نبی رحمت ﷺ اور کسب معاش ۔ قسط1

تحریر:مولاناتوحیدعالم بجنوری

یا ایہا الرسل کلوا من الطیبات ﴿الآیۃ﴾ اس خدائی حکم اور قانونِ الٰہی پر تمام انبیائ علیہم الصلوٰۃ والسلام نے اپنے اپنے زمانے اور عہد کے لحاظ سے مختلف طریقوں سے عمل کیا بالخصوص نبی آخر الزماں، رحمت عالم، ہادیٔ دوعالم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے بھی مذکورہ قرآنی دستور کو عملی جامہ پہنایا، آقائے دو جہاں کبھی دایہ حلیمہ کے بچوں کے ساتھ بکریاں چراتے ہیں، تو کبھی خواجہ ابوطالب کے ساتھ بغرض تجارت شام کا سفر کرنے پر بضد ہوتے ہیں، محبوب رب العالمین اگر خدیجتہ الکبریٰ کا مال، مضاربت کے طور پر لے کر شام کا سفر فرماتے ہیں، تو اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے بدلے جنگل میں چراتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں، کیوں کہ آپ فرماتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہوتا اور اللہ کے نبی حضرت داؤد علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے تھے اور حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ’’معارف القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں: کسبِ معاش کے ذرائع میں تجارت اور محنت سب سے افضل اور اطیب ذریعۂ معاش ہے، لہٰذا رسول خداﷺ نے تجارت اور سوداگری فرمائی ہے۔

شغل تجارت
﴿۱﴾ حضرت عبداللہ بن ابی الحمسائ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے بعثت سے قبل ایک مرتبہ محمد بن عبداللہ﴿ﷺ﴾ سے ایک معاملہ کیا، میرے ذمہ کچھ دینار باقی تھا، میں نے آپﷺ سے وعدہ کیا کہ میں ابھی لے کر آتا ہوں، اتفاق سے گھر جاکر وعدہ بھول گیا، تین دن کے بعد یاد آیا کہ آپﷺö سے وعدہ کرکے آیا تھا، یاد آتے ہی فوراً وعدہ گاہ پہنچا تو آپﷺکو اسی مقام پر منتظر پایا۔ آپﷺنے صرف اتنا فرمایا: تم نے مجھ کو زحمت دی، میں تین روز سے اسی جگہ تمہارا انتظار کررہا ہوں۔

﴿۲﴾ آپﷺ نے بعثت سے قبل عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی تجارت میں شرکت فرمائی تھی، وہ آپﷺ سے کہتے ہیں کنتَ شریکی فنعم الشریک لا تداری ولا تماری ﴿آپﷺ تو میرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک تھے، نہ کسی بات کو ٹالتے تھے اور نہ کسی بات میں جھگڑتے تھے﴾۔

﴿۳﴾ آپﷺ نے قیس بن سائب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی تجارت میں شرکت فرمائی تھی، وہ فرماتے ہیں: کان خیرَ شریکٍ لا یماری ولا یشاری ﴿آپ بہترین شریک تھے، نہ جھگڑتے تھے، نہ کسی قسم کا مناقشہ کرتے تھے﴾۔

﴿۴﴾ حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے مال میں بطور مضاربت ملکِ شام جاکر تجارت کرنا تواتر کی حد تک مشہور ومعروف ہے، اسی سفر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام میسرہ ساتھ تھے، انھوں نے آپﷺ کے اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار کا خوب مشاہدہ کیا اور واپسی پر وہ رودادِ سفر بیان کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ایک صاحب نے آپﷺ سے کہا: لات وعزی کی قسم کھاؤ! آپﷺ نے فرمایا میں نے کبھی لات وعزّٰی کی قسم نہیں کھائی، یہ سن کر وہ صاحب کہنے لگے یہ نبی آخر الزماں کی علامت ہے۔ غرض یہ کہ یہی سفر عقدِ مسنون کا سبب اور ذریعہ ثابت ہوا۔

اصولِ تجارت
قرآن کریم، احادیث رسولﷺ اور سیرتِ طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بزنس اور تجارت بہترین پیشہ اور نبی کی سنت ہے، بشرطیکہ اسلامی اصول اور آداب کا لحاظ رکھا جائے۔ لہٰذا تجارت پیشہ لوگوں کو بہت سے اہم اور شرعی امور کی پابندی کرنی چاہیے اور متعدد کاموں سے بچنا اور پرہیز کرنا چاہیے اور ساتھ ہی عقیدہ یہ ہو کہ ان امور کی پابندی اور پرہیز سے دارین کی فلاح مقدر ہوگی۔

