچے اتارا جا سکاتھا۔ ایک کاوش تھی جو کی گئی ،ایک بغاوت تھی جس کا اظہار کیا گیا اور ایک تحر یک تھی جس کا آغاز کیا گیاجس کے نتائج 1949 میں ایک آزاد اور خو د مختار چین کی صور ت میں نکلے اور ماﺅزے تنگ کے ثقافتی انقلاب نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیالہذا یہ تصور کر لینا کہ ججز کی بحالی لانگ مارچ کی بدولت ممکن ہو ئی تھی احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ ویسے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بحثیتِ قوم ہمیں خوابوں اور احمقوں کی جنت میں رہنے کا مرض لاحق ہے جس نے بحثیتِ قوم ہمیں بہت نقصان پہنچا یا ہے۔ ہم حقائق سے گریز کی راہیں تلاش کرتے رہتے ہیں جس سے ہم ایک ترقی یافتہ قوم نہیں بن سکے۔ ہم میں جذباتیت اور نمودو نمائش کا مادہ بہت زیادہ ہے جو ہمیں کھوکھلی زندگی کا عادی بنا تا ہے اور حقائق سے فرار کا راستہ دکھا تا ہے ۔ ججز کی بحالی کاسارا کریڈٹ پی پی پی کی حکومت کو دیا جانا ضروری ہے کیونکہ اگر وہ ا یسا کرنے سے انکار کر دیتی تو کون تھا جو ان کی بحالی کے احکامات جاری کرتا ۔ہر کا م ا صو ل و ضوابط کے مطابق ہو تا ہے لہذا ججز بحالی کا فریضہ عوامی قوت سے نہیں بلکہ صدرِ پاکستان کے نوٹیفکیشن سے ہو نا تھا اور اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کر دیتے تو پھر یہ نو ٹیفکیشن کو ن جاری کرتا۔ پاکستان میں ابھی ایسی صورتِ حال پیدا نہیں ہو ئی کہ عوام اداروں کو ملیا میٹ کر کے خود ہی اقتد ا ر پر قابض ہو جائیں اور احکامات صادر کرتے پھریں۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی فراست کی داد دینی چائیے کہ انھوں نے عوامی مطالبے کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے عوامی مطالبے کو پذیرائی بخش کر اس مسئلے کو ہمیشہ کےلئے ختم کر دیا۔۔

اگست 2008 میں جنرل پرویز مشرف کے مستعفی ہو نے کے بعد ستمبر 2008 کو آصف علی زرداری نے صدرِ پاکستان کا حلف اٹھا یا لیکن ججز پھر بھی بحال نہ ہو سکے۔ وکلا، مسلم لیگ (ن) تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی ان کی بحالی کے لئے زور دیتی رہیں لیکن حکومت انھیں وعدہِ فردا پر ٹر خا تی رہی۔ عبدالحمیڈ ڈوگر کی چیف جسٹس کی آئینی مدت مارچ 2009 تک تھی لہذا پی پی پی کی حکومت چاہتی تھی کہ اس وقت تک پورے عدالتی نظام کو یونہی چلنے دیاجائے اور عبدالحمید ڈوگر کی ر یٹا ئر منٹ کے بعد کسی نئے آئینی انتظامات کی بنیاد رکھی جائے ۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کو ڈھیل دینے کےلئے تیار نہیں تھیں او ر افتحار محمد چوہدر ی کی ہر صورت میں فوری بحالی چاہتی تھیں ۔ ایک ہنگامہ تھا جو ہر سو مچا ہوا تھاحکومت تحمل اور برداشت سے مسئلے کو حل کرنا چاہتی تھی جب کہ اپوزیشن حسبِ روا ئت شور شرابے اور ہنگاموں کے زور پر مسئلے کا فوری حل چاہتی تھی ۔ اسی دوران ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ پنجاب میں میاں شہباز شریف کی حکومت کو ختم کر کے گورنرراج نافذ کر دیا گیا اور وہ جنگ جو پہلے دبے دبے الفاظ میں جاری تھی بالکل آتش فشاں کی شکل میں پھٹ پڑی ۔ مسلم لیگ(ن) کی سیاست کا سب سے مضبوط قلعہ پنجاب تھا اور اگر اس قلعے پر پی پی پی قا بض ہو جاتی تو پھر مسلم لیگ (ن) کی سیاست دم توڑ جاتی لہذا اس گورنر راج کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ پی پی پی حکومت کے خلاف اپنی جدو جہد مز ید تیز کر کے وفاق پر چڑھائی کر دی جائے اور مسلم لیگ(ن) نے یہی کیا ۔ میاں شہباز شریف اگر اپنی حکومت کی بحالی کےلئے عوام کو وفاقی حکومت کے خلاف سینہ سپر ہو نے کی دعوت د یتے تو شائد کوئی ان کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوتالیکن اگر عدلیہ کی بحالی کا نعرہ لگا کر ذاتی مقاصد حا صل کرنے کی کوشش کی جاتی تو پھر عوامی حمائت کی امید کی جا سکتی تھی لہذا مسلم لیگ(ن) نے کمال ہوشیاری سے ذاتی جنگ کو عدلیہ کی جنگ کا نام دے کر لانگ مارچ کا اعلان کر دیا اور وفاق پر چڑھائی کرنے کےلئے نکل کھڑے ہو ئے ۔اس لانگ مارچ میں مذہبی جماعتوں، تحریکِ انصاف وکلا برادری اور سول سوسائٹی نے بھر پور حصہ لیا۔ ابھی یہ لانگ مارچ گوجرا نوالہ تک ہی پہنچ پایا تھا کہ حکومت نے ججز کی بحا لی کا اعلان کر کے لانگ مارچ کے غبارے سے ہوا نکال دی ۔یہ الگ بات کے تمام ججز نے اپنے فرائض کی ادائیگی چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی سپریم کورٹ سے ریٹائر منٹ کے بعد ہی شروع کی تھی ۔ اگر میں یہ کہوں کہ حکومت کے اس موقف کا تسلیم کر لیا گیا تھا کہ عبدالحمید ڈوگر آئینی چیف جسٹس تھے یہ الگ بات کہ افتحار محمد چوہدری نے اپنی بحالی کے بعد عبدا لحمید ڈوگر کو غیر آئینی چیف جسٹس قرار دے دیا تھا اور اس دور کے سارے فیصلوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 449923 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.