تجارت میں مطلوب اوصاف
﴿۱﴾ تقویٰ: رسول اللہﷺ فرماتے ہیں تاجر لوگ قیامت کے دن نافرمان لوگوں میں شامل کرکے اٹھائے جائیں گے، سوائے ان لوگوں کے جو اللہ سے ڈریں، نیکی اختیار کریں اور سچ بولیں۔
﴿۲﴾ امانت ودیانت: رسولِ اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہدائ ﴿سچا امانت دار تاجر آخرت میں انبیا، صدیقین اور شہدائ کے ساتھ ہوگا﴾ ﴿ترمذی،ج۳،ص۱۴۵﴾
﴿۳﴾ سچائی: اوپر کی روایت میں دیانت وامانت کے ساتھ ایک وصف صدق اور سچائی بھی مذکورہے۔
﴿۴﴾ نرمی اور حسن اخلاق: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے مزارعت کو حرام نہیں فرمایا، بلکہ یوں ارشاد فرمایا: ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرو ﴿مشکوٰۃ شریف،ص۳۱۵﴾
﴿۵﴾ بہتر ادائیگی: آپﷺ فرماتے ہیں کہ: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو ادائیگی میں سب سے بہتر ہو ﴿بخاری شریف، ج۱،ص۳۲۲﴾
﴿۶﴾ تول میں جھکاؤ: اجرت لے کر وزن کرنے والے سے حبیب کبریاﷺ کا ارشاد گرامی ہے: زِن وارجح ﴿تولو اور جھکاہوا تولو﴾
﴿۷﴾ صبح سویرے بیداری: اللہ کے نبیﷺ نے دعائ فرمائی کہ اے اللہ! میری امت کے لیے اس کی صبح کے اوقات میں برکت عطا فرما، لہٰذا راویٔ حدیث حضرت صخرغامدی اپنے تاجروں کو صبح کے وقت ہی بھیجتے تھے۔ چنانچہ وہ مالدار ہوگئے اور ان کے مال میں اضافہ ہوگیا۔ ﴿مشکوٰۃ شریف،ص۳۳۹﴾
﴿۸﴾ صدقہ: قیس بن غرزہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، اس زمانہ میں ہمیں ’’سماسرہ‘‘ کہا جاتا تھا، تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ’’تجار‘‘ کی جماعت! بیشک شیطان اور گناہ دونوں خریدوفروخت میں آجاتے ہیں، پس تم اپنی تجارت کے ساتھ صدقہ کو ملالو ﴿مشکوٰۃ شریف،ص۲۴۳﴾
﴿۹﴾ سخاوت: نبیِ آخر الزماںﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ سخی انسان پر رحم فرمائے جب وہ بیچے جب وہ خریدے اور جب وہ تقاضہ کرے ﴿بخاری شریف ج۱،ص۲۷۸﴾
﴿۱۰﴾ تنگ دست کی رعایت: نبی رحمتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو کسی تنگ دست کو مہلت دے یا معاف کردے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا، جس دن اللہ کے عرش کے سائے کے علاوہ کوئی اورسایہ نہ ہوگا﴿ترمذی شریف، ج۱، ص ۱ ۵ ۶ ﴾

مذکورہ بالا اوصاف کے علاوہ تاجر میں رسول اللہﷺکی اتباع بہت ضروری ہے اور حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ سیرت المصطفیٰ کی پہلی جلد میں فرماتے ہیں کہ آپﷺسب سے زیادہ بامروت، سب سے زیادہ خلیق، سب سے زیادہ پڑوسیوں کے خبرگیر، سب سے زیادہ حلیم وبردبار، سب سے زیادہ سچے اور سب سے زیادہ امانت دار تھے، لہٰذا یہ تمام اوصاف ہر مسلمان میں ہونے چاہئیں خواہ وہ تاجر ہو یا نہ ہو۔

جن چیزوں سے تاجر کو بچنا چاہیے
﴿۱﴾ ناپ تول میں کمی: ارشاد باری ہے ’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے کہ جب وہ لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیتے ہیں اور جب لوگوں کو ناپ کر یا تول کر دیں تو گھٹادیتے ہیں‘‘۔﴿مطففین﴾
﴿۲﴾ دھوکہ:رسولِ اللہﷺنے ارشاد فرمایا مَنْ غَشّ فَلَیْسَ مِنَّا ﴿جو کوئی دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں﴾ ﴿مشکوٰۃ شریف ص۲۴۸﴾
﴿۳﴾ جھوٹ:ایک مرتبہ آپﷺنے فرمایا: کیا میں تمہیں گناہوں میں سب سے بڑا گناہ نہ بتلاؤں، صحابہ کرام(رض) نے عرض کیا، ضرور بتلائیے اے اللہ کے رسول ﷺ !، آپﷺنے فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور آپﷺسہارا لگاکر بیٹھے ہوئے تھے تو بیٹھ گئے اور فرمایا: یاد رکھو اور جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی سے بچو﴿راوی نے﴾دو مرتبہ کہا،پھرآپﷺاسی کو دہر ا تے رہے، یہاں تک کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ آپ ﷺ خاموش نہ ہوں گے ﴿بخاری شریف ص۸۸۴﴾
﴿۵﴾ وعدہ خلافی کرنا: اوپر حضرت عبداللہ بن ابی الحمسائ رضی اللہ عنہ کی روایت میں گزرا کہ آپﷺحسب وعدہ تین روز تک وعدہ گاہ پر انتظار فرماتے رہے اور بعد میں کوئی جھگڑا یا برا بھلا بھی نہیں کہا ﴿سیرت المصطفیٰ جلد۱﴾
﴿۶﴾ قسم کھانا:عام طور پر تجارت پیشہ لوگوں میں جھوٹی سچی قسمیں کھانے کی عادت ہوتی ہے، لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال کو لے کر جب شام تجارت کے لیے گئے تھے تو میسرہ بیان کرتے ہیں ایک صاحب قسم کھلانے لگے تو آپﷺنے قسم کھانے سے انکار فرمادیا ﴿سیرت مصطفی جلد۱﴾
﴿۷﴾ بیجا مناقشہ کرنا: حضرت قیس بن سائب رضی اللہ عنہ کی روایت گزری کہ آپﷺبہترین شریک تجارت تھے اور جھگڑا کرتے تھے نہ کسی قسم کا مناقشہ کرتے تھے ﴿ایضاً﴾
﴿۸﴾ کسی کو نقصان پہنچانا:نبی رحمتﷺنے ارشاد فرمایا کہ جو کسی مسلمان کو نقصان پہنچائے اللہ اسے نقصان پہنچائے گا اور کسی کو مشقت میں ڈالے اللہ اس پر مشقت ڈالے گا ﴿مشکوٰۃ شریف ص۲۴۹﴾
﴿۹﴾ گالی گلوچ: فحش گوئی اور ہر بری بات سے اجتناب بھی ضروری ہے، کیوں کہ آپﷺان چیزوں سے سب سے زیادہ بچتے اور پرہیز کرتے تھے۔

بکرایاں چرانا
فخرالاولین والآخرین،امام الانبیائ والمرسلین،شفیع المذنبین، رحمۃ للعالمین اور حبیب ربّ العالمین حضرت محمدﷺنے جب آنکھیں کھولیں اور ذرا ہوش سنبھالا تو رضاعی والدہ محترمہ حلیمہ سعدیہ سے پوچھا کہ رضاعی بھائی عبداللہ نظر نہیں آتے،حضرت سعدیہ نے فرمایا کہ وہ بکریاں چرانے جاتے ہیں،اسی وقت فرمایا کل سے میں بھی بھائی عبداللہ کے ہمراہ بکریاں چرانے جاؤں گا، گویا اسی وقت یہ احساس فرمالیا کہ اپنا بار دوسروں پر ڈالنے کے بجائے خود اٹھانا چاہیے، نیز جب آپ مکہ میں رہتے تھے تو اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے بدلے چراتے تھے۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مقام ’’الظہران‘‘ میں ہم نبی کریمﷺکے ساتھ تھے کہ وہاں پیلو کے پھل چننے لگے، آپﷺ نے فرمایا: سیاہ دیکھ کر چنو وہ زیادہ خوش ذائقہ اور لذیذ ہوتے ہیں، ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا آپ بکریاں چرایا کرتے تھے؟ کہ آپ کو یہ بات معلوم ہے، آپﷺ نے فرمایا: کوئی نبی ایسا نہیں آیا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ کوئی ایسا نبی نہیں گزرا جس نے بکریاںنہ چرائی ہوں۔ صحابہ کرام(رض) نے عرض کیا کہ آپ نے بھی؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں میں اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط پر چرایا کرتا تھا۔

اجرت پر بکریاں چرانا
اجرت لے کر کوئی کام کرنا، خواہ بکریاں چرانا ہو یا کوئی دوسرا کام کرنا شانِ نبوت ورسالت کے خلاف نہیں ہے، بعض سیرت نگاروں کو ایسا محسوس ہوا تو انھوں نے اس واقعہ کی تاویلات فرمائی ہیں حالانکہ محققین کی رائے یہی ہے کہ کام کی اجرت اور مزدوری لینا کوئی غیرشرعی امر نہیں ہے اور نہ ہی مقامِ رسالت کے خلاف ہے، ہاں! تبلیغ احکام اور اشاعت دین پر اجرت لینا شانِ نبوت کے خلاف ہے، جس کو جابجا کلام الٰہی میں بیان کیاگیا ہے، نسائی شریف میں حضرت نصر بن حزن سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اونٹ والے اور بکریوں والے آپس میں فخر کرنے لگے تو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نبی بناکر بھیجے گئے اور وہ بکریوں کے چرانے والے تھے، داؤد علیہ السلام نبی بناکر بھیجے گئے اور وہ بھی بکریاں چرانے والے تھے اور میں بھی نبی بناکر بھیجا گیا اور میں بھی اپنے گھروالوں کی بکریاں مقامِ اجیاد میں چرایا کرتا تھا۔
muhammad haroon
About the Author: muhammad haroon Read More Articles by muhammad haroon: 13 Articles with 14386 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.